• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! آپ گواہ ہیں، اور کالم آرکائیو بھی ثابت کرتا ہے کہ ان سطور میں میڈیا میں بڑی جگہ بنانے والے مقدمات پر بالواسطہ تبصرے و تجزیے سے تو گریز کیا ہی جاتا ہے، تاہم اہم مقدمات کے فیصلہ آنے پر فیصلے کی کوالٹی اور اثرات ایک حد تک ضرور زیر بحث آئے ہوں گے۔

جہاں بھی قانون سے عدم واقفیت سے ابہام پیدا ہوا، اس پر لکھنے کو قلم ہی نہ اٹھا۔ شکرالحمدللہ ابلاغیات کی طالبعلمی اور استاذی، دونوں نے ہی ہمیشہ اس ضابطہ اخلاق پر ہمیشہ خبردار رکھا کہ زیر سماعت مقدمات کی نیوز رپورٹنگ پر ہی نظر رکھی جائے۔

ذمہ دارانہ صحافت کے اسی اصول کی پیروی میں سیاسی نوعیت کے متعدد مقدمات کی طرح سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے 6سالہ مقدمے کے دوران ’’آئین نو‘‘ میں کسی خفیف تبصرے و تجزیے کی بھی جگہ نہیں بنی۔

اب جبکہ اس مقدمے کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے اور اس نے ایک انتہائی پیچیدہ اور حساس قومی جاری صورتحال میں مزید ہلچل اور پیچیدگی پیدا کر دی ہے،

پیشہ ورانہ ذمہ داری اور دیانت داری دونوں کا تقاضا ہے کہ اس پر قلم اٹھایا جائے اور عوام الناس کے اذہان میں اٹھے سوالوں کو عام کیا جائے کہ ان سوالوں کے درست جواب پاکر ہی پاکستانی عدلیہ کے ارتقا کا وہ عمل پھر سے رواں ہوگا،

جو زیر بحث مقدمے کے ملک میں دہشت پیدا کرنے والے فیصلے کے حصے پر بری طرح اثرانداز ہوا ہے۔ جبکہ اس سے قبل ملکی قدیم عدالت‘ لاہور ہائیکورٹ کے وکلا نے امراض قلب کے اسپتال پر جان لیوا بلوہ کرکے پوری قوم کے دل دھڑکا دیے۔

اور تو اور جاتے جاتے، اچھی بھلا عزت و اعتبار کمانے والے چیف جسٹس صاحب شاید قوم کو عدلیہ کی بڑھتی غیر جانبداری اور آزادی کا یقین دلانے کیلئے ایک ایسا فقرہ بول گئے کہ لگا کہ انہیں کسی زیر سماعت بڑے مقدمے کے فیصلے کی پہلے سے خبر ہے۔ واللہ اعلم، جج صاحب نے سرکار بنام مشرف کے اسی زیر بحث مقدمے کی طرف اشارہ کیا تھا،

لیکن ان کی قوم کو اطلاع سے اندازہ اور اس کے چند روز بعد ہی مشرف کو پھانسی اور اس میں ایک جج کی تشویشناک خواہش کے مطابق ’’عبرت‘‘ کے تڑکے پر مشتمل فیصلے نے (گلی محلے کے ورڈ آف مائوتھ کے مطابق) یہی واضح کیا کہ ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس صاحب نے اسی فیصلے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس سوال کا جواب ماہرین قانون سے مطلوب ہے کہ ایک چیف جسٹس کا کسی ’’خصوصی عدالت‘‘ کے فیصلے سے آگاہ ہونا اور اس سے اشارتاً قوم کو آگاہ کرنا، کتنا پروفیشنل انداز ہے، اور کتنا قابل اعتراض؟ کیا یہ آنے والے فیصلے کو مشکوک بناتا ہے یا نہیں؟

اسی پس منظر نے بار اور بنچ کی پیشہ وری کے معیار، غیر جانبداری اور وقار پر کتنے ہی سوال نہیں اٹھا دیے؟ جی ہاں! اعتزاز احسن اور عرفان قادر جیسے ماہرین قانون کے تجزیوں تبصروں میں ہی نہیں اسٹریٹ ٹاک میں بھی یہ سوال اٹھ رہے ہیں۔

قارئین کرام! بندہ پنجاب یونیورسٹی کے ان 9اساتذہ کی فہرست میں شامل تھا جن کے خلاف مشرف، شوکت عزیز حکومت کے ایمرجنسی پلس ایکٹ 2007کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کے نیوکیمپس میں احتجاجی جلوس نکلوانے کے ’’جرم‘‘ میں مقدمہ درج ہوا۔

’’آئین نو‘‘ میں ایک نہیں کئی بار مشرف دور پر تنقید کرتے ہوئے اس کے کچھ قابل تعریف پہلوئوں خصوصاً بمطابق آئین لوکل گورنمنٹ کا کامیابی سے اجرا، یونیورسٹیوں کو فنڈز کی فراخدلانہ فراہمی، پی ایچ ڈیز کی تعداد بڑھانے، بینکنگ کے فروغ اور سب سے بڑھ کر غیر ملکی قرضہ اتارنے اور روپے کی قیمت میں استحکام کے اعتراف کے ساتھ ساتھ، اکبر بگٹی سے نمٹنے اور لال مسجد کے سلسلے کو حکمت سے حل کرنے کے بجائے بندوق سے حل کرکے انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا کرنے اور پھر این آر او متعدد بار سخت تنقید کی گئی۔

معافی کا طلبگار ہوں، اپنے حوالے سے اور اپنی پیشہ ورانہ غیر جانبداری کو مجھے اتنا واضح کرنا پڑ رہا ہے کہ آج قلم بار اور بنچ جیسے ذمے دار اور بااختیار اداروں کی پیشہ واریت کے معیار پر اٹھا ہے تو اپنے گریبان میں تو جھانکنا بھی بنتا ہے۔ ’’آئین نو اور مشرف ‘‘ کے حوالے سے جھانکا تو یہ ہی کچھ نکلا جو ضبط تحریر ہے۔

نواز شریف کے تیسرے دور کا سب سے مثبت پہلو یہ رہا کہ اس میں عدلیہ کا اعتبار و وقار بڑھ گیا جو شروع تو پی پی حکومت سے ہی ہو گیا تھا لیکن اس کی حتمی تصدیق اور غیر معمولی اضافہ میاں صاحب کی حکومت میں ہوا، بجائے اس کے کہ نون لیگ اس کو کیش کراتی، عاقبت نااندیش مشیروں اور ڈیزاسٹر میڈیا سیل نے عدلیہ کے خلاف طوفان کھڑا کرکے الٹا اپنی پوزیشن خراب کر لی۔

اب صورت یہ ہے کہ ایک بار پھر یکے بعد دیگرے بار اور بنچ کا جو رنگ سامنے آیا ہے، اس نے اس کے اعتبار و وقار کو ڈگمگا دیا ہے۔ مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلہ میں سینئر جج نے فیصلہ لکھتے ہوئے جو زبان استعمال کی ہے اور اپنی جس قابل مذمت حد تک خواہش کو غیر قانونی طور پر فیصلے کا حصہ بنایا ہے،

اس نے ان کے پروفیشنلزم کو چیلنج کر دیا ہے اور ناچیز کی ذاتی رائے تو یہ ہے کہ جج صاحب ہرگز پروفیشنل ذہن نہیں رکھتے۔ یہ تو انہیں معلوم ہے نا کہ جو انہوں نے قانونی سزا کے علاوہ ’’سزا بعد از موت‘‘ تجویز کی ہے وہ یقیناً قانون میں نہیں، اور اس کا فیصلے میں گھسانا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ ہرگز پروفیشنل نہیں ہے؟ اور پھر کیا پورا مقدمہ مشکوک نہیں ہو گیا؟ یقیناً ہو گیا۔

چھ سال ضائع نہیں ہو گئے؟ جی ہاں ہو گئے۔ جب فیصلہ ہی ان کے منفی ذہن کی مکمل عکاسی کر رہا ہے تو یہ فیصلہ بمطابق قانون اور منصب نہیں رہا۔

یاد رہے کہ جو جج موت کی سزا والا مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، اسے اتنا ہی پروفیشنل ہونا چاہئے۔ کیا جج کا رویہ مِس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتا؟

ایک جج نے ملزم کو بری کیا ہے، ایک غیر پیشہ ور ثابت ہو رہا ہے۔ فقط اتنی بات ہے کہ ان کا غیر پیشہ ورانہ ہونا ذاتی آرا اور تبصروں سے نہیں، اسے قانون کی عدالت یا سپریم جوڈیشل کونسل میں ثابت کرکے ہی معاملہ نمٹے گا اور قانونی عمل میں جو آلودگی پیدا ہوئی ہے وہ اسی سے شفاف ہو گی۔

وماعلینا الا البلاغ۔

تازہ ترین