• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لڑکیاں پیشہ ورانہ زندگی میں کیسے آگے نکل سکتی ہیں؟

ایک امریکی روزنامے میں نفسیاتی امور کی ماہر ڈاکٹر لیزا ڈیمور نے ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، ’’جب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں لڑکوں کو مات دے سکتی ہیں تو دفاتر میں کیوں نہیں؟‘‘

اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر لیزا کہتی ہیں کہ غالباً اس کی وجہ اسکول اور کالج کے زمانے میں لڑکیوں کی پروان چڑھنے والی شخصیت ہے، جو آگے چل کر پیشہ ورانہ زندگی میں ان کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ اس حوالے سے وہ ایک ہی گھر، اسکول اور ماحول میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے والے دو بہن بھائیوں کی مثال دیتی ہیں، جہاں حصولِ تعلیم کے لیے لڑکے کے مقابلے میں لڑکی زیادہ سنجیدہ دِکھائی دیتی ہے اور خوب محنت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ لڑکے سمجھتے ہیں کہ وہ کس طرح نپی تلی محنت کرکے اچھے گریڈز حاصل کرسکتے ہیں اور لڑکوں کی یہی خوبی ان کی شخصیت میں اضافی اعتماد پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ 

تعلیمی دور میں پیدا ہونے والے اس اعتماد کے باعث جب لڑکے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو عموماً وہ ایسی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بھی حامی بھرلیتے ہیں، جن کے لیے وہ بظاہر پوری طرح تیار نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر لیزا کہتی ہیں، اس کے برعکس لڑکیاں تعلیمی میدان میں اچھے گریڈز حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور جب ان کے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہونے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ وہاں بھی اسی اصول کے تحت ذمہ داریاں لینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، لڑکیاں اس وقت تک پیشہ ورانہ زندگی میں کوئی ذمہ داری لینا پسند نہیں کرتیں، جب تک وہ خود کو اس کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں پاتیں۔

اس مشاہدے کی بنیاد پر ڈاکٹر لیزا کہتی ہیں، ’’لڑکوں کے لیے اسکول ایک ٹیسٹ ٹریک کا کام کرتا ہے، جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر بہت کام کرتے اور بھروسہ کرنا سیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس لڑکیاں، کسی بھی نئے کام کے لیے اپنی اَن دیکھی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بجائے، اس کے لیے پہلے خود کو تیا رکرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ بنیادی وجہ ہے، پیشہ ورانہ زندگی میں لڑکوں کی لڑکیوں سے آگے رہنے کی‘‘۔

دنیا بھر سے تعلیم کے میدان سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ اس میں لڑکیاں، لڑکوں سے بہت آگے ہیں۔ تاہم کئی ماہرین ڈاکٹر لیزا کی اس بات پر بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ جب تعلیم کے میدان میں لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ بات پیشہ ورانہ زندگی میں ان کے خلاف جائے اور ان میں نسبتاً کم اعتماد جھلکتا ہو۔

اس با ت کا جواب، نہ صرف ڈاکٹر لیزا نے اپنے دلائل سے دینے کی کوشش کی ہے بلکہ دورِ جدید کے کامیاب ترین انٹرپرینیور جیک ما بھی اسی کی وکالت کرتے ہیں۔ جیک ما کہتے ہیں کہ آج کے نوجوان اگر زندگی میں طویل مدتی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اسکول اور کالج گریڈزمیں نہ تو بالکل سرفہرست کے ایک دو فیصد میں شامل رہنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنی چاہیے کہ وہ انسان کم اور روبوٹ زیادہ معلوم ہوں او رنہ ہی وہ بالکل نچلے درجوں پر ہوں کیونکہ ایسی تعلیم آگے چل کر ان کی کوئی مدد نہیں کرنے والی۔ 

جیک ما مزید کہتے ہیں کہ اس کے برعکس زندگی میں طویل مدتی کامیابی صرف انھیں مل سکتی ہے، جو روبوٹ بننے کی کوشش کرنے کے بجائے انسان رہتے ہوئے اچھے نمبر زحاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹر لیزا کے دلائل بھی جیک ما سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اساتذہ کو ایسے طالب علموں کی تعریفیں کرنا ختم کردینا چاہیے، جو غیرمعمولی گریڈز حاصل کرنے کے لیے حد سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور ایک ایسے ’مائنڈ فریم‘ میں چلے جاتے ہیں، جہاں انھیں ماسوائے پڑھائی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا اکثر لڑکیوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور جب وہ لڑکیاں پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھتی ہیں تو انھیں وہاں ذمہ داریاں لینے کے لیے تیار ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے‘‘۔

وہ کہتی ہیں کہ ’’اے گریڈ‘‘ حاصل کرنے کے لیے ایک لڑکا اتنی ہی محنت کرے گا، جس سے اسے یہ یقین ہو کہ وہ اپنا ہدف حاصل کرلے گا۔ اس کے برعکس، لڑکیاں اپنی سبقت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں اکثر اضافی کریڈٹ ورک کرتی ہیں، جن کا ان کے گریڈز پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ڈاکٹر لیزا تجویز دیتی ہیں، ’’اساتذہ کو اپنے تمام طلبا کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں، خصوصاً لڑکیوں کو یقین دِلائیں کہ وہ اس وقت جتنی محنت کررہی ہیں، اس سے وہ اپنی پسند کے نتائج حاصل کرسکتی ہیں اور انھیں اضافی( غیرضروری ) محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

تازہ ترین