• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد شریف بقا ۔۔لندن
قرآن مجید، اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہونے کی حیثیت سے ہمارا مکمل ضابطۂ حیات، مرکز نوروہدایت، معیار خروشر، ہماری روحانی بیماریوں کا نسخۂ شافی اور غیرمتبدل اقرار ہدایت کا مجموعہ ہے۔ اس کی ہدایت چونکہ تمام افراد انسانیت کیلئے ہے اسلئے اسے ’’ذکر العلمین‘‘ کہا گیا ہے۔ اس بے نظیر کتاب الہیٰ کی تعلیمات میں ہماری انفرادی اور اجتماعی مشکلات اور گونا گوں مسائل کا حل ہے۔ یہ اسلامی قوانین کا اولین سرچشمہ اور ہمارے دین و ایمان کی اساس ہے۔ وہ کون سا بدبخت مسلمان ہے جو اس کو اپنے ایمان کا جزو اور انسانی فلاح و فور کا ذریعہ نہ سمجھے۔ بانی پاکستان نے اس حکمت آموز کتاب کے چیدہ چیدہ پہلوؤں کے ذکر سے اپنی تقاریر، بیانات اور پیغامات کو مزین کرکے اس کے ساتھ اپنی گہری قلبی وابستگی اور ایمانی حرارت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ یہاں ہم دور جدید کے اس عظیم مسلمان سیاستدان کے تصور قرآن کے چند نمایاں ترین گوشوں کی اجمالی طور پر نقاب کشائی کریں گے۔ ع سفینہ چاہیئے اس بحر بیکراں کے لئے۔ قائداعظمؒ قرآن حکیم کو صرف عقائد ہی کا مجموعہ خیال نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اسے عبادات اور معاملات کے حقائق کا بھی آئینہ دار تصور کرنے کے حامی تھے۔ ان کی نظر میں صداقت اور عقائد کی آبیاری کیلئے قرآن کی عقلی تعبیروتشریح بھی لازمی ہے۔ انہوں نے عید کے ان اپنی ایک نشری تقریر میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:۔ "In the pursuit of truth and the cultivation of beliefs we should be guided by our rational interpretation of the Quran."(13نومبر1939ء)اس میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر کا انسان ہر بات کی عقلی انداز میں جاننے کا عادی بن گیا ہے۔ قرآن حکیم نے بھی اسلامی دعوت و تبلیغ کیلئے حکیمانہ انداز کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ جبر کے ذریعے دوسروں کو اسلام کی حقانیت سے روشناس نہیں کرایا جاسکتا۔ بے شمار قرآنی آیات میں ہمیں عقل، فکر، شعور اور تدبر سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ پہلے ہم اس کی عقلی توجیہ کو خود سمجھ لیں اور بعدازاں غیروں کو دلائل سے اس کی صداقت سے آگاہ کیا جائے۔ محمد علی جناحؒ کے تصور قرآن کا ایک اور اہم پہلو قرآنی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانا اور دوسروں کے ساتھ عمدہ سلوک اور انسانی محبت و خدمت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ انہوں نے 1939ء میں ’مسلم یوتھ آف انڈیا‘ (علی گڑھ) کے نام سے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا:۔ ’’قرآن میں انسان کو خدا کا نائب کہا گیا ہے۔۔۔ یہ چیز ہمارے اوپر اتباع قرآن کی ذمہ داری ڈالتی ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کریں جو خدا انسانوں کے ساتھ کرتا ہے۔۔۔ گویا یہ محبت اور بردباری کا فرض ہے۔‘‘ قرآنی تعلیمات نے انسان کو جو بلند مرتبہ عطا کیا ہے، اس کے پیش نظر اس پر اس کتاب ہُدیٰ کی پیروی ناگزیر ہے وگرنہ وہ احسن تقویم کا سزاوار نہیں ہوسکتا۔ اسلام پرامن بقائے باہمی کے فروغ پر زور دیتا ہے اور ہر قسم کے فتنہ و فساد کی بیخ کنی کو انسانیت کی نجات، معاشرتی ترقی اور خوشگوار تعلقات کا موجب گردانتا ہے۔ بنی نوع انسان کی محبت و خدمت کو بہت زیادہ اجروثواب کا ذریعہ خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کو اخوت، عدل گستری، سلامتی اور نیکی کو پروان چڑھانے کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ ’لااکراہ فی الدین‘ کہہ کر قرآن نے تمام جبری ہتھکنڈوں کو مسترد کردیا ہے۔ جبر کی بجائے باہمی محبت اور رواداری کا درس دیا گیا ہے۔ قائداعظمؒ نے اسی قرآنی حکم کو سامنے رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ حسن سلوک محبت اور رواداری کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قائداعظمؒ کی رائے میں قرآن حکیم ہماری ہدایت، ذہنی جلا اور روحانی پاکیزگی کے علاوہ ہماری خداداد مخفی صلاحیتوں کی صحیح نشوونما اور انسانی فلاح کا بھی ضامن ہے۔ انہوں نے 4اپریل 1943ء کو شمال مغربی سرحدی صوبہ کی ’مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ کے نام سے ایک حقیقت کشا پیغام میں قرآنی تعلیمات کے چند گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا:۔ ’’ہماری رہنمائی اور اخلاقی روشنی کیلئے قرآن نے ہمیں عظیم ترین پیغام دیا ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی ذات اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں، نیکیوں اور طاقتوں کو پہچانیں اور انہیں صحیح سمت میں استعمال کریں۔‘‘ اسی پیغام میں بانی پاکستان نے مسلمان نوجوانوں کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات اور فلاح عامہ کو ترجیح دیں۔ خودشناسی اور عفان ذات
کے بغیر دوسروں کی درست شناخت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ بجا کہا جاتا ہے ’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کی معرفت حاصل کرلی)۔ قائداعطمؒ کے اس درس خودی میں ہمیں علامہ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اب ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظمؒ کو مطالعہ قرآن سے رغبت نہیں تھی؟ اگر انہوں نے قرآن مجید کا گہرا مطالعہ نہ کیا ہوتا تو وہ کیونکر قرآنی تعلیمات کے ایسے گرہائے تابدار کا سراغ لگاسکتے تھے؟ جوشے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظیر کیا؟۔بانیٔ پاکستان کے مختلف بیانات اور تقریری و تحریری پیغامات میں اکثر مقامات پر ہمیں قرآنی تعلیمات، اسلامی نظریات و عقائد کا عکس جمیل نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں قرآن کے مطالعہ کا کتنا شوق تھا۔ جو لیڈر قرآنی شغف سے عاری ہو اس کی تقریر و تحریر میں جابجا قرآنی تذکرہ کیسے راہ پاسکتا ہے؟ جس انسان کی چشم باطن قرآنی نور سے روشن نہ ہو وہ قوم و ملت کی کماحقہ رہنمائی کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ قرآنی دستور زندگی کو ترک کردینے سے افراد و اقوام کو ہمیشہ خسارے سے واسطہ پڑتا ہے کیونکہ انسانی محدود ذہن کا تراشیدہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ قائداعظمؒ کا یہ قرآنی تمسک ان کی اسلام دوستی، پختہ ایمان اور عظمت فکر کی دلیل ہے۔ امید ہے متلاشیان حقیقت کو ان کے اس مسلک میں یقیناً مزید کشش نظر آئے گی۔
تازہ ترین