• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں بدھ کے روز رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا جس میں سرکاری افسران کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اہم ارکان بھی شامل ہوں گے۔ جو کچھ ہوا، اس کا وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نوٹس تو لینا تھا مگر لاہور کے شہریوں بالخصوص امراض قلب کے اسپتال میں موجود طبی و نیم طبی عملے، مریضوں، ان کے لواحقین، رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں، راہگیروں کو جن کیفیات سے گزرنا پڑا اور ملک بھر کے لوگ جس کرب سے دوچار ہوئے اس کا تقاضا ہے کہ کمیٹیوں کی تشکیل اور نوٹس لینے کے اعلانات سے آگے بڑھ کر وہ کچھ کیا جائے جو انسانی، سماجی اور تہذیبی اقدار کی دیواروں کو سنبھالا دینے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ جو واقعات سامنے آئے انہیں انتباہ سمجھا جانا چاہئے اس بات کا کہ پانی سر سے گزر رہا ہے۔ کابینہ اور حکام کے اجلاس ضرور بلائیں مگر صاحبانِ فکر، ماہرین نفسیات، سماجی سائنسدانوں، اربابِ حکومت و سیاست اور علماء کے سر جوڑ کر بیٹھنے کا بھی اہتمام کریں تاکہ خود پیدا کردہ اسبابِ تباہی سے بچنے کی تدابیر کی جا سکیں۔ عشروں سے جاری انتہا پسندانہ طرزِ عمل سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی، جلسوں میں استعمال ہونے والی ناروا زبان، سیاست و صحافت سمیت ہر شعبے کے ہر فرد کو زد میں لیتے شکوک کے سایوں، خود احتسابی سے گریز، دوسروں کو بہر صورت گنہگار قرار دینے کے رجحان اور اپنی زبان سے ادا ہونے والی گالی کو گالی نہ سمجھنے کے کلچر کی صورت میں ایسے مقام پر نظر آرہا ہے کہ جن بچوں کی تجربے کی آنکھ بھی نہیں کھلی، وہ پختہ کار بزرگوں کی داڑھی پر ہاتھ مار رہے ہیں۔ یہ افسوسناک کیفیت فوری اصلاح کی متقاضی ہے۔ بدھ کے روز لاہور میں امراض قلب کے اسپتال کے اندر اور باہر جو کچھ نظر آیا اس کا ردعمل کم کرنے کے لئے کتنے ہی نرم الفاظ استعمال کئے جائیں، حقیقت یہ ہے کہ دشمن ممالک بھی جب ایک دوسرے کی حدود میں تباہی پھیلانے کے ہر جتن پر تلے ہوئے ہوں تو بھی اسپتالوں کو نشانہ نہیں بناتے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ واقعہ چند روز قبل سے جاری کشیدگی کی ایک کڑی تھا۔ اس کشیدگی کی توجیہہ و تشریح فریقین جو کچھ بھی کریں، معاملہ فہمی اور تحمل سے کام لیا جاتا اور وقتی ضروریات کے تحت بعض نعروں کو ہوا نہ دی جاتی تو ایک ایسے المیے سے بچا جا سکتا تھا جو انسانی جانوں کے اتلاف، توڑ پھوڑ، مریضوں اور لواحقین کے لئے قیامت صغریٰ اور ملک کی بدنامی کا باعث بنا۔ کالا کوٹ، جسے قائداعظم محمد علی جناح کی عظمتِ کردار اور لیاقت و اہلیت نے دنیا بھر کے لئے تقدس کی علامت بنایا اس سے 11دسمبر 2019ء کی تکلیف دہ یادیں وابستہ کر دی گئیں جن میں مظفر گڑھ میں عدالتی عملے پر تشدد بھی شامل ہے۔ بدھ کے واقعہ میں اگرچہ طبی و نیم طبی عملے کے افراد اور ان کے مریض یلغار کا نشانہ بنے مگر کئی برسوں سے سفید کوٹ نے بھی احتجاج و مطالبات کے نام پر مریضوں اور خود اپنے سینئرز سے جو طرزِ عمل روا رکھا ہوا ہے، اس پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کیا جانا چاہئے۔ جبکہ پی آئی سی کے واقعہ پر صوبائی پولیس اور انتظامیہ کی بے بسی کا منظر نامہ بھی قابل توجہ ہے۔ پی آئی سی میں بدھ کے روز جو کچھ ہوا، وہ افسوسناک ہے۔ مگر اس نکتے کو اگر اداروں اور افراد کی سطح پر اپنے اپنے گریبانوں کا جائزہ لینے اور اصلاح احوال کا ذریعہ بنالیا جائے تو معاشرے اور ملک کے نئے دور کو زیادہ درخشاں بنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں پہلا قدم پی آئی سی پر حملہ کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہونا چاہئے تاکہ معاشرے کا کوئی فرد خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے۔

تازہ ترین