• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ سعدی ؒبیان کرتے ہیں کہ ایک ضرورت مندکسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امداد چاہی۔ اتفاق سے اُن دنوں بزرگ کا ہاتھ تنگ تھا، لہٰذا انہوں نے امداد کرنے سے معذرت کرلی۔ کہاوت مشہور ہے کہ ضرورت مند باؤلا ہوتا ہے۔ اس شخص کوبزرگ کی بات کا یقین نہ آیا اور اُس نے بدگمانی کرتے ہوئے مکان سے باہر نکلتے ہی اُنہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ جو منہ میں آیا بکتا چلاگیا۔ اتفاق سے بزرگ کا ایک مرید اُس طرف سے گزرا ،اُس نے اپنے مرشد کی شان میں گستاخانہ باتیں سنیں تو سیدھا مرشد کے پاس پہنچا اور اُس شخص کی گستاخی اور دریدہ دہنی کا سارا حال کہہ سنایا۔ 

مرشد نے فرمایا، اصل تکلیف تو ہمیں تُو نے پہنچائی ہے ،وہ ہمارے بارے میں جو کچھ بھی کہہ رہا تھا، اس سے ہمیں بالکل آگاہی نہ تھی ،لیکن تُو نے آگاہ کردیا۔تیری مثال تو ایسی ہے ایک دشمن نے ہماری طرف تیر پھینکا تھا۔ جو ہم تک پہنچنے سے پہلے گر گیا تھا ،تُو وہ تیر ہمارے پاس اٹھا لایا ہے اور ہمارے پہلو میں چبھو رہا ہے۔شیخ سعدیؒ نے اس حکایت میں چغل خوری کی مذمت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اخلاقی برائی انسانی معاشرے میں بہت سی خرابیوں کا باعث ہے۔

یہ طریقہ ہرگز پسندیدہ نہیں کہ کسی کی زبان سے بات سنی اور فوراً آگے پہنچا دی۔ ایسا شخص تو گویا دشمن کے اُس تیر کو بھی کارآمد بنا دیتا ہے جو نشانے پر پہنچنے کی سکت نہ رکھ سکے۔ اس سلسلے میں یہ بات بہت ضروری ہے کہ پہلے بات کے اچھے اور برے دونوں پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرلیا جائے۔ اس کے بعد لب کشائی کی جائے۔

تازہ ترین