• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل تو بہت چاہتا ہے کہ نئے سال کی آمد پر پرانے تازیانے بھول جائوں، خوشی کے گیت گائوں اور محض اس دعا کیساتھ 2020ء کا پہلا کالم لکھوں کہ:

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

مگر کیا کیجئے کہ کاغذ سے آگ کو نہیں ڈھانپا جا سکتا اور کتے کے منہ میں ہاتھی دانت نہیں اُگتے۔ احمد ندیم قاسمی کے بجائے اعزاز احمد آذر کا شعر مستعار لوں تو:

اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی

اب اس میں اُگنے لگا اندھیرا تو جی میں کیسا ملال رکھنا

اور ہم تو چاندنی کاشت کرنے کا تکلف بھی نہیں کرتے بلکہ کانٹوں کی فصل بوکر گلابوں کے منتظر رہتے ہیں۔

آپ کی خوشیاں غارت کرنے پر انتہائی معذرت مگر مجھے تو ایک درد بھرے قصے سے ہی نئے سال کا آغاز کرنا ہے کیونکہ جب تک ہم حقیقت پسندی کی دہلیز پر قدم نہیں رکھیں گے، افسردگی اور حزن و ملال کی گھاٹیوں سے شادمانی و کامرانی کی فلک بوس چوٹیوں کی طرف سفر شروع نہیں ہوگا۔ یہ کہانی ہے 2009ء کی جب سلطانی جمہورکی صبح خوش جمال کا سورج ایک بار پھرطلوع ہوا۔

مرکزمیں پیپلز پارٹی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں حکومت بنائی، جنرل پرویز مشرف کو مواخذے کی دھمکی دیکر اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا،

آصف زرداری صدرِ مملکت منتخب ہو گئے اور بلوچوں کی محرومیوں کا ایک بار پھر ازالہ کرنے کے لئے ’’آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج‘‘ کے نام سے اصلاحاتی پروگرام کا اعلان کیا گیا۔

دیگر تمام منصوبوں کی طرح یہ بھی بہت شاندار تجویز تھی۔ پیپلز پارٹی اب تک اس بات کا کریڈٹ لیتی ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ ’’آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج‘‘ کے 61میں سے صرف 15نکات پر ہی عملدرآمد ہو سکا۔ جن 15نکات پر عملدرآمد ہوا، ان سے متعلق بھی افسر شاہی نے کیسے دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی کوشش کی،اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔

آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے تحت بلوچستان کے 13مقامی انجینئروں کو آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی میں ملازمت دینے کا فیصلہ ہوا۔ پہلی زیادتی تو یہ ہوئی کہ ان مقامی انجینئروں کو مستقل اسامیوں پر بھرتی کرنے کے بجائے ’’یومیہ اُجرت‘‘ پر نوکری دی گئی۔

پاکستان بھر میں سرکاری نوکری ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کبھی نہ کبھی سروس ریگولرائز ہو ہی جائے گی مگر ان 13انجینئرز کو 10سال گزرنے کے باوجود مستقل نہیں کیا گیا اور اب بھی انہیں 88دن کیلئے ڈیلی ویجز پر کام کرنے کیلئے لیٹر جاری کیا جاتا ہے۔

ان انجینئر جن کا تعلق بلوچستان سے ہے، نے مستقل کئے جانے کی عرضیاں لیکر ہر سرکاری دفتر کے چکر لگائے لیکن جب کہیں شنوائی نہ ہوئی تو بلوچستان ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران خان مُلاخیل پر مشتمل دو رُکنی بنچ نے اس پٹیشن کی سماعت شروع کی تو OGDCLکے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان مقامی انجینئرز کو ’’آئوٹ سورس‘‘ کیا گیا ہے یعنی یہ تو براہِ راست ہمارے ملازم ہی نہیں ہیں۔

کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے ملازمین کو مستقل کیا جا سکتا ہے مگر ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کو ریگولرائز نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے جج صاحبان نے 19اگست2019ء کو جاری کئے گئے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ ان تمام انجینئرز کو مستقل کیا جائے۔

جج صاحبان کا استدلال یہ ہے کہ محولا بالا انجینئرز مسلسل 10سال سے کام کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کام مستقل نوعیت کا ہے اور اس کیلئے مسلسل خدمات درکار ہیں، جب OGDCLکے ہاں مستقل اسامیاں بھی موجود ہیں تو ان انجینئرز کو محض اس بنا پر مستقل کئے جانے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں۔

بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود ان مقامی انجینئرز کو مستقل نہیں کیا گیا۔ یہ معاملہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی زیر بحث آیا مگر متعلقہ حکام کسی صورت ان مقامی انجینئرز کو مستقل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ بلوچستان کے یہ پڑھے لکھے نوجوان چھٹیاں لیکر اسلام آباد آتے ہیں اور سرکاری دفاتر کے چکر لگا کر ناکام لوٹ جاتے ہیں۔

نواب اکبر بگٹی کی جہدِ مسلسل سے یہ فارمولا طے پایا تھا کہ یہاں کام کر رہے اداروں میں ملازمتوں کے حوالے سے مقامی ضلع ڈیرہ بگٹی کے رہائشی افراد کو پہلی ترجیح میں رکھا جائے گا، اس کے بعد بلوچستان کے امیدواروں کو ترجیح دی جائے گی اور موزوں امیدوار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کے دیگر صوبوں کے امیدوار زیر غور آئیں گے لیکن آج بھی بلوچستان کے بیشتر نوجوان ملازمتوں کے حصول کیلئے خوار ہوتے پھرتے ہیں۔

سارا پاکستان یہ جان چکا ہے کہ سوئی کا علاقہ جہاں سے قدرتی گیس نکلتی ہے، کے مکینوں کو گیس دستیاب نہیں۔ یہ کس قدر سنگین ناانصافی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ فیصل آباد ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے مشہور ہے لیکن اگر یہاں فیصل آبادیوں کو بالخصوص اور پنجاب کے دیگر شہریوں کو بالعموم روزگار کی سہولت دستیاب نہ ہو مقامی افراد کے جذبات و احساسات کیا ہوں گے؟

پنجاب کو گندم کی پیداوار میں سبقت حاصل ہے لیکن اگر پورے ملک کو اناج فراہم کرنے والے پنجاب میں آٹے کی قلت ہو جبکہ باقی علاقوں میں فراوانی کی کیفیت ہو تو مقامی افراد کے تاثرات کیا ہوں گے؟

جب بھی بلوچستان کے احساسِ محرومی اور پسماندگی کی بات ہوتی ہے تو نمائشی اقدامات کرتے ہوئے چھوٹے صوبے کی دلجوئی کے نام پر کسی بے ضرر شخص کو اُٹھا کر بڑے عہدوں کے عجائب گھر میں لاکر یادگار کی طرح سجا دیا جاتا ہے۔

اگر بلوچوں کے دل جیتنے ہیں تو نمائشی اور علامتی نوعیت کے اقدامات کرنے کے بجائے ان کے مسائل ذمہ داری، سنجیدگی اور متانت کیساتھ حل کرنا ہوإ گے۔ ورنہ ’’آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج‘‘ جیسے جتنے مرضی لولی پاپ دیدیں، محرومیوں اور پسماندگی کا پرنالا وہیں کا وہیں رہے گا۔

تازہ ترین