ماہِ دسمبر پاکستان کیلئے نہایت دکھ اور رنج و الم کا مہینہ ہے جس میں سقوط ڈھاکا، سانحہ آرمی پبلک اسکول اور بینظیر بھٹو کی شہادت جیسے دلخراش واقعات پیش آئے۔ زندہ قومیں ملک کی قسمت بدلنے والے عظیم لیڈروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی قائداعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈرز عطا کئے جنہوں نے بے شمار قربانیاں دے کر پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔
میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے انتہائی قریبی تعلق رہا ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کے قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی بارہویں برسی پر ان کے ساتھ گزارے گئے کچھ تاریخی لمحات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
شہید بینظیر بھٹو سے میری پہلی ملاقات 1994ء میں سائٹ ایسوسی ایشن کی ایوارڈ تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے صنعتوں کی بحالی کا ایوارڈ دیا تھا۔
بعد میں محترمہ کی درخواست پر میں انہیں مختلف اوقات پر بیمار صنعتوں کی بحالی، ملکی معیشت، توانائی کے بحران پر مختلف تجاویز دیتا رہا جس کی بنا پر مجھے ان کی قربت حاصل ہوئی، وہ مجھے اپنے ساتھ برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزرا کے ہمراہ لے کر گئیں۔
بی بی عموماً اپنے خصوصی طیارے کی روانگی کے بعد وفد کے ارکان کو فرداً فرداً بلا کر ان کی تجاویز اپنے دورے کے ایجنڈے میں شامل کرتی تھیں۔ 2002 کے الیکشن میں شہید بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA250 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جس کیلئے میں بالکل تیار نہ تھا لیکن بی بی، مخدوم امین فہیم اور سینیٹر رضا ربانی کے اصرار پر میں محترمہ کو انکار نہ کر سکا۔
یہ الیکشن میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔دبئی میں جلا وطنی کے دوران میں محترمہ کے بہت قریب رہا۔ محترمہ نے 18اکتوبر 2007کو وطن واپسی کا اعلان کیا۔ ان کے اعلان کے وقت پارٹی کے تمام سینئر لیڈر اور ورکر بلاول ہائوس میں جمع تھے۔ محترمہ کی کراچی واپسی ہم سب کیلئے خوشی کے ساتھ ایک چیلنج تھا کہ ہم کس طرح ان کا شایانِ شان استقبال کریں۔
بینظیر بھٹو کا شایانِ شان استقبال اور سانحہ کارساز تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں نے الیکشن اور بی بی کے استقبال کی مصروفیات کی بنا پر اپنے بھائی اشتیاق بیگ کو بی بی کے ہمراہ دبئی سے کراچی آنے کیلئے کہا۔ وطن واپسی پر بینظیر بھٹو نے طیارے سے اترتے وقت میرے نام کی پی پی الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی بلکہ طیارے میں سوار تمام افراد کو پہننے کی ہدایت کی جسے دنیا بھر کے چینلز نے دکھایا۔
بینظیر بھٹو اپنے قریبی ساتھیوں کو مختلف ذمہ داریاں دے کر آزماتی تھیں۔ کراچی میں محترمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن آفس میں ہنگامے کے بعد واپسی پر بلاول ہائوس میں ایک اہم میٹنگ کی جس میں شیری رحمٰن، رضا ربانی، رحمٰن ملک، قائم علی شاہ اور دیگر اہم پارٹی رہنما بھی شریک تھے۔
اجلاس میں طے پایا کہ سیکورٹی کے پیش نظر محترمہ بینظیر بھٹو اپنے کاغذات نامزدگی کی تصدیق کیلئے دوبارہ الیکشن کمیشن آفس نہیں جائیں گی۔ اس موقع پر میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی حاضری کا استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے۔
میں نے فوراً الیکشن کمیشن کے اس وقت کے سیکریٹری سے رابطہ کرکے بینظیر بھٹو کو الیکشن کمیشن میں حاضری سے استثنیٰ حاصل کیا۔ میں یہ بات محترمہ کو بتانا ہی چاہتا تھا کہ رحمٰن ملک نے مجھے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا مشورہ دیا۔
اتوار ہونے کے باوجود تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کیا گیا جسے میں نے فخریہ انداز میں محترمہ کو پیش کیا۔ تحریری استثنیٰ دیکھ کر محترمہ نے مجھے Well doneکہا۔ اس موقع پر وہاں موجود ذوالفقار مرزا نے محترمہ سے مذاقاً کہا ’’میڈم! ایسے کام صرف ’’مرزا‘‘ ہی کر سکتے ہیں‘‘۔ محترمہ نے جواب میں کہا’’نہیں صرف ’’بیگ‘‘ کر سکتے ہیں‘‘۔ محترمہ کی تعریف میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔
محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008کے انتخابات کیلئے کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہNA250 کا پارٹی ٹکٹ دیا۔ پورے پاکستان میں 2008 کے الیکشن میں بی بی اور نواز شریف کی خواہش پر مجھے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا تھا جبکہ مجھے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل تھی۔
شام کو میرے ایک قریبی دوست نے اپنی رہائش گاہ پر میری انتخابی کارنر میٹنگ رکھی تھی۔ میں نے جیسے ہی تقریر شروع کی، تھوڑی دیر میں آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر مختار بھٹو تیزی سے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔
میں اپنے دوست فرخ مظہر کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا جہاں ٹی وی پر ہمیں یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ دلخراش خبر سنتے ہی میں سیدھا بلاول ہائوس بھاگا جہاں پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بڑی تعداد میں جمع تھے اور اپنی عظیم لیڈر سے بچھڑ جانے پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔
رات گئے جب میں ٹوٹا ہوا بلاول ہائوس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسدِ خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش لے جانے اور مجھ سمیت لاکھوں افراد کی آہوں و سسکیوں میں ان کی تدفین کا منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کے موبائل فون سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے‘‘۔
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
دراصل یہ وہ میسج میں نے اپنے حلقہNA250 میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر شکریہ کیلئے کیا تھا جس کے جواب میں بی بی نے مجھے میسج کیا تھا۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔