• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی صدیوں تک بادشاہوں اورمغلیہ خاندان کی رعایا رہنے کے بعد اورپھر برطانوی حکومت کی ایک صدی سے زیادہ غلامی کے نتیجے کے طور پر ہمارے معاشرے میں فیوڈل کلچر اورجاگیردارانہ سوچ غالب آچکی ہے۔ فیوڈل کلچر بالائی طبقوں کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے لیکن عوام بھی ابھی تک اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکے چنانچہ جمہوریت ہو یا سیاسی مستقبل کے حوالے سے فیصلے کی گھڑی، عوام کا جھکاﺅ بھی فیوڈل کلچر کے نمائندوں کی جانب ہی ہوتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فیوڈل طبقہ کئی صدیوں سے نچلی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک حکمران رہاہے چنانچہ اسے رویتی طورپر حاکمیت کا اہل تصور کرلیاگیا ہے۔ یہاں فیوڈل سے مراد صرف جاگیردار، وڈیرے، گدی نشین اور بااثر زمیندارہی نہیں بلکہ اس سے مراد وہ تمام رﺅسائ، صنعتکار اور کاروباری خاندان ہیں جو دولت کے سہارے سیاست اور اقتدار کے کھیل میںشامل ہو کر فیوڈل کلچر کاحصہ بن چکے ہیں۔ عام طور پرجمہوری و سیاسی عمل فیوڈل کلچر کی گرفت توڑتا اوراقتدار میں ”عوامی پن“ لاتاہے۔ فیوڈل سوچ اور طور طریقے بدلتا ہے اور سیاسی بیداری کی لہر کو تیز اور مضبوط بناتا ہے لیکن ہماری 65 سالہ تاریخ میں انتخابات اور سیاسی عمل کے باوجود فیوڈل کلچر کی گرفت اتنی کمزور نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہئے تھی۔ اس صورتحال کی ذمہ داری محض فوجی حکومتوں پر نہ ڈالیں کیونکہ فوج کے دورِ حکومت میں بھی محدود پیمانے پر سیاسی عمل جاری رہتا ہے۔ دراصل عوام کی ذہنی و سیاسی تربیت اس انداز سے نہیں کی گئی کہ وہ فیوڈل ازم کے خلاف مزاحمت کریں کیونکہ بڑی سیاسی جماعتوں پر بھی فیوڈل کلچر کے نمائندوں کی اجارہ داری ہے اور عوام کی تربیت سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ جب فوجی مداخلت ہوتی ہے تو فوجی آمر انہی روایتی سیاستدانوں کو اپنی سیاسی بیساکھیاں بناتا ہے اور انگریزوں کی مانند انہی کی مدد سے حکمرانی کے ”لوشے“ لیتاہے۔ اس طرح نہ فیوڈل اندازِ سیاست کی گرفت ٹوٹی ہے، نہ اس کی جڑیں کمزور ہوئی ہیں اور نہ ہی ابھی تک عوام میں اس کے خلاف عملی ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ نتیجہ دولت کی سیاست، لوٹوں کی سیاست، موروثی سیاست، محلاتی جوڑ توڑ، وفاداریوں کی خرید و فروخت اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں اور سیاسی طور پربالادست خاندانوں کا شان و شوکت، بادشاہانہ، پروٹوکول غریب ملک کے خزانے پر عیش و عشرت.... اگرچہ میڈیا نے اس شاہانہ انداز ِ سیاست کے خلاف مہم چلائی ہے لیکن اس کے باوجود بظاہر عوامی سطح پر روایتی سوچ نہیں بدلی اور نہ ہی رائے دہندگان نے اس کلچر کو عملی طور پر مسترد کرنے کا کوئی واضح ثبوت دیاہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کی طویل فہرست اس تاثر کی تصدیق کرتی ہے۔
موجودہ پاکستانی سیاست میں ملکی سطح پر دو سیاسی جماعتیں اہم سمجھی جاتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی.... اے این پی، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے پاکستان وغیرہ وغیرہ بادی النظر میں صوبائی یا علاقائی جماعتیں ہیں۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک پر کئی کئی بار حکمرانی کرچکی ہیں اور دونوں کے سیاسی کلچر میں کوئی واضح یا نمایاں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ طویل حکمرانی نے دونوں جماعتوں میں جمہوری گروہوں کو ابھرنے دیا ہے نہ فیوڈل سوچ کی گرفت کمزور ہوتی رہی ہے نہ جمہوری کلچر کو پارٹی کے اندر فروغ پانے دیا ہے۔ خاندانوں کی اجارہ داری سے لے کر دولت کے بے دریغ استعمال تک، پارٹی انتخابات کو من پسند سانچے میں ڈھالنے سے لے کر عام کارکنوں کی رسائی اور تربیت تک، شان و شوکت سے لے کرقومی خزانے کے ضیاع تک کوئی اہم تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جسے ہم جمہوری کلچر کی علامت تصور کریں یا فکری تبدیلی اور انداز ِ سیاست کا مظہر سمجھیں۔ جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں بااثر اور روایتی سیاستدانوں کی جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ جمہوری اصولوں کو پوری طرح پامال کیا جارہا ہے اوربااثر سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں۔ اگر جماعتوں کو عوامی حمایت کا یقین ہو توظاہر ہے کہ وہ اس طرح کا کھیل نہیں کھیلتیں۔ اگر عوام نے جماعتوں کے منشوراور کارکردگی کو ووٹ دینے ہوں توسیاسی قیادتیں بااثر امیدواروں کے چنگل سے نکل جاتی ہیں۔ یہ ساری علامتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستانی سیاست پر فیوڈل کلچر کی گرفت ابھی تک مضبوط ہے اور عوام نے اس سے رہائی کے لئے کوئی بڑااشارہ نہیں دیا۔
فیوڈل کلچر کی نمائندہ جماعتوں کے مقابلے میں وہ جماعتیں بھی سیاسی میدان میں موجود ہیں جو اسلامی، جمہوری اوراصولی کلچر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان جماعتوں میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی بھرپور نمائندگی پائی جاتی ہے اوروہ فیوڈل کلچر کو توڑ کرپاکستان میں جمہوری کلچر کو فروغ دیناچاہتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں جماعت اسلامی ہے جو ملکی و قومی سطح پر سب سے زیادہ منظم اور فعال سیاسی جماعت ہے جس کی قیادت چھوٹے گھروں میں رہتی، سادہ عوامی زندگی گزارتی، اسلامی طرز ِ حیات پر یقین رکھتی ہے اور نظریاتی سیاست کی علمبردار ہے۔ اس کے اراکین پڑھے لکھے، باعمل مسلمان اور صاف ستھرے انسان ہیں اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ وہ سیاسی میدان میں کوئی بڑا معرکہ نہیں مار سکے کیونکہ عوامی سطح پر فیوڈل کلچر کافسوں طاری ہے، روایتی سیاست حاوی ہے اورلوگوں پر ابھی تک اسلامی جمہوریت کا تصور واضح نہیں ہوا نہ ہی نظریاتی سیاستدانوں کے حوالے سے شعور پیدا ہواہے۔ ابھی تک ہماری جمہوریت کا حسن دولت ہے چند ایک کی مثال کو کرامت سمجھئے ورنہ دولت ہی ہماری سیاست کااہم عنصر ہے۔ سیاست میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بڑی جماعتیں عملی طورپر آئین کی شقیں 62/63 کوناپسند کرتی ہیں، امین و صادق کے تصور کا مذاق اڑاتی ہیں اور باہمی مخالفت کے باوجود نہ صرف جعلی ڈگریوں، الیکشن کمیشن کے نئے تفصیلی فارم کی مخالفت پر اکھٹی ہوجاتی ہیں بلکہ چھان بین کا عرصہ گھٹانے پر بھی متحد ہو جاتی ہیں۔
ویسے توایم کیو ایم بھی اسی تبدیلی کی علمبردار ہے۔ ایم کیو ایم میں مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقوں کی نمائندگی غالب ہے لیکن اول تو یہ جماعت ملکی سطح پر اپنا رنگ نہیں جما سکی۔ دوسرے ایم کیو ایم کو جمہوری اقدارکے دعوﺅں کے باوجود ایک لسانی جماعت سمجھا جاتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ ایم کیو ایم کو اس کی مصلحت پرست سیاست نے بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ ایم کیو ایم فیوڈل کلچر کے خاتمے کی آواز رکھتی ہے لیکن ہمیشہ فیوڈل کلچر کی نمائندہ قوتوں اور جماعتوں کی اتحادی رہی ہے بلکہ اقتدار میں شامل ہو کر فیوڈل سیٹ اپ کا حصہ رہی ہے۔ وہ فوج ہو یا پی پی پی یہ سب فیوڈل کلچر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران تحریک انصاف تبدیلی کی ایجنٹ اور علامت بن کر ابھری ہے اور فیوڈل کلچر کو جمہوری کلچر سے بدلنے کی پیامبر ہے ۔
اگرچہ کچھ روایتی جاگیردار اور دولت کی سیاست کے کردار تحریک انصاف میںشامل ہوئے ہیں جس سے اس کا باغی چہرہ داغدار ہواہے لیکن پھر بھی عوام کا ایک حصہ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان سے تبدیلی کی امید رکھتا ہے۔ تجربہ اورمشاہدہ بتاتا ہے کہ سیاسی اقدار اور جمہوری کلچر کو فروغ دینے میں لیڈر شپ کا حصہ اورکردار فیصلہ کن ہوتاہے۔ ہم نے دیکھا کہ 1966-69 کے درمیان بڑے بڑے انقلابی اور نظریاتی لیڈر پی پی پی میں شامل ہوئے لیکن جب پی پی پی برسراقتدار آگئی تو وہ پارٹی قیادت کی فیوڈل سوچ کے نیچے دب کر رہ گئے حتیٰ کہ کچھ مایوس ہو کرعلیحدہ ہوگئے۔ تحریک انصاف نے پارٹی انتخابات کے ذریعے عملی جمہوریت کا ثبوت دیا ہے لیکن فی الحال پارٹی کو ابھرنے کے لئے سخت محنت، متحرک کارکن اور اعلیٰ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انتخابات کے نزدیک ایک سیاسی لہرچلا کرتی ہے جوووٹروںکا رخ متعین کرنے میںاہم کردار سرانجام دیتی ہے۔ ہم اس لہر کی کرامت کئی انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔ اگر عمران خان اور تحریک انصاف وہ لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تووہ بڑی سیاسی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں ورنہ ملکی سیاست کے امکانی نقشے میں کسی بڑی تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ فیوڈل کلچر جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہوتاہے جب تک اس کی گرفت کمزور نہیں ہوتی جمہوریت کا پودا پروان چڑھ سکے گا نہ جمہوریت کا ثمر عوام تک پہنچ سکے گا۔
تازہ ترین