• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزی بلاشبہ دنیا کی سب سے طاقتور زبان ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور پڑھی جارہی ہے۔ اندازہ ہے کہ دنیا میں تقریباً ڈیڑھ ارب افراد انگریزی بولتے ہیں اور 2020ءتک ایسے افراد کی تعداد دو ارب تک پہنچ جائے گی۔

ہر زبان سیکھنے کے کچھ بنیادی قاعدے (گرامر) ہوتے ہیں، اسی طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھی طالب علموں کو گرامر یا بنیادی قاعدوں کی مدد سے انگریزی زبان سِکھائی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ محض گرامر کی مدد سے کوئی انگریزی زبان میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا۔ بینجمن ڈریئر انگریزی زبان کے معروف ایڈیٹر ہیں اور وہ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’انگریزی ایک نہایت ہی بےقاعدہ زبان ہے‘۔

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس زبان کے مشکل یا بے قاعدہ ہونے سے لوگوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے یا پھر شاید یہ انگریزی زبان کی بےقاعدگی ہی ہے، جس کے باعث یہ دنیا میں رابطے کی عام زبان یا ’لینگوا فرانکا‘ بن گئی ہے اور پوری دنیا میں اشاعت، انٹرنیٹ، سائنس، آرٹس، مالیات، کھیل، سیاست اور بین الاقوامی سیاحت پر چھائی ہوئی ہے۔ 

ماہرِ لسانیات ڈیوڈ کرسٹل کے اندازے کے مطابق انگریزی 40کروڑ افراد کی مادری زبان ہے جبکہ 70سے80کروڑ افراد اپنی مادری زبان سیکھنے کے بعد انگریزی زبان اس لیے سیکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ملک میں بولی جاتی ہے، جیسے کہ انڈیا، پاکستان، نائجیریا وغیرہ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی زبان سیکھنے کا شوق صرف ان ملکوں تک ہی محدود نہیں، جہاں یہ بولی جاتی ہے بلکہ چلی سے روس تک لاکھوں افراد ایسے ہیں، جو انگریزی کو غیر ملکی زبان کے طور پر بول سکتے ہیں، حالانکہ ان ملکوں میں انگریزی نہیں بولی جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ملکوں کے لوگ انفرادی طور پر انگریزی زبان سیکھ رہے ہیں۔

یہ بات تو ہوگئی انگریزی زبان بولنے کی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص، جو ہائی اسکول یا کالج کا طالب علم ہے، اسے انگریزی کی لکھائی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

آپ کا یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے بینجمن ڈریئر نے ’ڈریئرز انگلش‘ (Dreyer's English)نامی ایک کتاب تحریرکی ہے۔ یہ انگریزی گرامر اور اسٹائل کی ایک ایسی کتاب ہے جو آپ کو اتنا ہنسائے گی کہ ہنستے ہنستے آپ کے آنسو نکل آئیں گے۔

انگریزی زبان کا انچارج کون ہے؟

اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ’کوئی بھی نہیں‘۔ زبان کے طور پر انگریزی لسانی لاقانونیت میں رہتی ہے یعنی اس کا کوئی سرپرست نہیں ہے اور نہ ہی اسے کبھی منظم کیا گیا ہے۔ فرانسیسی یا ہسپانوی زبانوں کے ارتقاء پر نظر رکھنے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس، انگریزی زبان کے لیے ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جو گرامر کے ہمہ گیر اصول وضع کرے تاکہ سیکھنے والے ان کی پیروی کر سکیں۔

ڈریئر کہتے ہیں ،’شاید اسی لیے جدید دور میں فرانسیسی پڑھنے والے مولیر کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں جبکہ اس کے برعکس انگریزی بولنے والوں کے لیے شیکسپیئر کو سمجھنا مشکل ہے‘۔ ایک ایسی زبان جو بغیر کسی متفقہ کوڈ کے ارتقاء پائے، اس میں لفظوں کا املا ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے۔

معیاری انگریزی لکھیں

ڈریئر کہتے ہیں ہرچند کہ اس حوالے سے کوئی عالم گیر اصول وضع نہیں کیے گئے، لیکن انگریزی کے کچھ الفاظ اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ وہ ایک اچھی تحریر کو خراب کردیتے ہیں۔ ایسے الفاظ میں ویری، رادر، ریئلی، کوائٹ، جسٹ، اِن فیکٹ اور ایکچوئلی وغیرہ شامل ہیں۔ آپ اپنی انگریزی لکھائی سے صرف ان الفاظ کو نکال کرہی اس میں 20فی صد بہتری لاسکتے ہیں۔

جملے کو ’اینڈ‘ اور ’بٹ‘ سے شروع کرنا

ہمیں اسکول میں انگریزی زبان سیکھنے کے حوالے سے کچھ بنیادی ’اصول‘ بتائے جاتے ہیں، جس میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ جملے کو ’اینڈ‘ اور ’بٹ‘ سے شروع کرنا غلط ہے۔ ڈریئر کہتے ہیں کہ اس پابندی کاکوئی اصولی جواز نہیں ہے۔ ’اس انداز میں جملے کا آغاز کرنا بہترین نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ غلط بھی نہیں ہے‘۔ اسی طرح ڈریئر کہتے ہیں کہ یہ کہنا ’آپ کبھی اپنے جملے کا اختتام حرفِ ربط سے نہیں کر سکتے‘ بھی ایک فرسودہ اصول ہے۔ ’ہو سکتا ہے کہ بسا اوقات اس کا استعمال معقول نہ لگے لیکن یہ غلط نہیں ہے۔

اندازِ اظہار کی اہمیت

ماہرین کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ آپ اظہار کس طرح کرتے ہیں۔ دُرست اور واضح نثر میں لکھنا بہت اہم ہے۔ خاص طور پر اگر آپ پیشہ ورانہ حیثیت میں بات چیت کررہے ہیں۔ اپنے لکھے ہوئے الفاظ کا دوسروں پر اثر ڈالنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ’املا دُرست‘ ہو۔ مزید یہ کہ ایسے الفاظ پر غور کیا جائے جو ’سننے میں ایک جیسے ہوں لیکن ان کے معنی مختلف ہوتے ہیں یعنی ’ہوموفونز‘۔

دوسروں کی تحریر پڑھ کر لکھنا

اچھا لکھنے کے بنیادی اصولوں میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ آپ اچھا پڑھیں۔ آپ جتنا زیادہ پڑھیں گے، آپ کے اندر اتنا زیادہ لکھنے کی صلاحیت پروان چڑھے گی۔ ڈریئر کہتے ہیں کہ ’شاید یہ ایک ایسا مشورہ ہے جو میں ہر ایسے لکھاری کو دوں جو اپنی لکھائی بہتر بنانا چاہتا ہے۔ ایک ایسی لکھائی کا مطالعہ کریں جو آپ کو بہت پسند ہے اور پھر اسے حرف بہ حرف ویسے ہی نقل کر کے لکھیں۔ 

آپ حیران ہوں گے کہ آپ کو ان کی روانی، الفاظ کے چُناؤ اور علامتِ وقف کے استعمال کے بارے میں کتنا اندازہ ہوتا ہے اور یہ آپ کی انگلیوں سے گزرتے ہوئے آپ کے دماغ تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ اس طریقے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

تازہ ترین