• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد شریف بقا ۔۔۔لندن
علامہ اقبال مرحوم و مغفور ساری عمر اپنی نظم و نثر میں بنی نوع انسان کے گونا گوں مسائل حیات کو بیان کرکے اپنی انسان دوستی اور فکری عظمت کا ثبوت پیش کرتے رہے۔ دنیا کے تمام عظیم المرتبت مفکرین اور مصلحین کی طرح وہ غلط معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی مفاسد کا پردہ چاک کرکے اصلاح احوال کے درپے رہے۔ انہوں نے جس پرسوز اور فکر انگیز انداز میں بلاامتیاز رنگ و نسل اور ملک و ملت کی تمیز کے بغیر مظلوم، مجبور اور محکوم انسانوں کے المناک واقعات کو بیان کیا ہے وہ قابل تحسین بھی ہے اور لائق توجہ بھی۔ ان کی تمام منظومات اور نثری نگارشات اس حقیقت کی عکاس ہیں کہ بنی نوع انسان کی محبت ان کے ایمان کا جزو لانیفک اور ان کے کردار کی رفعت کی دلیل ہیں۔ وہ اپنے مسلمان قارئین کو اسلامی تعلیمات کے اس زریں اور حیات بخش پہلو کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بجا کہتے ہیں۔یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانیاخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانیوہ ایک جگہ انسانی محبت اور جذبہ غم کو فلسفہ اور علم پر ترجیح دیتے ہوئے اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں۔یک ذرہ درد دل از علم فلاطون یہدرد دل کا ایک ذرہ افلاطون کے علم سے بہتر ہےشاعر انسانیت اور ترجمان فطرت علامہ اقبالؒ کی آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹیشن سے یکم جنوری1938ء کو ایک ایسی یادگار تقریر نشر کی گئی جو ان کے پیغام انسانیت کی روح دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے سال نو کے اس پیغام میں جو باتیں بیان کی ہیں وہ آج کے عالمی حالات پر بھی منطق ہوتی ہیں۔ ان کی یہ اہم نثری تقریر ان کی وفات سے تقریباً چار ماہ قبل پیش کی گئی تھی۔ اس لحاظ سے یہ ان کی زندگی کی آخری اہم تقریر قرار دی جاسکتی ہے۔ اس تقریر یا1938ء کے سال نو کے پیغام میں درج ذیل امور کی مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ ان امور کی یہاں قدرے وضاحت کی جاتی ہے تاکہ اس کے سیاسی اور تاریخی پس منظر سے قارئین کرام کو آگاہی ہو اور علامہ موصوف کی عظمت، فکر کا ایک اور روشن پہلو بھی ہماری تابانی خیال کا سبب بن سکے۔بے مثال تسخیر کائنات:۔ اس حقیقت سے انکار کرنا محال ہے کہ دور حاضر میں انسان علوم و فنون میں بے حد اور حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ زمانے کی سائنسی ترقی نے گزشتہ زمانوں کی چکا چوند کو مات کردیا ہے، جو چیزیں آج سے ایک صدی قبل ناممکن الحصول تصور کی جاتی تھیں، وہ اب روزمرہ کی حقیقتوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ سائنس کی نئی نئی ایجادات نے زمان و مکان کی طنابیں کھینچ کر تمام دنیا کو آپس میں مربوط کردیا ہے۔ سمندروں اور زمین کے مخفی خزانوں کو کھنگالنے اور اسرار فطرت کو بے نقاب کرنے کے بعد موجودہ دور کا انسان چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ گزشتہ ایام میں انسان اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے چاند، سورج، آگ، پانی، شجر و حجر اور دیگر بے شعور اور بے جان اشیائے کائنات کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا تھا مگر آج وہ انہیں اپنی خدمت اور آرام کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے انسان مسجود ملائک ہی نہیں بلکہ مسجود کائنات بھی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی اس نثری تقریر میں انسانی فکر و عمل، جستجوئے حدام اور سعی مسلسل کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔The modern age prides itself on its progress in knowledge and its matchless scientific developments, No doubt, the pride is jusified. Today space and time are beng annihilated and man is achiveing amazing successes in unveiling the secrets of nature and harnessing its forces to his own service,مفکر اسلام علامہ اقبالؒ سائنس کے روز افزوں عجائبات اور حیات بخش پہلوئوں کے مداح ہیں، اس لئے وہ مغربی قوموں کی علمی ترقیات، نئے نئے انکشافات، مطالعہ کائنات، مشاہدہ فطرت، ان کی حرکی روش اور تجرباتی فکر کا عکس مسلمانوں خصوصاً مشرقی اقوام کی زندگی میں دیکھنے کے بہت زیادہ آرزومند تھے، جیسا کہ وہ درج ذیل شعر میں اشارہ کرتے ہیں۔خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میںہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیداانسان دنیا میں خدا کا نائب، اشرف المخلوقات، علم و حکمت کے اسرار سے آگاہ اور صاحب عقل و شعور ہستی ہے۔ وہ مطالعہ کائنات کے ذریعے اس کے پوشیدہ بھیدوں کو جاننے اور فطرت کی گوناگوں طاقتوں کے مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو قوم بھی حرکت و عمل اور سعی حدام کی حامل بن کر قدرت کے عناصر کی تسخیر کرے گی وہ یقیناً سائنسی ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل جائے گی اور ان پر برتری حاصل کرلے گی۔ جب مسلمانوں نے مشاہدہ کائنات اور مطالعہ فطرت کی حرکی اور ترقی آفرین عمل کو خیرباد کہہ دیا تو وہ علم و حکمت کے انمول موتیوں سے محروم ہوئے اور اقوام مغرب سے پیچھے رہ گئے۔انسانی آزادی اور احترام کی پامالی:۔ حکماء اور مصلحین کی رائے میں یہ دنیا تضادات کا مجموعہ ہے، اس لئے یہاں بہار و خزاں، شادی و غم، موت و حیات، علالت و صحت، تنزل و عروج اور خیر و شر کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سائنس پر بھی یہی قانون قدرت لاگو آتا ہے۔ اس کا اچھا پہلو انسانی زندگی اور ہماری موجودہ معاشرت کے لئے مفید ہے لیکن اس کا برا پہلو یہ ہے کہ اس کو انسانی استحصال اور انسانیت کشی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، علم بذات خود برا نہیں مگر اس کا غلط استعمال یقیناً قابل مذمت ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر بھیجا ہے تاکہ وہ اس کی عطا کردہ نعمتوں کو صحیح طور پر استعمال کرکے کائنات کی اشیاء اور انسانوں کے لئے باعث امن و راحت ثابت ہو۔ عقل بلاشبہ خدائے رحیم و کریم کا ایک لاجواب تحفہ ہے جس کی بنا پر ہم علم حاصل کرکے دیگر مخلوقات کو اپنی خدمت اور آرام کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم حصول علم کا بنیادی مقصد فساد عالم، تذلیل انسانیت، مادہ پرستی اور ہوس اقتدار و زر بنالیں تو پھر وہ علم ابلیسی بن جاتا ہے، بقول شاعر:۔علم را بے سوز دل خوانی شراستظلمت او ظلمت بحر و براستاگر تو علم کو سوز دل کے بغیر پڑھے تو وہ شر ہے۔ یاد رکھ اس کی تاریکی بحر و برکی تاریکی بن جاتی ہے۔اگر علم کا مقصد انسانی ہمدردی اور انسانی محبت نہ رہے تو پھر ایسا علم دراصل جہالت ہے اور یہ ذہنی تاریکی تخریب عالم کا موجب ہوجایا کرتی ہے۔ قرآن حکیم کی ایک انتہائی خیال افروز آیت ہے۔(خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا۔ یہ سب انسانی ہاتھوں کا پیدا کردہ ہے) خالق کائنات اور مالک ارض و سما نے دنیا و مافیا کو ہماری تسخیر اور ہماری خدمت کے لئے بنایا ہے نہ کہ ہم اسے اپنی حماقتوں اور بداعمالیوں سے تباہ و برباد کریں۔ یہ صرف انسان ہی ہیں جو اپنی فکری گمراہی اور تخریبی ذہنیت کی بنا پر اشیائے کائنات اور انسانیت کی پامالی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ عجیب چیز ہے کہ ایسے تخریب پسند اور انسانیت کش افراد اپنے برے اعمال کا الزام تقدیر اور خدا پر ڈالتے ہیں۔ وہ ظاہراً یہ اعلان تو کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں امن قائم کرتے ہیں مگر باطنی طور پر وہ فساد عالم کا باعث بنتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے جہاں سائنسی انکشافات اور علمی ترقیات کا ذکر کیا ہے وہاں وہ اپنے متوازن انداز فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی اقوام کی علمی جہالت اور احترام انسانیت کے فقدان پر بھی نوحہ کناں ہیں۔ وہ دور حاضر کے چند مروجہ اور اہم نظامہائے فکر کے غلط گوشوں کی یوں نقاب کشائی کرتے ہیں۔:۔in spite of all these developments, the tyranny of imperialism struts abroad, covering its face under the masks of Democray, Nationalism, Communism, Fascism and heaven knows what else besides. Under these masks, in every corner of the earth, the spirit of freedom and the dignity of man are being trampled undrfoot in a way to which not even the darkest period of human history presents a parallel.نام نہاد سیاستدان اور ظالم حکمران:۔ ہر ملک کے عوام اپنے سیاستدانوں، اہل فکر و دانش اور حکمرانوں سے بجاطور پر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے جان و مال، آبرو اور انسانی حقوق کی نگہداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خداداد انفرادی اور اجتماعی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھانے کا فریضہ ادا کریں۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی صحیح قیادت کرتے ہوئے سوسائٹی میں حریت فکر، باہمی محبت و یگانگت، رواداری اور اخوت و مساوات کے زریں اصولوں اور اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دیں۔ جس طرح یہ فریضہ ملکی اور قومی رہنمائوں پر عائد ہوتا ہے کہ اسی طرح بین الاقوامی معاملات کو سلجھانے کے لئے عالمی مدبرین اور سیاستدانوں سے بھی یہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ کو اس بات پر بہت افسوس ہے کہ عصر جدید کے برائے نام مدبرین، سیاستدان اور اہل اقتدار مختلف نظامہائے حکومت کو دلفریب ناموں سے تو پکارتے ہیں مگر انہوں نے خدمت خلق اور فلاح انسانیت کے ٹھوس اور ہمہ گیر اثرات پر مبنی عملی اقدامات نہیں کئے۔ کیا پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں نے یہ ثابت نہیں کردیا تھا کہ جمہوریت، نیشنلزم، کمیونزم، فاشزم اور سرمایہ داری کے حامیوں نے بری طرح انسانیت کی مٹی پلید کی ہے؟ کیا یہ دلفریب اور دلکش نعرے اور نظام محض کمزور، بے بس اور محکوم قوموں کے افراد کو الو بنانے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے؟ جب کسی قوم کے افراد قوم پرستی اور نسلی برتری کے جنون میں مبتلا ہوجائیں تو وہ دوسری قوموں کو اپنا زیر دست بنانے کی خاطر مختلف حربے بروئے کار لاتے ہیں۔ یہاں ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ والا قانون چل رہا ہے۔ کیا آج بھی فلسطین، کشمیر، بوسنیا اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بے بس اور کمزور انسانوں کا خون نہیں بہایا جاتا؟ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز (مجلس اقوام) دنیا کی طاقتور قوموں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئی تھی، اسی طرح آج یو این او (اقوام متحدہ کی تنظیم) بھی چند بااثر اور طاقتور قوموں کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے لیگ آف نیشنز کے اس گھنائونے کردار کو دیکھتے ہوئے اسے ’’کفن چوروں کی انجمن‘‘ کہا تھا۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ موجودہ تمام غربی نظامہائے حکومت اصل میں سرمایہ داری اور ملوکیت کی جدید شکلیں ہیں۔ زمانہ قدیم میں بادشاہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا، اسی طرح آج ایک طاقتور فرد کی بجائے مختلف گروہ انسانی دوسروں کے استحصال کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔ ہر طاقتور گروہ جبر و استحصال کو اختیار کرکے تذلیل انسانیت کا باعث بنا ہوا ہے۔ وہ اپنی اس نشری تقریر میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں۔The so- called statesmen to whom government and leadership of men was entrusted have proved demons of bloodshed, turanny and appressoion The rulers wose duty it was to protect and cherish those ideals which go to form a higher humanity, to prevent manʼs oppression of man and to elevate the moral and intellectual level of mankind, have in their hunger for dominion and imperial possession, shed the blood of milions and reduced millions to servitude simply in order to pander to the greeed and avarice of their own particular groups.غریب، محکوم، مجبور اور مظلوم انسانوں کے حقوق کے عظیم علمبردار ہونے کی حیثیت سے انہیں اس بات پر شدید دکھ ہے کہ علم میں اضافہ ہونے کے باوجود انسانیت کی سطح بلند نہیں ہوئی بلکہ ظالم، خودغرض، ہوس پرست اور خوف خدا سے عاری حکمران کمزور انسانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ وہ اس ظلم و تشدد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے اپنی انسانی دوستی کا ان ولولہ انگیز اشعار میں اظہار کرتے ہیں:۔ابھی تک آدمی حسد زبون شہریاری ہےقیامت ہے کہ انسان، نوع انسان کا شکاری ہےیورپ از شمشیر خود بسمل فتادزیر گردوں رحم لادینی نہادگر گے اندر پوستین برہہر زمان اندر کمین برہمشکلات حضرت انسان ازوآدمیت را غم پنہاں ازویورپ اپنی تلوار سے خود ہی بسمل ہوکر گر پڑا ہے، کیونکہ اس نے جہان میں لادینی رسم کی بنیاد ڈالی ہے۔ یورپ دراصل بکری کی کھال پہن کر بھیڑیا بنا ہوا ہے۔ اس لئے وہ ہر وقت معصوم اور کمزور بکریوں کی گھات میں بیٹھا ہے۔ بنی نوع انسان کی مشکلات کا ذمہ دار وہی ہے۔ عام انسانوں کے غموں کا اصل سبب بھی وہی ہے۔انسان کُشی کیوں؟:۔ علامہ اقبال مرحوم و مغفور کے سال نو کے مندرجہ بالا پیغام میں اس المناک حقیقت کو بڑے پرسوز انداز میں بیان کیا گیا تھا کہ طاقتور اقوام اپریلزم کی راہ پر چل کر کمزور قوموں کی مذہبی، اخلاقی، ثقافتی اور علمی اقدار کو پامال کررہی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ان بدقسمت قوموں کے اندر تفریق پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کررہی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اس زمانے کے حبشہ، فلسطین، ہسپانیہ اور چین کے ناگفتہ بہ حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا بھر کے دیگر مظلوم اور بے بس انسانوں کے کشت و خون، سائنس کے تباہ کن پہلوئوں اور اقتصادی استحصال کو قیامت خیز ہنگامہ سے کم قرار نہیں دیا تھا۔ 1935ء میں جب اٹلی کے آمر مطلق مسولین نے حبشہ یعنی ابی سینیا پر حملہ کردیا تھا تو شاعر انسانیت علامہ اقبالؒ نے ایک نظم لکھی تھی، جس کا عنوان ہے۔ ’’ابی سینیا‘‘ دیکھئے اس نظم میں انہوں نے مغربی اقوام کی ہوس زر، جوع الارض، اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور غارت گری کو کتنے خوب صورت اشعار میں بیان کیا ہے۔ یہاں دو بند ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں۔تہذیب کا کمال، شرافت کا ہے زوالغارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاشہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاشاے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہرومانے کردیا سربازار پاش پاشپیر کلیسیا! یہ حقیقت ہے دلخراشاس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جس طرز حکومت کی بنیاد ظلم و تشدد، انسان کشی، حقوق انسانیت کی پامالی اور استحصالی ہتھکنڈوں پر رکھی جائے وہ تادیر قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق ستم رسیدہ انسان مزاحمت اور انتقام پر اتر آتے ہیں۔ ایسی حکومت اپنے بلند و بانگ دعویٰ جمہوریت کے باوجود اپریلزم اور سرمایہ داری ہی کی عملاً علمبردار ہوتی ہے۔تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتاجہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہےعلامہ اقبالؒ چونکہ تکریم آدم کے زبردست قائل ہیں، اس لئے وہ ہر اس اقدام کی پرزور مذمت کرتے ہیں جس کی زد انسانیت اور اخلاق کے اعلیٰ اصولوں پر پڑتی ہو۔ اپنی اس نثری تقریر میں انہوں نے انسانی حرمت کی اہمیت و افادیت کو واضح کرتے ہوئے یہ تنبیہہ کی تھی۔Remember, man can be maintained on this earth only by honouring man- kind. and this world will remain a battle ground of ferocious beasts of prey unless and until the educational forces of the whole world are directed to inculcating in man respect for mankind.علامہ اقبالؒ جس مذہب کے پیروکار ہیں، اس کی تعلیمات کا ایک حصہ تکریم انسان بھی ہے۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے، (اور البتہ ہم نے انسان کو واجب الاحترام بنایا ہے۔) جس مخلوق کو خدا نے عزت و احترام کے لائق بنایا ہو اور جسے اس نے زمین پر اپنا نائب اور تمام دیگر مخلوقات سے افضل قرار دیا ہو، اس کی توہین و تذلیل کرنے کا کسی انسان کو بھی حق نہیں پہنچتا۔ کیا کسی کے نائب کی توہین اس کے اصل آقا کی توہین کے مترادف نہیں ہوتی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر انسان بلاتمیز، مذہب و ملت عزت و احترام کا مستحق ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان یا قوم اپنے آپ کو مہذب،متمدن اور تعلیم یافتہ کہلوانے کے باوجود انسانوں کی بے حرمتی کرے تو وہ ننگ انسانیت اور حیوانوں سے بدتر ہے کیونکہ جانور تو انسانوں جیسی عقل اور شعور نہیں رکھتے۔ علامہ اقبالؒ انسانیت کے احترام اور انسان کے بلند مرتبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں۔:برتر از گردوں مقام آدم استاصل تہذیب، احترام آدم است(انسان کا مرتبہ تو آسمان سے بھی زیادہ بلند ہے۔ تہذیب کی بنیاد انسان کے احترام پر ہوتی ہے۔) تہذیب و تعلیم کے بلند و بانگ دعاوی کرنے کے باوجود دیگر انسانوں کی بے عزتی اور استحصال کرنا کہاں کی انسانیت اور تہذیب ہیں؟ علامہ اقبالؒ اس روش زندگی اور طرز فکر کے خلاف ساری زندگی قلمی اور لسانی جہاد کرتے رہے۔ یہ چیز بھی بلاشبہ ان کی عظمت کردار اور حب انسانیت کی واضح دلیل ہے۔انسانی اخوت کی وحدت:۔ رنگ، نسل، زبان، قبیلہ اور وطن کے اشتراک پر مبنی تصور قومیت دراصل محدود وحدت، تنگ نظری، تعصب اور وسیع تر انسانیت کی نفی کی دلیل ہے۔ جس قدر کوئی گروہ انسانی تنگ وحدت کا قائل ہوگا، اسی قدر وہ انسانی اخوت و محبت کی آفاقی قدروں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا۔ علاوہ ازیں وہ خودغرضی کا شکار ہوکر صرف اپنے مختصر گروہ، ملک اور قوم کے مفادات کو پیش نگاہ رکھے گا اور دوسرے انسانوں کے مفادات اور حقوق کو پس پشت ڈال کر ان کو اپنا محکوم بنانے کی تدبرین کرتا رہے گا۔ گزشتہ دو عظیم جنگوں میں زیادہ تر عیسائی مذہب کو ماننے والی قوموں نے نیشنلزم اور اپریلزم کی راہ پر چلتے ہوئے لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا اور لاتعداد انسانوں کو مفلوج کردیا تھا۔ جانی نقصان کے علاوہ مالی نقصان بھی کافی ہوا تھا۔ آج بھی قوم پرستی کے جنون میں مبتلا قومیں کمزور قوموں کو اپنی تاخت و تاراج کا نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ یورپی قوموں کی تقلید کرتے ہوئے بعض ایشیائی اور افریقی ممالک بھی کمزور ملکوں اور بے بس اقلیتوں کو نشانہ ستم بنا رہے ہیں۔ کیا مغربی اقوام کی شہ پر ہندو اور یہود بھی اپنے کمزور ہمسایہ ملکوں اور اپنی مجبور اقلیتوں کے دھونس اور دھاندلی سے مرعوب نہیں کررہے؟ کیا ایسے مجبور و مقہور انسان عزت و احترام کے مستحق اور ایک عالمگیر برادری اور تعلق نہیں رکھتے؟ رسول اکرمﷺ نے تمام انسانوں کو خدا کا کنبہ قرار دیتے ہوئے یہ انقلاب آفریں اور انسانیت ساز پیغام دیا تھا۔ (تمام مخلوقات خدا کا کنبہ ہے، اس لئے خدا کی مخلوقات پر شفقت لازمی ہے۔) علامہ اقبالؒ نے اپنے نشری پیغام میں وسیع تر انسانی وحدت اور اخوت پر زور دیتے ہوئے پرجوش الفاظ میں کہا تھا۔So long as this so- called democracy, this accursed nationalism and this degraded imperialism are not shattered, so long as men do not demonstrate by their actions that they believe that the whole world is the family of God, so long as distinctions of race, colour and geographical nationalities are not wiped out completely, they will never be able to lead a happy and contented life and the beautiful ideals of liberty, equality and fraternity will never materialise.اپنے اس انقلابی پیغام کے آخر میں انہوں نے خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں بڑی نیاز مندی کے ساتھ یہ دعا کی تھی کہ وہ صاحبان اقدار اور حکومتوں کے سربراہوں کو انسانیت دے تاکہ وہ انسانوں کی عزت و احترام کرسکیں۔ بے اختیار انسان عموماً دعا پر ہی تکیہ کیا کرتے ہیں۔ اگر محض ہماری دعائیں ہی کافی ہوتیں تو پھر دنیا میں ظلم و ستم کا نشان نہ رہتا۔ دعا کے ساتھ دوا بھی لازم ہوا کرتی ہے۔ علامہ اقبالؒ محض دعا کے قائل ہی نہیں تھے بلکہ دوا کرنے پر بھی وہ زور دیتے رہے۔ اس کا بین ثبوت ان کی انقلابی اور عمل پرور شاعری ہے۔ وہ زبان اور قلم سے تمام عمر ظلم اور استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے اور مردہ دلوں میں آتشیں ولولے پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ 
تازہ ترین