پاکستان کے لیجنڈ فنکار معین اختر کا آج 59واں یوم پیدائش ہے۔ اس دن کی مناسبت سے معین اختر کو یاد کرتے ہوئے اور ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ان کا ٹی وی پر آخری انٹرویو آپ کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔
برجستہ اور شگفتہ جملوں سے ہمیشہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والی یہ شخصیت اپنے آخری انٹرویو میں نہایت سنجیدہ دکھائی دی۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل اس عہد ساز شخصیت نے نجی چینل کے پروگرام ’اچیورز‘ میں بطور مہمان شرکت کی جس کی میزبانی مریم عارف نے انجام دی۔
اپنے انٹرویو میں انہوں نے اپنی زندگی اور کیرئیر کے علاوہ نوجوانوں کو بہت سے پیغامات بھی دیئے اور زندگی کی حقیقت سے روشناس کروایا۔
انہوں نے خود اپنے بچپن کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت معصوم اور سیدھے سادے تھے۔
زندگی کی تلخیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے معین اختر کا کہنا تھا کہ گھریلو مسائل کے باعث وہ تعلیم تو مکمل نہ کرسے تاہم وہ ایک ذہین طالب علم تھے۔
معین اختر کا کہنا تھا کہ انہوں نے13 برس کی عمر میں اپنا کیریئر شروع کیا، تھیٹر میں شیکسپیئر کے ڈرامے ’مرچنٹ آف وینس‘ میں شائی لوک کا کردار ادا کیاجس میں ان کی بہترین اور جاندار اداکاری کو سراہتے ہوئے اول انعام دیا گیا تھا۔
قدرت کی جانب سے عطا کردہ بے شمار صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں شوبزنس کی دنیا کا کچھ معلوم نہیں تھا۔
15 سال کی عمر میں 6دسمبر 1966 پاکستان کے یوم دفاع کے موقع پر انہوں نے ٹیلی ویژن پر پہلی انٹری دی۔
اپنے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ اسٹیج پر پہنچے تو وہاں حاضرین میں ہل چل تھی، لیکن جیسے ہی انہوں نے بولنا شروع کیا دس منٹ کے اندر ہی حاضرین میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔
معین اختر کا کہنا تھا کہ تقریب میں موجود حاضرین کو اُن کا مختلف حس مزاح اور مذاق منفرد لگا ،اور ان کی اس ایک پرفارمنس نے ان کی زندگی بدل دی۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں اس تقریب میں پرفارم کرنے کے 5 سے 10 روپے ملے تھے،دوسرے شو کے انہیں 15 سے 20 روپے ملے تھے۔ شروع شروع میں ملنے والے پیسےوالدہ کودیئے۔
معین اختر نے کہا کہ جب اُن کے گھر والوں کو اُن کے شوبز میں قدم رکھنے کا معلوم ہوا تو والد نے زبردست پٹائی کی۔
شوبز میں کام کرنے کے حوالے سے والد کیسے مانے؟
بعد ازاں انہوں نے شوبز میں اپنی صلاحیتیں منوالیں ، ایک دن جب وہ اُس وقت کے صدر ضیاالحق کا انٹرویو کرنے جارہے تھے تو اُن کے والد نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
معین اختر نے سیکورٹی کے پیش نظر کہا کہ وہاں تو تمام انتظامات مکمل ہوچکے ہیں تو وہاں اہلکار سے بات کی کہ میرے والد میں شرکت کرنا چاہتے ہیں ، انہیں آنے کی اجازت دے دی گئی ۔
ضیا الحق سے انٹرویو کے دوران معین اختر نے انہیں بتایا کہ میرے والدبھی یہاں حاضرین میں موجود ہیں تو بیک اسٹیج ضیاالحق نے ان کے والد سے کہا کہ’ آپ کا بیٹا بہت ٹیلنٹڈ ہے‘
پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز کی خبر سے بھی وہ خوشی سے نہال تھے۔
معین اختر نے اپنے انٹرویو میں نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سیکھنے کی سب سے بہترین جگہ اپنا آپ ہے،اس کے بعد گھر ہے جہاں سے آپ ہر اچھی اور بری چیز سیکھتے ہیں ۔
اپنے آپ کو درست سمت پر رکھ کر ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
معین اختر کا نوجوانوں کے لیے پیغام
اپنے اخری ٹی وی انٹرویو میں معین اختر نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ محنت کرتے رہیں، خواب دیکھنا بند نہ کریں کیونکہ خواب کی تعبیر کبھی نہ کبھی ضرور ملتی ہے۔
انہوں نےعلامہ اقبال کے خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اُس خواب کی تعبیر قائد اعظم کی انتھک محنت کے بعد حاصل ہوئی۔
انہوں نے نوجوانی کی حوصلہ افزائی ان الفاظ میں کی۔
قوم میں ابھی بھی بہت سے قائداعظم موجود ہوں گے، اہم بات یہ ہے کہ روشن صبح کا انتظار کرنا چاہئے، ہر رات کے بعد سویرا ضرور آتا ہے۔ ہر تکلیف کے بعد آسانی ضرور آتی ہے، ہر غم کے بعد خوشی ضرور آتی ہے، ہر دھوپ کے بعد سایہ ضرور آتا ہے اور ہر آج کے بعد کل ضرور آتا ہے۔