کراچی (تجزیہ:مظہر عباس) 1973ء کا آئین اب مزید کوئی کاغذ کا پرزہ نہیں رہا اور اسے ردّی کی ٹوکری کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔
جیسا کہ حکمراں ضیاء الحق اور پرویز مشرف اپنے 20سالہ مجموعی دورِ اقتدار میں سمجھتے رہے۔ اب موجودہ عدلیہ بھی 2009ء سے قبل جیسی ہے۔ منگل کو خصوصی عدالت نے آئین کا آرٹیکل۔
6 لاگو کرکے پہلی بار پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ مرتّب کی۔ سابق صدر کو ان کی غیرموجودگی میں انتہائی بغاوت کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سُنا دی۔
اب جبکہ پرویز مشرف کو سزا کے خلاف اپیل کرنے کا حق ہے۔ جسے ان کی جانب سے استعمال کرنے کا قوی امکان ہے۔ عدلیہ ،ریاست کا ایک مضبوط ستون بن کر اُبھری ہے۔
عدالتی فیصلے کے اپنے دُوررس سیاسی مضمرات بھی ہیں چونکہ یہ منقسم فیصلہ ہے۔ تفصیلی فیصلے جس میں اختلافی رائے کے حامل معزز جج کا اختلافی نوٹ کا جائزہ دلچسپی کا حامل ہوگا۔
اگر ہماری اعلیٰ عدلیہ ماضی میں بھی ایسے ہی فیصلے کرتی، مولوی تمیزالدین کے دور سے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت فیصلے نہ کرتی تو پاکستان کی جمہوری اور عدالتی تاریخ مختلف ہوتی۔
چار فوجی حکومتوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے زوال کے بعد سپریم کورٹ نے حنا جیلانی کیس میں مارشل لاء کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیا لیکن بدقسمتی سے 6 سال کے اندر ہی جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برطرف کر دی۔
5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگا دیا۔ آئین منسوخ کر دیا گیا اور جب بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لاء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو عدالت نے 1981ء میں فوجی آمریت کو نظریہ ضرورت کے تحت قانونی قرار دے ڈالا۔ 21 سال بعد تاریخ نے خود کو دُہرایا۔
12 اکتوبر 1999ء کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے نوازشریف کی منتخب حکومت فارغ کر دی۔ 2009ء کے بعد سے عدالت عظمیٰ نے تاریخی فیصلے کئے اور اپنی ہی تاریخی اغلاط کو دُرست بھی کیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اس فل بنچ کے رُکن تھے جس نے 2000ء میں فوجی بغاوت کو قانونی بنایا۔ بعدازاں اپنی غلطیوں کو دُرست کیا۔
مزید مارشل لاء کے دروازے بند کئے۔ پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل۔6 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر خصوصی عدالت نے مذکورہ آئینی آرٹیکل کو دوبارہ زندہ کیا۔ جس نے پے در پے مارشل لاء کے نفاذ کے باعث اپنی افادیت کھو دی تھی۔