• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس امر پر دو رائے نہیں کہ وطن عزیز میں غربت و بیروزگاری ہے، بیماریاں ہیں، حکومت ہے کہ نہیں ہے، جیسی خراب گورننس ہے لیکن یہ وہ دور ہے جس میں عوام سب کچھ بروقت جاننے لگتے ہیں، ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ماضی میں متعدد ایسے واقعات یا سانحات ہوئے جن کے متعلق بہت بعد میں علم ہوا کہ ان واقعات کےحوالے سے جو کچھ کہا گیا تھا، سچ تو اُس کے قطعی برعکس تھا۔ دراصل امریکہ، برطانیہ سمیت کئی دیگر ممالک کی یہ پالیسی ہے کہ بعض واقعات کی حقیقت اُس وقت برسرعام لائی جائے جب اُس کے ممکنہ سائیڈ افیکٹس کا امکان معدوم ہو چکا ہو، نیز اس سے اپنے عوام کو بھی یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کیا ڈرامے رچاکر تمہاری بقا و ترقی کا انتظام کیا۔ اس کیلئے ایسے ممالک نے 30سال کی مدت طے کی، ظاہر ہے 30سال قبل رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق آج اگر پتا چل جائے کہ نہیں یہ واقعہ تو ایسا نہیں تھا اور ایسا تھا تو اس کے خراب اثرات برآمد نہیں ہوں گے۔ فرق یہ رہا کہ سامراجی ممالک اپنے ملک و ملت کیلئے یہ سب راز پنہاں رکھتے تھے، جبکہ ہمارے حکمران دوسرے ممالک کی خاطر اپنے عوام کیخلاف روا رکھے گئے ایسے جھوٹ کے افشا نہ ہونے کا اہتمام کرتے تھے۔ دو مثالیں لیتے ہیں۔ 80کی دہائی میں جب افغانستان میں جنگ برپا ہوئی تو پاکستانی حکمرانوں نے عوام کو یہ باور کرایا کہ یہ جہاد ہے۔ باچا خان وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے برملا اس کا اظہار کیا کہ یہ فساد ہے، یہ امریکہ اور روس کی لڑائی ہے، اور یہ کہ بیلوں کی لڑائی میں شامت مینڈک کی آتی ہے، اس طرح اُنہوں نے خبردار کر دیا کہ دو بڑی طاقتوں کی جنگ سے ہمارے چھوٹے ملک پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ روایتی طور پر جیسا آمروں کا طریق رہا کہ وہ ایسے مواقع پر اپنی لے پالک جماعتوں و عناصر کے ذریعے سچ کو جھوٹ کے پردوں میں جہاں لپیٹنے کا انتظام رکھتے ہیں وہاں سچ بولنے والے کیخلاف غداری سمیت ایسے پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں کہ دیگر لوگ اگر سچ جانتے بھی ہوں تو وہ اس کا اظہار نہ کر سکیں۔ خیر باچا خان نے تو تادم آخر ایسی باتوں کی پروا نہیں کی، لیکن اُن کے سچ کو درخور اعتنا اس لئے نہیں سمجھا گیا کہ جھوٹ کہنے والوں کے علاوہ یہ جھوٹ دیگر لوگوں کے کام بھی آرہا تھا، اس طرح تمام ذرائع کام میں لائے گئے اور یوں عوام نے جھوٹ ہی کو سچ کے طور پر قبول کر لیا۔ آج ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ امریکہ نے ہی روس کیخلاف لڑنے والوں کو ’مجاہد‘ بنایا تھا۔ اگرچہ ضیاء صاحب کے ساتھ طیارے میں جاں بحق ہونے والے بریگیڈیئر صدیق سالک نے اپنی کتاب Silent Soldier میں اس راز سے تفصیل سے پردہ ہٹایا تھا کہ کس طر ح امریکہ کے کہنے پر Holy War کا تصور اپنایا گیا، لیکن یہ سچ عام پاکستانی آبادی تک نہیں پہنچ سکا تھا ۔ پاکستانی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، یہ وہ نسل ہے جس نے دہشت گردی کو کھیل، تفریح و تعلیم کی عمر میں دیکھا اور جس نے انہیں شدید متاثر کئے رکھا، اس طرح وہ ہر ذاتی و ملکی معاملات میں حساس واقع ہوئے ہیں۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ اس سے اُن میں مایوسی، خوف و جمود کے بجائے مقابلے، مطالعے اور چیزوں کو سمجھنے و پرکھنے کی قوت پیدا ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہم لاہور میں طلبہ کے عظیم مظاہرے میں اس قوت کا اظہار دیکھ چکے ہیں جس پر ہر کوئی حیران کہہ رہا تھا۔

یہ کیا شبنم کا قطرہ کہہ گیا ہے

سمندر تلملا کر رہ گیا ہے

خلاصہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں خودرو آگہی سے اگرچہ کوئی پریشان بھی ہوگا لیکن اس سے یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ سچ بند دریچوں کو کھولنے والا ہے۔ اب عوام اور نوجوان اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ جو لوگ بوری بند لاشوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں خواتین کو کوڑے مارے جانے، بچوں، بزرگوں کے سر قلم کرنے پر خاموش تھے، آج وہ ایک ڈکٹیٹر کی سزا کیخلاف جو تاویلات پیش کر رہے ہیں اُن میں سچ کتناہے! اُنہیں چیف جسٹس کی اس بات پر کامل یقین ہے کہ سچ ہی کا بول بالا ہو گا۔

تازہ ترین