• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنیے  مظہر بر لاس کا آج کا کالم، ’ موسم کی شدت اور ہم ‘ انہی کی زبانی


مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ وفاقی سیکرٹری اطلاعات محترمہ زاہدہ پروین نہ صرف اخبارات کا مطالعہ کرتی ہیں بلکہ نوٹس بھی لیتی ہیں۔ خاص طور پر کالموں کو تو وہ بڑی باریک بینی سے دیکھتی ہیں۔ گزشتہ کالم کے آخر میں کہیں مختلف اداروں میں ہونے والی بےضابطگیوں کا تذکرہ تھا، اس میں پی بی سی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا ذکر بھی تھا، سیکرٹری اطلاعات نے مجھ سے کچھ ثبوت مانگے اور میں نے مانگے گئے ثبوتوں سے کہیں زیادہ ثبوت ان کو بھجوا دیے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن کی وجہ یونین کی ملی بھگت نظر آئے گی۔ ویسے آپس کی بات ہے جتنے بھی سرکاری اداروں میں یونین بنی، ان اداروں میں بربادی ہوئی۔ پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے، سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سمیت کئی اداروں کو یونین بازی نے نہ صرف خراب کیا بلکہ تباہی کے کنارے پہنچا دیا۔

پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا ہے، یخ بستہ ہوائوں نے بسیرا کر لیا ہے، لوگ سرشام گھروں میں بند ہو جاتے ہیں مگر اسلام آباد کے بند کمروں میں سازشیں پلنا شروع ہو گئی ہیں، بند کمروں کی باتیں میڈیا پر آ گئی ہیں، ہر طرف مائنس کی باتیں ہو رہی ہیں، جو لوگ مائنس کی باتیں کر رہے ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اب مائنس ون نہیں ہوگا بلکہ مائنس آل ہوگا۔ اب ایک نہیں، سب جائیں گے حالانکہ سب ایک دوسرے کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، جلسوں، میٹنگوں، میڈیا ٹاکس اور ٹویٹس میں یہ سلسلہ ایک تسلسل سے جاری ہے۔ اب اس میں زیادہ مسالا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر فواد چوہدری پوری کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف مریم اورنگزیب نے بھی ہر تیر نشانے پر رکھا ہوتا ہے۔

پت جھڑ کا موسم ہمیشہ میرے لئے دکھوں کی خبریں زیادہ لاتا ہے۔ اس بےرحم موسم نے اس مرتبہ بھی نہیں بخشا۔ میں لاہور میں اپنے کلاس فیلو منصور الٰہی شیخ سے تعزیت کے لئے گیا، ان کا جوان بھائی اچانک موت کی بانہوں میں چلا گیا، ابھی وہیں تھا کہ پتا چلا راجہ عظیم کے بھائی کو حادثہ پیش آ گیا ہے اور حادثہ موت میں بدل گیا ہے، موت عجیب شے ہے کہ انگلستان سے اپنی دھرتی پر بلوا لیتی ہے۔ موت کا دن اور مقام معین ہے، اسے کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ راجہ اظہر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ چکوال کے ان مشہور راجہ برادران کے والد راجہ نذر حسین آف استال اپنے علاقے کی معروف سماجی، سیاسی اور روحانی شخصیت ہیں۔ کالج کے زمانے کے دوست اور سینئر بیورو کریٹ فخر چیمہ کے والد چوہدری غلام علی چیمہ بھی اسی پت جھڑ میں داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کے پاس گیا تو وہاں نسیم راشد پہلے ہی سے دکھی بیٹھے تھے، وہ بھی میری طرح فخر چیمہ سے تعزیت کرنے آئے تھے۔ ای ٹی او اسلام آباد چوہدری عرفان کے والد بھی کوچ کر گئے۔ ابھی دکھوں کی یہ کہانیاں یاد کر ہی رہا تھا کہ خبر آئی کہ گوجرانوالہ میں ہمارے صنعت کار دوست حاجی مقصود احمد کے والد گرامی اس جہان فانی کو چھوڑ گئے ہیں۔ اسی دوران علاقہ بری امام میں اپنے پیارے پیر حیدر علی شاہ کی والدہ کے انتقال پُر ملال کی خبر ملی۔ ابھی اس خبر کی کیفیت کو سنبھال نہیں پایا تھا کہ میرے انتہائی پیارے دوست، وضعداری کو نبھانے والے سید علی کی والدہ کی وفات کی خبر مل گئی۔ سید علی، سرمد علی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ سرمد علی سے بھی مراسم ہیں، وہ جنگ میڈیا گروپ کی جانب سے اے پی این ایس کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ سادات کے اس گھرانے سے میرے بڑے پرانے مراسم ہیں۔ سید علی کی تو میں ویسے بھی اس لئے زیادہ قدر کرتا ہوں کہ وہ اپنے اجداد کے ایام کو کبھی نہیں بھولتے۔ جب وہ سات سمندر پار تھے تب بھی ان ایام کو یاد رکھتے تھے۔ دراصل ان تینوں یعنی سرمد علی، ایزد علی اور سید علی کو ان کے مرحوم والد سید عابد نے زندگی کے کئی گُر سکھا دیئے تھے، اُن کی شاندار تربیت میں اُن کی والدہ کا بڑا حصہ ہے مگر سید عابد شاہ بھی کمال کے آدمی تھے، بزرگوں کا احترام بچوں کو سکھا گئے۔

موت بھی ایک طرح سے پت جھڑ کے موسم کی نشانی ہے، یہاں سے ہر ایک کو گزرنا ہے، جو اس دنیا میں آیا، اسے جانا ہی ہے۔ موت ایک صحرا ہے جس میں سے ہر ایک کو گزرنا ہے، موت ایک دریا ہے جسے ہر کسی نے پار کرنا ہے، موت ایک وادی ہے جس میں ہر کوئی ضرور اترے گا۔ عدیم ہاشمی یاد آ گئے ہیں کہ

آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر

خوف آ رہا ہے سایۂ دیوار دیکھ کر

آنکھیں کھلی رہی ہیں مری انتظار میں

آئے نہ خواب دیدئہ بیدار دیکھ کر

غم کی دُکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں

آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر

کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے مرے قدم

میں تو چلا تھا راہ کو ہموار دیکھ کر

یہ بےحسی بھی وقتِ مدد دیکھ لی عدیمؔ

کترا گیا ہے یار کو بھی یار دیکھ کر

تازہ ترین