• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر ڈاکٹر جوزف آسکرافٹ یونیورسٹی آف آئیوا میں ابلاغیات کے پروفیسر اور ابلاغ عامہ میں ڈویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن جیسی انقلاب آفریں اسپیشلائزیشن کے بانی اور اقوام متحدہ میں یونیسف، آئی ایل او اور ڈبلیو ایچ او جیسی انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسیوں کے کامیاب ترین کمیونیکیشن سپورٹ ایڈوائزر تھے۔ پاکستان میں ڈویلپمنٹ جرنلزم ملکی این جی اوز ان میں ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن اور ان کے مخصوص لیکن محدود ترقیاتی پروجیکٹس ڈویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن کا شعور و اطلاق کا کریڈٹ بلاشبہ پروفیسر جوزف آسکرافٹ کو جاتا ہے، جنہوں نے 1985ء میں پنجاب یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف جرنلزم کے ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونیکیشن کی شکل اختیار کرنے کی خبر پڑھ کر خود صدرِ شعبہ ڈاکٹر مسکین حجازی سے رابطہ کیا اور یونیسف کے اشتراک سے ’’ڈویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن‘‘ پر ملکی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے ابلاغیات کے اساتذہ کیلئے ایک بیش بہا نتائج دینے والی 15روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا، اس کے بعد پھر 1993ء میں مری میں ایسی ہی ورکشاپ کا اہتمام کیا، اگرچہ پہلی ورکشاپ پر ہمارے ساتھی رجعت پسند اساتذہ نے جو ابلاغ عامہ کو ’’صحافت‘‘ سے آگے لے جانے اور سمجھنے کے بھی مخالف تھے، کی مزاحمت اور اس کے خلاف غوغا مچانے سے باز نہ آئے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں پورے برصغیر میں پروفیسر جوزف آسکرافٹ کی علمی کوششوں سے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی دھوم مچ گئی،محترمہ بینظیر کے دوسرے دور میں ترقیاتی ابلاغ کی اس اسپیشلائزیشن کی بے قابو پاپولیشن گروتھ ریٹ پر کنٹرول کرنے کے لئے لیڈیز ہیلتھ وزیٹرز سسٹم کی شکل میں اختیار کرکے پہلی مرتبہ پاکستان میں شرح آبادی میں سالانہ اوسط اضافے 3.1اور 3.2فیصد اضافے پر قابو پاکر اسے 2.6تا 2.5تک لانے میں عظیم کامیابی حاصل کی گئی، لیکن اب یہ سسٹم کرپشن اور بیڈ گورننس کے باعث تباہ ہو چکا ہے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو پروفیسر جوزف آسکرافٹ کو لازماً کسی قومی اعزاز سے نوازتا جیسے ہم یونیورسٹیوں میں جوزف کی مہارت اور اختراع سے نوازے گئے اور پھر یونیورسٹیوں کے ذریعے این جی اوز اور میڈیا میں ترقیاغ ابلاغ کی جگہ بنی تو سوشل سیکٹر اپنی شناخت، اہمیت اور حساسیت کو منوا سکا۔

پروفیسر جوزف آسکرافٹ کا تعلق افریقہ کے ایک بہت غریب اور گمنام سے ملک ملاوی سے ہے (معلوم نہیں کہ وہ اب حیات ہیں یا نہیں، میں نیٹ پر میں تو تلاش نہ کر پایا) لیکن وہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروجیکٹس اور پروگرامز کے ٹاپ ایڈوائز بنے اور انہوں نے امریکی شہرت اختیار کرکے یونیورسٹی آف آئیوا میں پہلا ڈپارٹمنٹ آف ڈویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن قائم کیا، جس کے پہلے پاکستانی ماسٹر پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری بنے اور انہوں نے اپنی چیئرمین شپ میں اس اسپیشلائزیشن پر فوکس کرکے اسے بہت فروغ دیا جو بعد میں محکموں، این جی اوز اور مختلف اداروں نے ابلاغی مہمات میں اختیار کرکے کامیاب نتائج حاصل کئے۔ میں نے جوزف آسکرافٹ سے بہت کچھ سیکھا اور میں انہیں دل وجاں سے اپنا استاد مانتا ہوں۔ وہ ترقی پذیر دنیا کے غربا کا گہرا درد رکھتے ہیں اور ان کی سماجی اقتصادی حالت بدلنے میں ان کی خدمات بیش بہا ہیں۔ وہ پاکستان ہی نہیں بھارت، نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی اپنی مہارت سے ترقیاتی پروجیکٹس کو ابلاغی معاونت سے کامیاب کرانے کیلئے اساتذہ اور ڈویلپمنٹ منیجرز کو ٹرینڈ کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ آج وہ مجھے یوں یاد آئے کہ انہوں نے ایک مرتبہ لاہور کے مقامی صحافیوں سے رسمی گفتگو کرتے ہوئے برصغیر کے سماجی، سیاسی رویوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور سوالات کے جواب دیے۔ پروفیسر جوزف ترقی پذیر ممالک کےسماجی رویوں پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے اور ان ہی کو سامنے رکھ کر ترقیاتی پروگرامز اور پروجیکٹس کو نتیجہ خیز ابلاغی معاونت کی مہمات ڈیزائن کرنے پر دسترس رکھتے تھے۔ اپنی متذکرہ رسمی گفتگو میں انہوں نے اچانک بڑی زبردست بات کی کہ ’’گاندھی کے امن کے پرچار کے باوجود آپ (پاکستانیوں) کے قائدین نے بڑی عقلمندی کا مظاہرہ کیا جو پاکستان بنا لیا، وگرنہ برصغیر کے ہندو مسلمانوں نے ناختم ہونے والے باہمی سیاسی سماجی تنازعات میں ہی رہنا تھا جس کا براہِ راست اور گہرا اثر ہندوئوں اور مسلمان دونوں کے سماجی ترقیاتی عمل پر منفی ہوتا، یہ اب بھی بھارت میں ہے لیکن پاکستان نہ بنتا تو زیادہ مسلم آبادی کے باعث زیادہ ہوتا اور اس میں جو کچھ اب مثبت اشاریے ترقی کے تیز ہونے کے واضح ہو رہے ہیں، یہ کبھی نہ ہوتے، نہ آئندہ چند عشروں میں پاکستان میں سماجی ترقی کے جو اشاریے واضح ہوتے نظر آرہے ہیں وہ اتنے زیادہ متحدہ ہندوستان میں ہوتے، پاکستان اس آزادی کا زیادہ بینی فشری ہوتا نظر آ رہا ہے، کیونکہ ہندوئوں میں ذاتوں بڑائی کا خمار وہاں کی سماجی ترقی میں بناوٹ بنا رہے گا، اس کا بھارتی سیاسی زندگی میں اثر اور غلبہ بہت واضح ہے‘‘۔ پروفیسر جوزف کی یہ تجزیاتی گفتگو کوئی 25سال قبل لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی (جو اخبارات میں رپورٹ بھی ہوئی ) لیکن پروفیسر صاحب کا کہا آج پورے بھارت میں عود آیا ہے، ذات پات کی بنیاد سے گھڑا گیا ہندومت آج بھارت کو اس طرح لپٹتا جا رہا ہے کہ اس میں اقلیتیں، کچلتی اور مسلمان پستے نظر آ ہے ہیں۔ معاملہ صرف کشمیریوں تک محدود نہیں، مسلمانوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کیلئے ’’ہندوتوا‘‘ جیسے نظریے کی پیروی میں جو شہریت بل بھارتی پارلیمان سے منظور ہوا ہے اس سے ہندوتوا کا مخالف جزوی بھارت جس میں کروڑوں ہندو بھی شامل ہیں، ہل کر رہ گیا ہے، یہاں تک کہ مغربی بنگال، مشرقی پنجاب، کیرالا، مدھیا پردیش، چھتیس گڑھ اور دہلی نے مرکز سے بغاوت کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ اور امریکہ نے اس قانون کو مسلم دشمن قرار دیا ہے۔ اس بل نے نظریہ پاکستان کی حقیقت کو ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے۔ہمارے وہ سرخ دانشور جنہیں پھر پاکستان اور ایشیا کو سرخ کرنے کا ہوکا اٹھا ہے، وہ جو نظریہ پاکستان کے مذاق اڑانے اور اس پر طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ان پر اب بھی واضح نہیں ہو رہا کہ نظریہ پاکستان، برصغیر میں دو قومی نظریے کی حقیقت کیا ہے، جو آج بھارت میں ویل مینڈیٹڈ حکومت کے حکومتی رویے اور اس کے مطابق مسلم دشمن اقدامات سے پھر آشکار ہوئی ہے، تو پھر ان کے دلوں پر مہریں ہی تو نہیں لگ گئیں؟

تازہ ترین