• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے سیاسی نظریات کو ویسے تو بہت سی مختلف درجہ بندیوں میں بیان کیا جاتا ہے اور اِس میں ایک درجہ بندی کنزرویٹوز (قدامت پسند)اور لبرلز کی بھی ہے۔ کنزرویٹو پُرانے طور طریقے پسند کرتے ہیں اور لبرلز نئی سوچ كے حامل ہوتے ہیں۔

امیگریشن، بزنس ریفارمز اور دیگر پالیسیوں کے حوالے سے دونوں کی سوچ میں کافی تضاد ہوتا ہے لیکن ایک اہم تضاد غریبوںکے لیے سوشل سیکورٹی کے حوالے سے ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار بھی کنزرویٹوز میں ہوتا ہے اور امریکہ جہاں غریب اور بے بس لوگوںکے لیے ریاست کی طرف سے مدد ویسے ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس کو مزید کم کر دیا ہے جبکہ اس میں مزید کمی کا پلان بھی دیا ہے لیکن دوسری طرف ایک سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہےکہ اب بھی غریب لوگوں کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی سپورٹ کرتی ہے۔ یہ ٹرینڈ صرف امریکہ میں نہیں بلکہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ بات حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ کنزرویٹوز غریبوں کے حوالے سے زیادہ پالیسیاں نہیں بناتے لیکن پھر بھی متوسط اور غریب طبقے کے لوگ لبرلز کے بجائے کنزرویٹوز کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

میں نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر لوگوں سے پوچھاکہ آپ کے خیال سے غربت کی وجہ کیا ہے؟ اِس کے علاوہ اس حوالے سے کافی تحقیقات کا بھی موازنہ کیا ہے، ایک چیز جو واضح طور پر سامنے آئی وہ یہ کہ غریب لوگ اپنی بدحالی کا ذمہ دار عمومی طور پر حکومت کو نہیں ٹھہراتے،

اگرچہ لوگ مہنگائی وغیرہ کا ملبہ حکومت پر ڈالتے ہیں اور اگر حکومت کوئی لنگر، انکم سپورٹ پروگرام یا اور کوئی اچھا اقدام کر دے تو اس کو سراہتے بھی ہیں لیکن ان کی بے بسی اور تنگ حالات ان کے اپنے اور کافی حد تک معاشرے کے خیال میں بھی حکومت یا نظام نہیں، بلکہ ان کی اپنی غلطی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پڑھائی نہیں کی، محنت نہیں کی یا ان کی قسمت ہی ایسی ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی زیادہ تر جواب ایسے ہی تھے کہ غریب کی سوچ غریب ہوتی ہے، وہ رسک نہیں لیتا وغیرہ وغیرہ۔

عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ نظام ایسا بنایا جاتا ہے جو ایک غریب آدمی کے لیے غربت سے نکلنا مشکل سے مشکل تر بنا دیتا ہے۔ ایک لائق اور ہونہار طالبعلم کی مثال لیتے ہیں، جو بہت ذہین ہے، وہ سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے اور اس کے والد مزدوری کرتے ہیں۔ اس کی والدہ بھی کام کرتی ہیں اور اس کے دو چھوٹے بہن بھائی ہیں۔

سرکاری اسکول میں معیارِ تعلیم اچھا نہیں ہے، اس لئے وہ غریب ہونے کی وجہ سے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کے بچوں سے پہلے ہی پیچھے رہ گیا ہے۔ پِھر اس کے والد اس کے لیے نہ ٹیوشن کا انتظام کر سکتے ہیں نہ کتابوں اور نہ ہی وہ کمپیوٹر خرید کر دے سکتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی کلاس کے بچوں کا بھی اچھی طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔

پِھر اس کو گھر كے کام بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود یہ لڑکا شدید محنت کررہاہے اچھے نمبر لے لیتا ہے، یونیورسٹی کی فیسیں حکومت نے بڑھا دی ہیں اور وہ کچھ بھی کر لے، یونیورسٹی نہیں جا سکتا اور روزگار کے اچھے مواقع اس کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ذہانت اور محنت کے باوجود اس نظام نے اسے غربت سے نکلنے نہیں دیا۔ اِس طرح بہت سے ’’غربت کے گھن چکر‘‘ (سائیکلز آف پاورٹی) موجود ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیںکہ پڑھائی کے باوجود بھی لوگ بڑے بڑے بزنس مین بن جاتے ہیں، یہ درست ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ پھر بھی لوگ ہر جگہ ’’غربت اپنی غلطیوں کا شاخسانہ ہوتی ہے‘‘ کا کلیہ لگا دیتے ہیں۔

اکثر لوگ بل گیٹس کا جملہ دہراتے نظر آتے ہیں کہ ’’آپ غریب پیدا ہوں تو یہ آپ کی غلطی نہیں لیکن اگر آپ غریب ہی مر جائیں تو یہ سراسر آپ کی غلطی ہے‘‘۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بل گیٹس نے کبھی بھی یہ نہیں کہا، لیکن لوگ پِھر بھی اِس پر یقین کرتے ہیں کیونکہ قول بھلے غلط ہو، یہ ان کی اپنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

غربت کا اگر حقیقی طور پر خاتمہ کرنا ہے تو اِس کی حقیقی وجوہ کا احساس اور غریب لوگوں کو اپنی قسمت کا قصوروار ٹھہرانے کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ نیز اس کے ساتھ تین چیزیں ازحد ضروری ہیں۔

ایک تو ایسا نظام جو تمام لوگوں کو تعلیم اور ہنرکے برابر مواقع فراہم کرے۔ دوسرا، دولت کی منصفانہ تقسیم یعنی امیروں پر زیادہ ٹیکس لگا کر اس پیسے کو غریبوںکی فلاح اور نظام کی بہتری پر لگانا۔ تیسرا، معیشت کو بڑھانا تاکہ ہر فرد کے لیے معاشی مواقع زیادہ ہو سکیں۔

ہماری اپروچ غربت کے خاتمےکے حوالے سے غریبوں کو بستر دینے،کھانا فراہم کرنے اور انہیں علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے تک محدود ہے۔ یہ کام بالکل ضروری ہیں کیونکہ یہ فوری کیے جانے والے کام ہیں لیکن اگر پائیدار بنیادوں پر دوررس اقدام نہ کیے جائیں تو پھر ہمیشہ یہ کام کرتے رہنا ایک مجبوری بن جائے گا۔

غریبوں کا حقیقی احساس اِس بات کا احساس کرنے میں ہےکہ ہم ایک ایسے نظام میں رہتے، اس کا حصہ ہیں جو انہیں غریب رکھتا ہے۔

صرف دولت کی منصفانہ تقسیم اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرکے ہی غربت کا خاتمہ ہو گا۔

یہ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ہماری 30فیصد سے زیادہ آبادی خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ان کی آنے والی نسلوں کو ہم مزید غربت کی زندگی گزارنے کی سزا نہیں دے سکتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین