• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ دس سال تک اپنی پوری قوت سے افغانستان میں نیٹو افواج کے ساتھ جنگ میں مصروف رہا لیکن وہ افغانستان میں اپنی حریف قوت یعنی طالبان کو فوجی شکست نہیں دے سکا اور ایک دم سے وہ خود فوج کی پسپائی پر مجبور ہو گیا ہے اور کسی نہ کسی طرح افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔
جو لوگ عالمی سیاست اور ملکوں کی اسٹرٹیجک اہمیت کو سمجھتے ہیں انہیں یہ معلوم ہے کہ اسی افغانستان نے روس کی سپرپاور ہونے کی حیثیت کو پارہ پارہ کیا اور اسی سرزمین نے امریکہ کو واحد سپر پاور بنایا اور اس کو واحد سپر پاور بنوانے میں پاکستان نے وہ کردار ادا کیا کہ امریکہ کو پاکستان کا ہمیشہ، ہمیشہ احسان مند رہنا چاہئے تھا لیکن احسان مندی تو دور کی بات ہے اس نے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی اور پاکستان کے خلاف کام شروع کر دیا۔ افغانستان میں ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ روس کے خلاف جہاد کرنے والے اقتدار کے حصول کےلئے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ امریکہ نے پاکستان کی مخالفت میں بھارت کی پشت پر ہاتھ رکھ دیا اور بھارت سے ایٹمی معاہدہ کر لیا، اس طرح وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہو گیا۔ اس کے پیچھے جو لابیاں کام کر رہی تھیں میں ان کے بارے میں بار بار لکھتا رہا ہوں۔ ویت نام کی جنگ کے دوران اور اس کے بعد اپنی اسٹرٹیجک دفاعی حکمت عملی کو تبدیل نہیں کیا اور اس نے ویت نام میں اپنی شکست سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ امریکہ ا ور اس کے حلیف ویت نام میں مصروف تھے اور روس تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ روس اور چین نے امریکہ کی عالمی سیاست میں غلط روش اور غفلت سے پورا فائدہ اٹھایا۔ امریکہ کو اس کا اس وقت اندازہ ہوا جب وہ ویت نام سے فوجی شکست کے نتیجے میں پسپا ہوا۔ روس کو اس سے یہ اسٹرٹیجک فائدہ ہوا کہ امریکہ کی پسپائی سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ اس کو پر کرتا نظر آتا ہے۔ امریکہ سکڑ کر گلوب کی دوسری طرف جاتا نظر آ رہا تھا اور روس کے اثرات مشرق وسطیٰ، ہند چینی اور افریقہ میں پھیل رہے تھے۔ یہ برزنیف کا زمانہ تھا، روس، امریکہ کیلئے چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔
چین نے اس مہلت کے ایّام میں اپنے آپ کو معاشی سپر پاور بنا لیا تھا اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ روس نے جب ہند چینی میں اپنے اثرات کو وسعت دی اور ان علاقوں میں جہاں چین کے مفادات تھے اپنے اثرات کو بڑھایا تو دونوں ملکوں میں ٹھن گئی اور حیرت انگیز طور پر امریکہ اور روس دونوں چین کے خلاف ایک ہو گئے اور دونوں نے چین اور پاکستان کے خلاف بھارت سے اسٹرٹیجک اتحاد کر لیا۔ ویت نام کی جنگ سے سب سے زیادہ اسٹرٹیجک فائدہ روس کو ہوا جبکہ کوریا کی جنگ کا بڑا فائدہ چین کو ہوا تھا۔جب افغانستان میں روس نے مداخلت کی اور اس کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو اس نے افغان مجاہدین کو سپورٹ کیا، اس میں روس کو ناکام کرانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ اگر اس وقت پاکستان ایک منصوبہ بندی کے ساتھ امریکہ کے ساتھ نہ کھڑا ہوتا تو روس اس علاقے کےلئے بڑا خطرہ بننے میں کامیاب ہو جاتا۔ جب روس پسپا ہوا تو امریکہ کے پالیسی سازوں کو پتہ چلا کہ اس کامیابی کا سہرا پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے حکمت سازوں کے سر ہے۔ چنانچہ انہوں نے آئندہ کے لئے یہ پالیسی وضع کی کہ پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کے ادارے کو کمزور کیا جائے۔اس سے پہلے امریکیوں کو پاکستان کی اسٹرٹیجک صلاحیتوں کا اندازہ نہیں تھا۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستان کی صلاحیت ان کےلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔امریکہ کی 1956ءکے بعد کی عالمی پالیسیوں نے بتدریج امریکہ کو اخلاقی سطح پر بھی کمزور کیا اور بحیثیت ایک بڑی قوت کے بھی انحطاط کے راستے پر دھکیل دیا، جس کے نتیجے میں روس اور چین بڑی قوتیں بن کر ابھرے۔ روس کی افغانستان سے پسپائی کے بعد پاکستان کی حیثیت ایک ہیرو جیسی ہو گئی تھی۔ امریکہ میں بھارتی، یہودی لابیوں کو یہ خدشات لاحق ہو گئے تھے کہ پاکستان کا بحیثیت ہیرو سمجھا جانا ان کےلئے اچھا شگون نہیں ہے۔
افغانستان میں امریکی اور نیٹو کی مداخلت ایک بڑی غلطی تھی۔ میں نے ابھی جب امریکہ نے افغانستان کے خلاف کارروائی نہیں کی تھی، اپنے کالموں میں لکھا کہ امریکہ، افغانستان میں مداخلت کرے گا جبکہ لوگ سمجھتے تھے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ چنانچہ امریکہ نے غلطی کی۔ اس غلطی کا خمیازہ وہ آج بھگت رہا ہے۔ جو خمیازہ اسے افغانستان میں بھگتنا پڑ رہاہے وہ توالگ ہے۔وہ افغانستان میں جنگ میں مصروف رہا اور دنیا میں دوسرے عالمی ایشوز پر توجّہ نہیں دے سکا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ شمالی کوریا ایٹمی دھماکہ کر کے ایٹمی قوت بن گیا۔ دوسری طرف ایران جوہری قوت بن گیا۔ بقول ایران کے اس نے جوہری بم نہیں بنایا ہے لیکن اس نے اپنی جوہری صلاحیت کو بڑھا کر اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اس کےلئے جوہری بم بنانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ سب کچھ امریکہ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور آج بھی حالات ایسے ہیں کہ امریکہ، پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان سے نہیں نکل سکتا اور اس کا اعتراف امریکی بار بار کرتے رہے ہیں۔
اگر امریکہ، افغانستان میں مداخلت کی حماقت نہ کرتا تو دنیا میں مذہبی بنیاد پرستی جس کو امریکہ اور نیٹو والے جہادی قوتیں کہتے ہیں، اتنے آگے نہ بڑھتی اور معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا تھا۔ جہادی قوتیں افغانستان تک محدود ہو جاتیں۔ امریکہ کا اصل مقصد یہ تھا اور اب بھی ہے کہ افغانستان میں پرو امریکی حکومت ہو لیکن یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے اسلئے کہ افغان طالبان کی پوزیشن مضبوط ہے، اسی لئے وہ اپنی شرائط پر امریکی افواج کا انخلا شروع ہوتے ہی وہاں مقیم باقی افواج کا مورال تیزی سے گرے گا اور افغان فوج طالبان سے جنگ نہیں کر سکے گی اور اکثریت طالبان سے جا ملے گی۔ امریکی تیزی سے اسی پوائنٹ کی طرف جا رہے ہیں جس پوائنٹ سے امریکی افواج نے ویت نام سے راہ فرار اختیار کی تھی۔امریکہ کہتا رہے لیکن وہ افغانستان میں ناکام ہو چکا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب سے بڑا اسٹرٹیجک فائدہ شمالی کوریا اور ایران نے حاصل کیا ہے اور سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔
تازہ ترین