• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

طویل لیکن بہت دل چسپ

’’عالمی اُفق‘‘ میں اپنے منور مرزا موجود تھے اور برطانیہ کےانتخابات کےحوالے سے بہترین تجزیہ پیش کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ایک بہت ہی منفرد سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پہلے کبھی کچھ نہیں پڑھا تھا۔ ہاشم ندیم کا ناول زبردست جارہاہے۔ ’’متفرق‘‘ میں فیض احمد فیض پر اشفاق نیاز نے اچھا لکھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانی ’’پردے کی بوبو‘‘ بھی پسند آئی۔ اگلے شمارے کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اقدس نے اسلام آباد دھرنے سے متعلق اچھی معلومات فراہم کیں۔ امجد اسلام امجد کی گفتگو خاصی طویل تھی، لیکن اتنی دل چسپ تھی کہ پوری پڑھ کے ہی دَم لیا۔ ڈاکٹر قمر عباس آج کل کہاں غائب ہیں۔ ناول کا تو کیا ہی کہنا، بہت ہی مزہ آرہا ہے پڑھ کر۔ تیسرے شمارے کے پہلےہی صفحےپرفاروق اقدس کاایک اچھا مضمون پڑھنے کو ملا۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر قمر عباس کی واپسی ہوئی، تو دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ سرِورق اور اسٹائل دونوں ہی لاجواب تھے۔ ’’متفرق‘‘ میں نور خان محمد حسنی نے تلور سے متعلق بہترین معلومات فراہم کیں اور ’’انٹرویو‘‘ میں دو غیرمُلکی سیّاحوں کے انٹرویو بھی شفق رفیع نے بڑے اچھے انداز سے لیے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:ہر ہفتے خط لکھنے والے آپ نامہ نگاروں سے درخواست ہے کہ کم از کم ایک ہفتہ چھوڑ کر خط لکھیں تاکہ دوسرے لوگوں کی بھی باری آئے۔ نیز، آپ کی بھی محنت ضائع نہ ہو کہ اب ہم آپ جیسے تمام خطوط نگاروں کی دو، دو، تین، تین چِٹھیاں (آدھی آدھی ایڈٹ کر کے) ایک ساتھ لگانے پر مجبور ہوگئے ہیںکہ ہمارے لیے تو سبھی قارئین برابر ہیں۔

پیٹ میں روٹی ہو تو…

اس بار کا سنڈے میگزین تو بہت ہی بُرا تھا۔ اتنا بُرا کہ مَیں بیان بھی نہیں کرسکتا۔ خاص طور پر ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر انتہائی خراب لکھی گئی۔ وہی فضول کی باتیں اور فضول شعر و شاعری۔ جب پیٹ میں روٹی ہو، تب ہی ایسی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ اور یہ ناول عبداللہ، کیا ساری عُمر چلتا رہے گا۔ اب ختم بھی کردیں اِسے۔ اور ہاں، حکومت پر بلاوجہ ہی تنقید مت کرتی رہا کریں۔ ہمارے مُلک میں بہت کچھ مثبت بھی ہو رہا ہے، کبھی اُن پہلوؤں کو بھی اُجاگر کیا کریں۔ آپ اپنے حصّے کی شمع تو جلائیں۔ ہر وقت رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اور ہم جو ایک طویل عرصے سے بے روزگار ہیں، حکومتِ وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں فوری طور پر سرکاری نوکری فراہم کی جائے، کیوں کہ حکومت نے خود ہی تو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔(نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:ہاہاہا… نو کمنٹس۔

خواتین ڈائجسٹ ٹائپ رائٹر

ہاشم ندیم کے ناول ’’عبداللہIII‘‘ کے متعلق اپنے تنقیدی خط کے جواب میں آپ کے خیالات پڑھ کر مَیں تو حیرت زدہ ہی رہ گیا۔ مَیں شاعر ہوں نہ ادیب، ناول نگار نہ افسانہ نگار، مَیں تو ایک عام قاری ہوں، تو بھلا ایک عام قاری کی حیثیت سے میری ہاشم ندیم کے ساتھ ’’پروفیشنل جیلیسی‘‘ کیا معنی رکھتی ہے۔ ہاشم ندیم سےمیرا اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ ایک عام سے خواتین ڈائجسٹ ٹائپ رائٹر ہیں۔ دوسرے مصنّفین کے مقابلے میں اُن کے ناولز میں تخلیقی مرکزی خیال اور شعوری تعمیر کی خاصی کمی محسوس ہوتی ہے، پھر ان ناولز میں بلوچستان کے حالات، تہذیب و ثقافت، فکر و سوچ کا بھی شدید فقدان نظر آتا ہے۔ اگر وہ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کے سربستہ راز کھولنا ہی چاہتے ہیں، تو انہیں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی تحریروں کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ چوں کہ وہ آپ کے ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے لکھتے ہیں اور آپ، اُن کے ناولز پورے پروٹوکول سے شایع بھی کرتی ہیں، تو ہم محض اِس وجہ سے انہیں غلام عباس یا منشی پریم چند کا ہم پلّہ ناول نگار تو ماننے سے رہے۔ ہمیں تو لگتا ہے ان ناولز کے ذریعے وہ لوگوں کے شعور کو بھی دقیانوسی خیالات کی چادر اوڑھا کر کسی درگاہ میں سُلارہے ہیں اور پھر مارکیٹنگ کے اس دَور میں آپ جیسوں کی تعاون سے خُوب دولت و شہرت بھی کما رہے ہیں، تو چلیں، ٹھیک ہے وہ ایک پاپولر رائٹر ہی سہی، مگر ہمارے نزدیک وہ ایک غیر سنجیدہ ادیب اور زبردست داستان گو ہی رہیں گے۔ (حماد شورانی، کوئٹہ)

ج:وہ کیا ہے ناں ؎ بشر کی ذات میں شَر کے سوا کچھ اور نہیں.....یہ بات نقصِ نظر کے سوا کچھ اور نہیں.....گزر کے حد سے ہر اِک شے برعکس ہوتی ہے.....کمالِ عیب ہنر کے سوا کچھ اور نہیں۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ ایک مقبول عام فیملی میگزین ہے۔ کوئی خالصتاً علمی و ادبی جریدہ نہیں۔ آپ اس میں جس قسم کے ناولز کی اشاعت کی خواہش رکھتے ہیں، وہ تو عام قاری کے سر کے کئی فٹ اوپر سے گزر جائیں۔ اور پھر ہم بارہا آپ کے گوش گزار کر چُکے کہ یہ مارکیٹنگ ہی کا دَور ہے، جو بِکتا ہے، وہی سونا ہے۔ آپ مقبول رائٹرز کو ڈائجسٹوں کے لکھاری ہونے کا طعنہ دیتے ہیں، جب کہ آج انٹرٹینمنٹ کی پوری انڈسٹری ان ہی ’’ڈائجسٹ رائٹرز‘‘ کے کاندھوں پر کھڑی ہے۔ عمیرہ احمد، نمرہ احمد، فرحت اشتیاق اور خلیل الرحمٰن قمر، ان سب کا نام ہی تو بِک رہا ہے۔ لوگ ہاشم ندیم کو پڑھنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں اُن کے ناول فیسی نیٹ کرتے ہیں، تو ہم اُنہیں چھاپنے پرمجبور ہیں اور ہماری علمی و ادبی تحریروں پر، اِن ناولز کے مقابلے میں چوتھائی فیڈ بیک بھی نہیں آتا۔ تو بھائی، غلط فہمی دُور کرلیں، مارکیٹنگ کے اس دَور میں ہم انہیں پاپولر نہیں کر رہے اور نہ ہی وہ ہمارے ذریعے شہرت و دولت کما رہے ہیں۔ یہ Give & Take کا دَور ہے۔ اگر وہ ہمارے ذریعے کچھ فوائد حاصل کرتے ہیں، تو ہمیں بھی اس دَور ابتلاء میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے کچھ سہاروں کی ضرورت رہتی ہے۔ سو، بلاوجہ کی تنقید سے گریز کریں کہ بہرحال، آپ وہ سب نہیں جانتے، جو ہم جانتے ہیں۔

وہی گھسے پِٹے سوال و جواب

ماہِ دسمبر اپنے ساتھ سنّاٹا، خاموشی، ویرانی، افسردگی اور خاص طور پر شدید سردی لے کر آیا۔ پھر اس حسین رُت کے ساتھ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی ہم آہنگی تو کیا ہی غضب ہے۔ نیز، فاروق اقدس نے بھی یاد دلا دیا کہ ’’اُسے کہنا دسمبر آگیا ہے…‘‘۔ ’’غزوات و سرایا‘‘ کا منفرد سلسلہ جاری و ساری ہے اور ماشاء اللہ ہر پڑھنے والے کے دل میں اُتر کر ذہن میں نقش ہو رہا ہے۔ میگزین کے کھوجی لکھاری، ڈاکٹر قمر عباس ڈپٹی نذیر احمد کو ڈھونڈلائے، بہت ہی اچھی اورسیر حاصل معلومات سے دل خوش ہوگیا۔ عبدالمجید ساجد بیان کر رہے تھے کہ لاہور دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر کیسے بنا۔ پھر دو عالمی ایّام، اسپیشل افراد اور انسداد ایڈز کی مناسبت سےمنائےگئے۔ خصوصاً ڈاکٹر روحی معروف نے معذورین سے متعلق بہترین مضمون تحریر کیا۔ نور خان حسنی نے تِلور کے تحفّظ کے حوالے سے اچھی تجاویز پیش کیں۔ جب کہ شفق رفیع نے بھی دو غیر مُلکی سیّاحوں سے ملاقات بہت دل چسپ پیرائے میں بیان کی۔ اگلے شمارے کا پہلا صفحہ پلٹتے ہی ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی پُراثر تحریر نظر آئی۔ ’’جنگِ بدر‘‘ کی تاریخ پڑھ کے آنکھیں بھر آئیں۔ منورراجپوت نے بھی ایک بہت سنجیدہ اور غور طلب موضوع ’’مقدّس اوراق کے تحفّظ‘‘ کو بڑی خُوب صُورتی اور تفصیل سے صفحہ قرطاس پر بکھیرا۔ اور تعلیم کا تو واقعی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، وقاص جعفری نے شان دار مضمون ہماری نذر کیا۔ کہی اَن کہی میں سدرہ اقبال کی باتیں بس گزارے لائق تھیں۔ ہر انٹرویو میں وہی گِھسے پِٹے سوال و جواب پڑھ کر دل اچاٹ ساہوگیا ہے۔ دراصل انٹرویو لینا بھی ایک فن ہے اور اس پر پورا اُترنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ناقابلِ فراموش میں کچھ تبدیلی تو محسوس ہو رہی ہے، لیکن رعنا فاروقی والی بات نہیں ہے۔ (چاچا چھکّن، گلشن اقبال، کراچی)

ج: ہمیں آپ کی بات سے قطعاً اتفاق نہیں۔ سدرہ کے انٹرویو میں نہ تو گِھسے پِٹے سوالات تھے اور نہ ہی جوابات۔ اور انٹرویو لینا بھی کوئی ایسا بڑا فن نہیں۔ ہمارے خیال میں تو صحافت کی پُرخار وادی کی یہ سب سے آسان، ہم وار سی رَوِش ہے، جس پر نوآموز سے لے کر منجھے ہوئے تک نہ صرف چلنا پسند کرتے ہیں بلکہ چلتے چلے جاتے ہیں۔ اور سوالات تو پھر بھی پُرانے ہوسکتے ہیں، مگر جب شخصیت نئی ہو، تو جوابات کیسے پرانے ہوگئے۔ بات یہ ہے کہ تنقید کرلینا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ آپ یوں کریں، ہمیں ذرا کچھ نئے، انوکھے، اچھوتے سے سوالات لکھ بھیجیں تاکہ ہم بھی تو آپ کی دانش وَری کے کچھ قائل ہوں۔

مقراضِ ستم گر تھامے

’’ایک دن ہم نے پروگرام بنایا کہ ملکۂ نامہ نگاراں (نرجس ملک) کے دربارِ عالی مقام میں پیش ہوں۔ پس، اس تصوّر کےساتھ ہی ایک ہیلی کاپٹر مشتاق کالونی سے آئی آئی چندریگر روڈ کے لیے چارٹر کروایا اور… ‘‘دربارِ عالی مقام میں حاضر ہوئے، تو ملکۂ عالیہ مقراضِ ستم گرتھامےلوگوں کے خطوط ایڈٹ کر رہی تھیں۔ یہ ماجرا دیکھا، توملاقات کیے بغیر ہی وہاں سے کھسک آئے۔ آپ پر اور اُن سب پر بھی اللہ تعالیٰ کا خوب رحم و کرم ہو کہ جن کے بھرپور تعاون سے ہم ہر اتوار کی صبح ایک خُوب صُورت جریدے ’’سنڈے میگزین‘‘ سے ملاقات کرتے ہیں۔ (آپ کا 80سالہ انکل، افضال احمد خان، مشتاق کالونی، کراچی)

ج: ؎ ’’اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو‘‘ تو سُنا تھا، اس عُمر میں اس قدر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کم ہی دیکھا ہے۔ ہیلی کاپٹر چارٹر کروانے سے دربار ِعالیہ تک پہنچنے کی جو اتنی لمبی چوڑی، بے سروپا سی کہانی آپ نے گَھڑی(جسے واقعتاً مقراضِ ستم گر سے چیر پھاڑ کرنا پڑا) بخدا پڑھ کے خون ہی تو کھول اٹھا۔ ایسے نادر و نایاب، نابغہ خیالات آپ لوگوں کے ذہنوں میں آبھی کیسے جاتے ہیں۔ اِس سے کہیں بہتر نہ تھا کہ آپ جریدے کے مندرجات ہی پر دوچار جملے عنایت فرما دیتے۔

ووٹ کا تقدّس

آپ کا بے حد شُکریہ کہ آپ نے میرا خط شایع کیا۔ ویسے میں نے اس 73سال کی عُمر تک اپنے ووٹ کا تقدّس کبھی پامال نہیں کیا۔ کہنا صرف یہ تھا کہ جب حکمران کرپشن میں سر سے پائوں تک غرق ہوں، تو اُن کی اولاد پر تو لازم ہے کہ وہ اس بہتی گنگا سے ضرور ہی اشنان کرے۔ (نیازی، کوئٹہ)

ج: ایک تو آپ کی شاہ کار ہینڈ رائٹنگ اور پھر غیرمتعلقہ باتیں… پہلے خط کی اشاعت سے زیادہ، اس خط کی اشاعت پر آپ کو شُکر گزار ہونا چاہیے۔ اور پلیز، ایک بار اپنا نام واضح طور پر اور اُردو زبان میں لکھ کر بھیج دیں کہ کم ازکم نام تو درست شایع ہوجائے۔

حالاتِ حاضرہ پر کڑی نظر

آج صبح سے موسم خوش گوار ہے۔ ہلکی بارش ہو رہی ہے، خُنکی بڑھ گئی ہے۔ مطلب میرا ’’پسندیدہ موسم‘‘ ہے، کیا بات ہے۔ اور ایسے موسم میں سنڈے میگزین کاساتھ ہو، تو مزہ دوبالا اور پھر ’’عبداللہ‘‘ پڑھ کر سہہ بالا ہوجاتا ہے۔ ویسے پہلے والے دونوں ناول اِس سے بہتر تھے۔ اس میں لگتا ہے، کہانی کو ’’ہُرو بھرو‘‘ کھینچا جارہا ہے۔ خیرچلیں، دیکھتے ہیں آگےکیاہوتا ہے۔ منور مرزا ’’ہانگ کانگ میں جمہوریت پسندوں کی فتح‘‘ ایک عُمدہ کاوش کی صُورت لائے۔ بلاشبہ، حالاتِ حاضرہ پر مرزا صاحب کی کڑی نظر ہے، اگر سنڈے میگزین میں کوئی سلسلے وار سفرنامہ یا آٹو بائیو گرافی شروع ہوجائے، تو مزہ آجائے۔ وقاص جعفری کی کاوش ’’تعلیم کا بگڑا آوا‘‘ خاصّے کی چیز تھی۔ (سمیع عادلوف، جھڈو، میرپور خاص)

ج: جی بے شک، منور مرزا کی صرف کڑی نظر ہی نہیں، اُن کا وسیع تجربہ اور اُس کے سبب عُمدہ تجزیات بھی ہمارے جریدے کی آنفرادیت و خاصیّت ہیں۔

غریب کی بات

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے… بڑی مشکل سے ہوتا ہےچمن میں دیدہ وَر پیدا۔ مَیں آپ کا میگزین بڑے شوق سے پڑھتا ہوں، مگر آپ کو یہ خط بڑے دُکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اِس دنیا میں کوئی بھی غریب کی بات سُننا گوارا نہیں کرتا۔ میرے ساتھ ہر ایک نے زیادتی کی، میاں نواز شریف سے لے کر اب تک کوئی میری بات سُننا پسند نہیں کر رہا۔ (وارث علی بٹ، بولے دی جھگی، فیصل آباد)

ج: آپ کے طول طویل خط سے ہم تو یہی نتیجہ اخذ کر پائےکہ آپ کو فوری طور پر کسی ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہے۔ آپ کی رام کہانیوں کے لیے (جن میں آپ بلاوجہ ہی کچھ محترم خواتین کےنام بھی استعمال کر رہے ہیں) یہ فورم قطعی مناسب نہیں۔

عمل بھی کرلیں

مقدّس اوراق سے متعلق رپورٹ بہترین تھی، جس نے مجھے خط لکھنے پہ مجبور کردیا۔ دُعا ہے اس اہم ترین موضوع پر قلم اٹھانے کے سبب منور راجپوت کو دنیا و آخرت میں بہترین صلہ، اجر و ثواب ملے۔ شُکر ہے کسی نے تو مانا کہ اخباروں، رسالوں کو مختلف کاموں میں استعمال کرنے سے، اخبارات وغیرہ میں موجود مذہبی مواد، مقدّس تحریروں، تصویروں وغیرہ کی بے ادبی ہورہی ہے۔ عمل بھی کرلیں، تو اور بھی اچھی بات ہوگی۔ آپ نے چند خطوں میں یہ پڑھا ہوگا کہ لوگ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ والا صفحہ کاٹ کے رکھ لیتے ہیں، لیکن کسی بھی ایک خط میں یہ نہیں پڑھا ہوگا کہ عالمی ایام وغیرہ سے متعلق تحریروں میں لکھی جانے والی دعائوں میں موجود کلام پاک اورمقدّس آیات وغیرہ کوبھی کاٹ کر سنبھالا جاتا ہے۔ (عائشہ بتول، مُریدکے)

سیدھی دل میں…

’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر ’’میاں بیوی اِک دوجے کا احساس، اِک دوجے کا لباس‘‘ بہت ہی پسند آئی۔ ایسی خُوب صُورت تحریر تھی کہ سیدھی دل میں اُتر گئی۔ سرچشمۂ ہدایت، ناول اور اختر علی اختر کا لیا گیا انٹرویو سب ہی بہت ذوق و شوق سے پڑھے۔ منور راجپوت نے ’’مقدّس اوراق کا تحفظ‘‘ سے متعلق لکھ کر تو دل خوش کردیا۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے، آمین۔ (شبوشاد شکارپوری، الامین سٹی ملیر، کراچی)

اعتماد بخشتا ہے

’’سنڈے میگزین‘‘ ہر ہفتے اپنے قارئین کو ایک اعتماد بخشتا ہے کہ بے شک اُن کا انتخاب لاکھوں میں ایک ہے۔ اس یقین میں اور اضافہ ہوجاتا ہے کہ ہم نے مطالعے کے لیے جو جریدہ منتخب کیا ہے، وہ لاجواب ہے۔ (شرلی مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکاپور)

ج: مُرلی چندجی !اس بار تو آپ بڑی عقل مندی کی باتیں کررہے ہیں۔ خیر تو ہے…؟؟

                                                                                        فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

دسمبر کی خُنک شاموں کےلمحات چاہےسرد ہوں، اہلِ دل کے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوتے کہ سلسلۂ شعر و سخن رواں دواں اور مشغلۂ قلم و کتاب جاری و ساری رہتاہے۔ زیرِنظرشمارے کوجب وا برائے مطالعہ کیا، توخوش گوارحیرت ہوئی کہ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ آغاز ہی میں جاری تھا Welcome back to the origin صفحہ نمبر2 کی عظمتِ رفتہ کو آپ نےیوں بحال کیا ؎ جیسے ویرانے میں چُپکے سے بہار آجائے۔ منور راجپوت نے اپنی رپورٹ میں جہاں مقدّس اوراق کے تحفّظ کا احساس دلِ مسلم میں جاگزیں کیا، وہیں لگےہاتھوں حکومتی غیرسنجیدگی کو بھی آشکار کردیا۔ حکومت کی ترجیحات تو انوکھی ہی ہیں کہ پاک، چین اقتصادی راہ داری کو سِلو ڈائون کرکے کرتار پور راہ داری کو ریکارڈمدّت (ایک سال) میں مکمل کرڈالا۔ سنڈے اسپیشل میں ارشد عزیز ملک نے’’قومی ادارہ برائے احتساب‘‘ کا کردار واضح کرنے میں پورا ایک صفحہ کالا کیا، مگردلِ سادہ ’’ہوائوں کا رُخ تبدیل ہورہا ہے‘‘ کے بھاشن کوکیا سمجھے؟ (یہی کہ نیب کا ریڈار ہوائوں کے رُخ پر چلتا ہے) اے بادِ صبا ایں ہمہ آوَردہ تُست۔ اور سنڈے اسپیشل کے دوسرے مضمون ’’تعلیم کا بگڑا آوا‘‘ میں یونی ورسٹی کےاسٹوڈنٹس کا شکایتی جملہ ’’جو مرضی کرلو،تمہیں فیل کرناہے‘‘ پڑھ کر بحیثیت معلّم ہنسی آگئی، لیکن حیرت نہ ہوئی، کیوں کہ ہمارے انتخابی راکھے بھی تو یہی کرتے آرہے ہیں (اپوزیشن بھی دہائی دینے لگی ہے کہ ’’اُس زیور دا کی کرنا جیہڑا کنّاں نُوں کھاوے‘‘) مرکزی صفحات پر قلمِ نرجس سے سال کے پانچویں موسم (شادی سیزن) کے عروسی شگوفے بکھرے تھے۔ ویسے یہ موسم ہر اِک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ناول عبداللہ تو ہمیں پورا فلسفی بنانے پر تُلاہے، بائیسویں ایپی سوڈ میں بھی گوہرِ فلسفہ عطا ہوا، ’’جو باہر کھوجائیں، وہ مَن میں چُھپے ملتے ہیں‘‘ یعنی ’’آئوٹ آف سائٹ بٹ اِن دی مائنڈ‘‘۔ کہی اَن کہی میں خُوش شکل و خُوش گفتار کمپیئر،سدرہ اقبال نے کچھ ظالمانہ نہیں کہہ دیا کہ ’’بچپن سے ہٹلر ہوں‘‘۔ چلو، ہٹلروں کی جوڑی پوری ہوگئی (پہلے ہٹلر کا نام لینے کی ضرورت نہیں، یار لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے، کیوں کہ ہٹلر اور حکمرانی کا چَگے، جھولی کا ساتھ ہے) اوہو! شکریہ مہربانی، عنایت جناب کی کہ فخرِ پاکستان (اور فیصل آباد بھی)ورلڈ اسنوکر چیمپئن محمد آصف کو صفحہ ’’متفرق‘‘ میں جگہ دی۔ تے اخیر وِچ ہوجائے گَل، صفحہ گُلِ گلاب یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ اس ہفتے ’’گلشنِ نرگس‘‘ نقشبندی، مصباح، حمیدی، برقی اور پرنس جیسے شگوفوں سے معطّر تھا، جب کہ وسط میں بندئہ حلیم مانندِ ’’دن کا راجا‘‘ کِھلا تھا۔ بفضلِ خدا اس بار بھی شمارہ 24 صفحاتی رہا، اس جاں فشاں بحالی پر مدیرہ اور ٹیم کے لیے 24 گلاب جامن از انجمن نامہ نگاراں۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: ویسے اس ہوش رُبا منہگائی میں گلاب جامن کی آفر کردینا بھی بڑے دل گردے کی بات ہے۔

گوشہ برقی خُطوط

  • ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سے کبھی نہ بھولنے والے واقعات پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ پیارے سے گھر میں بیٹھ کر ناول پڑھنے کا مزہ ہی الگ ہے۔ کہی اَن کہی کا پڑھنا تو لازم و ملزوم ٹھہرا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس کی رپورٹ سے صحت کی بہتری میں مدد ملتی ہے۔ عالمی افق اور حالات و واقعات کا جائزہ لے کر دنیا جہاں سے واقف رہتے ہیں اور سرچشمۂ ہدایت سے فیض پا کر ہی تو زندگی میں اس قدر امن و سکون ہے۔ (لیاقت مظہر باقری، گلشن اقبال، کراچی)

ج: اِک ’’آپ کا صفحہ‘‘ نے بھی لوگوں کو کیا کیا فن کاریاں نہیں سِکھادیں۔

  • آپ کے ’’کشمیر نمبر‘‘ کا جواب نہ تھا۔ پڑھ کے دل خون کے آنسو رو دیا۔ ڈائجسٹ کی ’’ننّھی مجاہدہ‘‘ تو دل ہی نکال لے گئی۔ کشمیری پکوانوں کی تراکیب سے لے کر سینٹر اسپریڈ کے نوحے تک ہر ہر تحریر اپنی مثال آپ لگی۔(قرا ٔت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)
  • میرا خیال ہے، میں تھوڑا بہت لکھ لیتی ہوں۔ اگر اجازت دیں تو ایک آدھ تحریر بھیجوں، مناسب لگے تو شایع کردیجیے گا۔ (شمسہ ارشد)

ج: ناحق اجازتیں لینے میں اتنا وقت بربادکیا۔ تحریر بھیج دی ہوتی، تو اب تک جان بھی چُکی ہوتی کہ کیسا لکھتی ہو۔

  • میگزین بہت ہی شوق سے پڑھتی ہوں۔ سرچشمۂ ہدایت، انٹرویو، ناقابلِ فراموش کے صفحات مَن پسند ہیں۔ ہوسکے تو این ای ڈی یونی ورسٹی سے متعلق بھی تفصیلی رپورٹ تیار کروائیں۔ (الویرا خان، اورنگی ٹاؤن، کراچی)

ج: جی ضرور۔

  • مَیں اردو ادب کا دل دادہ ہوں۔ ایک درخواست ہے، نو آموز لکھاریوں کے لیے بھی ایک صفحہ مختص کریں۔ (انعام اللہ، لورا لائی، بلوچستان)

ج: بھائی!پورا جریدہ ہی نو آموزوں کے لیے وقف ہے۔

  • ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ ڈراپ نہ کیا کریں پلیز۔ (رمشہ الیاس راجپوت)

ج: اب کہاں ڈراپ ہوتا ہے بھئی۔ صرف سال نامے سے ڈراپ کیا گیا، وہ بھی انتہائی مجبوری کے عالم میں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین