• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی جماعتوں سے وابستہ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی جماعت میں تو ہر دلعزیز ہوتی ہی ہیں، مخالف سیاسی جماعتوں میں بھی اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، قول وفعل میں یکسانیت کے باوصف جہاں یہ اپنی جماعت کی آبرو ہوتے ہیں تو وہاں فکری ونظریاتی مخالفین بھی اُن پر اعتبار کرتےہیں، گویا ایسے لوگ نہ صرف اپنی جماعتوں بلکہ سیاست کی بھی آبرو واعتبار ہوتے ہیں۔ 

ہمارے زمانۂ طالب علمی کے دوران نظریاتی کشمکش اپنے جوبن پر تھی، سرخے و سبزے پورے شباب پر ہوتےتھے، روس اور امریکہ کی یاری کے نعرے بھی بلند ہوتے لیکن ان کی پرواز پھر بھی اتنی بلند نہ ہوتی تھی کہ کسی کی عزت وناموس کی دیواروں کو پھلانگ سکے۔ اس دور کے حوالے سے ایک مثال جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد مرحوم کی ہے، مخالفین بھی جن کی قدر کرتے تھے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ فی زمانہ چار سو پھیلی موقع پرست سیاست کے سبب ایسے لوگ نایاب ہوتے جا رہے ہیں مگر پھر بھی یہ ہے کہ قحط الرجال کے اس دور میں بھی متعدد مثالی لوگ موجود ہیں، ہم دوچار نام محض اپنی بات کو واضع کرنے کی خاطر یہاں دیتے ہیں۔ جیسے پرویز رشید، فرحت اللہ بابر، حاجی غلام احمد بلور، عثمان کاکڑ، جن کا نام اپنے جماعتوں کے علاوہ بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ 

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ماضی کی طرح نظریات کا علم بلند رکھنے والی جماعت نہیں رہی، آلائشوں نے گویا اس جماعت کے فکری جوہر کو مکدر کرکے رکھ دیا ہے، شاید وہ دور لد گئے جب کبھی اس کے کارکن آمروں کو چیلنج کرتے تھے۔ 

مسلم لیگ کا فکری ونظریاتی محاذ پر جو تھوڑا بہت چہرہ بنا ہے اس میں جہاں حالات کے جبر نے کام دکھایا تو اس میں پرویز رشید جیسے کمٹڈ لوگوں کا حصہ بھی کچھ کم نہیں، اس طرح یہ بات بھی کبھی کبھی ہماری عقلِ خام کو ستانے لگتی ہے کہ پھر پرویز رشید اور فرحت اللّٰہ بابر جیسے مثالی لوگ موجودہ دور میں کیسے اِن جماعتوں کی بےاُصولیوں کو برداشت کئے ہوئے ہیں، ہمارا جواب پھر اپنے آپ سے یہی ہوتا ہے کہ طویل رفاقت وآئیڈل سانچے میں ان جماعتوں کے ڈھلنے کی اُمید سمیت انسانی مزاج سے نتھی دیگر متعدد وجوہ ہو سکتی ہیں۔

خیر ہمارا مطالعہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کا ہے اور یہ جہاندیدہ۔ ماجرہ یہ ہے کہ یہی دو بڑی جماعتیں یہ شکوہ کرتی ہیں کہ ملکی حیات کا زیادہ تر عرصہ آمریت کی نذر ہوا اور جو دورانیہ ملا اُس میں بھی جمہوریت پابہ جولاں رہی۔ ایسا ہی ہے لیکن یہ جماعتیں تمام خرابیوں کو آمروں کے کھاتے میں ڈال کر سیاستدانوں کو بری الزمہ قرار نہیں دی سکتیں۔ 

اس سارے بگاڑ میں سیاستدانوں کا حصہ بھی کچھ کم نہیں، آج پوری دنیا میں سول حکمرانی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم آج بھی ذرا سی گرگراہٹ پر سہم کر بیٹھ جاتے ہیں! 

اس ڈروخوف کا سبب کسی طالع آزما کا محض جبر نہیں بلکہ سیاستدانوں کی نااہلی وکمزوریاں بھی ہیں۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت میں بڑے بڑے بحرانوں میں بھی وہاں کے عوام کو اگر یہ واہمہ لاحق نہیں ہوتا کہ اب کوئی آمر نظام کو لپیٹ دےگا تو وجہ وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے روزِ اول سے جمہوری بنیادوں پر نظام کو استوار کئے رکھا ہے اور جو آج بھی اس کے پاسبان ہیں۔ 

ہماری تاریخ یہ ہے کہ نہ صرف آمروں کی راہوں میں یہی سیاستداں پلکیں بچھاتے رہے ہیں بلکہ جب جب نظام کے استحکام کا موقع آتا ہے یہ اپنے مفاد کیلئے باہم دست وگریبان ہو جاتے ہیں۔ 

ماضی کو چھوڑئیے یہ کل ہی کا واقعہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی نے نظام کے استحکام کی جانب قدم بڑھایا تو نوازشریف کالا کوٹ پہن کر نمودار ہوئے اور جب 2018کے انتخابات میں بہت زیادہ سنجیدگی کی ضرورت تھی، تو پی ٹی آئی سے زیادہ پیپلزپارٹی نہ صرف یہ کہ ن لیگ کیخلاف بروئے کار آئی بلکہ جناب زرداری نے سینیٹ میں سنجرانی صاحب کو ووٹ دے کر واضع کردیا کہ وہ راہ ورسم طے کر چکے ہیں۔ 

انتخابات کے بعد جب اپوزیشن اتحاد بنا، تو بھی یہ سیاستدان چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد میں اپنے منفی کردارکو نہ چھپا سکے۔ گزشتہ تین دہائیوں کی کہانی بھی یہی ہے کہ سیاستدان ہر وقت سول بالادستی کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن جب جب ایسا موقع آتا ہے اُن کا عمل اُن کے قول کے برعکس ہو جاتا ہے اور وقت گزرنے پر پھرشیر بن جاتے ہیں یا دمادم مست قلندرکا نعرہ لگانے لگتے ہیں۔ 

احمد فراز نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی

تمام خلق مری ہمنوا نکلتی ہے!

تازہ ترین