• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے دنیا بھر میں انسانی حقوق کادن منایا گیا۔ پاکستان میں بھی سول سوسائٹی، مزدوروں، کسانوں اور طا لب علموں اور سماجی تنظیموں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ حکمران طبقات انکی بنیادی آذادیوں کو ختم کرنے کی روش سے باز آجائیں اور انکو آئین پاکستان کے مطابق قانونی تحفظ م فراہم کریں۔1948ء میں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے سلسلے میں آفاقی اعلامیہ جاری کیا حالانکہ اس کو نافذ کرنے کی کوئی قانونی طاقت نہ ہونے کے باوجود انسانی تاریخ میں پہلی بار بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کا اتنا جامع منصوبہ تیار کیا گیا۔ یوں انسانی حقوق کے مختلف بین الاقوامی معاہدوں کے مسودے تیار کرنے کیلئے راہ ہموار ہوئی۔ گو کہ پہلی مرتبہ شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے متعلق ضابطے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے معیار بن گئے ہیںلیکن اس کے باوجود آج بھی ان معاہدوں میں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال سے نجات کو بنیادی حق کا درجہ نہیں دیا گیا۔اقوام متحدہ کے سول اینڈ پولیٹکل رائٹس کنوینشن کے معاہدے کی شق نمبر 19اور آئین پاکستان کی بھی شق نمبر 19کے مطابق ہر شخص کو اپنی رائے قائم کرنے اور اس کے اظہار کا حق حاصل ہے۔لیکن پاکستان میں آذادی رائے پہ پابندی اور صحافیوں سے ناروا سلوک سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے۔ پاکستان جو کہ پہلے بھی عمران خان کی حکومت کی بدولت اقتصادی طور پر ناگفتبہ حالت میں ہے اورایف اے ٹی ایف کی پابندیوںکی وجہ سے مزید مسائل میں گھر سکتا ہے۔پاکستان بھر میں اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرزاس بات پر متفق ہیں کہ آج تحریک انصاف کی حکومت کھلم کھلا آرٹیکل 19کی خلاف ورزی کر رہی ہے جس سے انسانی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔آج ہر خاص و عام یہ بات جانتا ہے کہ حکومت کی ایما پر بلاوجہ صحافیوں اور صحافتی اداروں پر نا معلوم افراد اور گروپوں کے ذریعے دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ادارتی پالیسیوں کو تبدیل کریں۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر مستقل طور پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ پی ایف یو جے کے حالیہ منتخب سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے تو یہاں تک کہ دیا کہ حالات ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم مزدروں، کسانوں، طلباء اور سیاسی ورکروں کے ساتھ ملکر سڑکوں پر نکل آئیں اور حکمرانوں کو باور کروائیں کہ میڈیا کی آذادی کے بغیر کوئی سماج سیاسی اور جمہوری طور پر ارتقاء پذیر نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ عمران خان معاشرے سے بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے پر اقتدار میں آئے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بدعنوانی کوئی خلاء میں لٹکتی ہوئی کوئی چیز ہے جسے وہ کسی وقت بھی اٹھا کر ہمیشہ کیلئے سماج سے باہر پھینک دیں گے۔ بدعنوانی دراصل جمہوری ارتقا سے منسلک ہے اور جن معاشروں میں میڈیا چوتھے ستون کے طورپر آزادی سے کام نہیں کرتا،وہاں بدعنوانی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی شق 9کی روح سے ہر ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کو مکمل آزادی میسر ہو اور اسے اپنی جان کے تحفظ کا بھی حق حاصل ہو۔کسی کو بھی بلاوجہ گرفتار یا نظر بند نہیں کیا جا سکتا اور شق نمبر 14میں قیدیوں کے حقوق،مہذب طریقے سے قانونی کاروائی کرنے اور مساوی طور پر انصاف کرنے کے بارے میں تفصیلات درج ہیں اور آئین پاکستان بھی یہ تحفظات فراہم کرتا ہے۔لا پتہ افراد کا معاملہ بھی آئین پاکستان اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق لا پتہ افراد اور خفیہ حراست ایک فوجداری جرم ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ یورپی یونین بھی انسانی حقوق کی پاسداری کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ان کی رپورٹ پر ہی جی پی ایس پلس کے سرٹیفیکٹ کا انحصار ہے۔ یہ کمیٹی پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال سے مطمئن نہیں۔ آج اکیسویں صدی میں پاکستان میں حاصل شدہ انسانی حقوق کے اظہار پر دست اندازی اس سماج کو مزید تنزلی کی طرف لے جا رہی ہے۔ انسانی معاشروں میں انسانی حقوق کے حصول کا دارو مدار دراصل اس بات پر رہا ہے کہ اس سماج کے سیاسی ورکرز اور دانشور اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے کتنی قربانیاں دیتے ہیں۔ آج پاکستان میں طلبہ نے اپنی یونین کی بحالی کیلئے جس جدوجہد کا آغاز کیا ہے وہ ایک ہوا کا تازہ جھونکا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ صحافتی تنظیمیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، بار ایسوسی ایشنز، عورتوں اور مردوں کی تنظیمیں ملکر پاکستان کے عوام کیلئے انسانی حقوق کے معاہدوں اور آئین کے مطابق ان کے حقوق کو یقینی بنائیں گی۔

تازہ ترین