• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صوبائی حکومت، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور اور ”دلکش لاہور“ پراجیکٹ کے باہمی مشوروں سے صوبائی دارالحکومت کے 26مقامات کے جن میں نہر کنارے تعمیر کئے گئے گیارہ انڈرپاس بھی شامل ہیں نئے نام دینے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ جس کے مطابق کینال روڈ پر ”ڈاکٹرز ہسپتال“ کے انڈر پاس کا نیا نام ”چودھری رحمت علی انڈرپاس“ ہوگا۔ جناح ہسپتال کے انڈرپاس کوبلوچستان کے تاریخی کردار چاکر اعظم رند سے منسوب کیا گیا ہے۔ نیو کیمپس کے انڈرپاس کو عظیم پشتو شاعر خوشحال خان خٹک انڈرپاس کا نام دیا گیا ہے جبکہ گارڈن ٹاﺅن اور جیل روڈ کے انڈرپاسز سندھی اور پنجابی زبانوں کے عظیم شاعروں شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سید وارث شاہ سے منسوب کئے گئے ہیں۔ فیروزپور روڈ کے انڈرپاس کو شہید ملت لیاقت علی خان انڈرپاس کانام دیا گیا ہے۔
ایف سی کالج کے قریبی انڈرپاس کو پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس اے آرکارنیلس کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ سٹی گورنمنٹ نے ماڈل ٹاﺅن روڈ کے انڈرپاس کو فیض احمد فیض سے منسوب کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر پنجاب حکومت نے اسے اشفاق احمد خان سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا ہے چنانچہ فیض احمد فیض کا نام مال روڈ کے نیچے سے گزرنے والے انڈرپاس کو دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح سٹی گورنمنٹ جیل روڈ انڈرپاس کو اکرام اللہ نیازی سے منسوب کرنا چاہتی تھی مگر صوبائی حکومت نے اسے ”سید وارث شاہؒ“ انڈرپاس کا نام دے دیا۔
دھرم پورہ کے انڈرپاس کو حسین شہید سہروردی انڈرپاس کا نام دیا گیا ہے۔ مغل پورہ انڈرپاس کو ”حبیبہ خاتون“ سے منسوب کیا گیا ہے اور ہربنس پورہ انڈرپاس سے گزرنے والوں کو پاکستان کی پہلی کابینہ میں ہندوﺅں کی اچھوت ذات سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کی یاد دلائی جائے گی۔اس کے علاوہ دریائے راوی پر سگیاں پل کا نیام نام مسٹر جسٹس اے آر کیانی بریج رکھا گیا ہے۔ اکبر چوک (ٹاﺅن شپ) مغل شہنشاہ اکبر سے ہی منسوب رہے گا۔ ”سیون اپ چوک“ کو فلمی اداکاروحید مراد سے منسوب کیا گیا ہے۔ ہمدرد چوک سندھ کے سابق گورنر شہید حکیم محمد سعید چوک کہلائے گا۔ فورٹ روڈ کو بادشاہی مسجد کے سابق امام مولانا عبدالقادر آزاد سے منسوب کیا گیا ہے۔ استنبول چوک (بالمقابل پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس) پطرس بخاری چوک کہلائے گا۔ قذافی سٹیڈیم روڈ (مین گیٹ سے لبرٹی تک) پاکستان کی پہلی قومی کرکٹ ٹیم کے نامور کپتان عبدالحفیظ کاردارکے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ کوآپریٹو چوک کواپنے زمانہ کے عظیم ترین ذاکر علامہ رشید ترابی سے منسوب کرنے کی سعادت حاصل کی گئی ہے۔ فوارہ چوک شادمان لاہور کو بھگت سنگھ شہید چوک کا نام دینے کی سٹی گورنمنٹ لاہور کی کومٹ منٹ اپنی جگہ پرموجود ہے مگرکچھ لوگوں کواس پر اعتراض ہے وہ شاید اسے نواب قصوری چوک کا نام دینا چاہتے ہوں گے۔ یہ تنازع ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے چنانچہ اسے موخر کردیا گیاہے۔ حیرت انگیز خوشی ہوئی ہے کہ لاہور شہر کے مقامات کے نام رکھنے میں غیرملکی حکمرانوں کو خوش کرنے کی کوئی ناکام کوشش نہیں کی گئی اور اپنے ملکی اور قومی ناموں پر ہی اکتفا کیاگیا ہے۔ لاہور کی شاہراہوں پر اردو، سندھی، پنجابی زبانوں کے قابل فخر مشاہیر کے ناموں کی سجاوٹ بہت اچھی لگے گی اور علم وادب کے شعبوں اورعدلیہ سے تعلق رکھنے والے عظیم لوگوں کو یاد رکھنے کی روایت بھی جاری رکھی گئی ہے اور یہ بہت قابل قدر اور لائق تحسین بات ہے۔لاہور شہر کی ایک شاہراہ کودنیائے صحافت کی ایک معروف شخصیت سے منسوب کیاگیا تو جہاں ریڈیو پاکستان کی طویل عرصہ تک سربراہی کرنے والے سید ذوالفقار بخاری یاد آئے جن کو بتایا گیا کہ حکومت ایک سڑک کو ان کے نام سے منسوب کرناچاہتی ہے تو بخاری مرحو م نے درخواست کی کہ ان کی بجائے ان کے بڑے بھائی کی عزت افزائی کی جائے کیونکہ پطرس بخاری مرحوم اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ وہاں ہمارے ایک دوست شاعر قتیل شفائی بھی بہت یاد آئے جنہوں نے شہرت پسندی کے جذبات کو قابو میں نہ رکھتے ہوئے اپنے گھر جانے والی سڑک پر ”قتیل شفائی روڈ“ کا بورڈ لگوا دیا۔ اگلے روزمیں نے ”گریبان“ میں لکھا کہ لاہور کی ایک سڑک کا نام قتیل شفائی روڈ ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ اس سڑک پر جناب احمد ندیم قاسمی بھی رہائش پذیر ہیں جن کو قتیل صاحب اپنا استاد قرار دیتے ہیں مگر وہ ”احمد ندیم قاسمی روڈ“ کے بغیر ہی شہرت حاصل کرچکے ہیں اور مزید شہرت کے طلب گار نہیں ہوںگے۔
تازہ ترین