• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنیے مظہر برلاس کا کالم انہی کی زبانی


ویسے تو آج مجھے سید عارف نوناری کی کتاب ’’گھر کا بھیدی‘‘ پر کچھ لکھنا تھا مگر حالات کسی اور طرف لے جا رہے ہیں، جاتے جاتے عارف نوناری پر تھوڑی سی بات کر ہی دیتا ہوں۔

 یہ صاحب لاہور میں مقیم ہیں، نام سے ظاہر ہے لاہوری نہیں ہیں، آپ ان سے ملیں تو پہلا تاثر ایک موڈی اور غصیلے انسان کا ملے گا اور اگر آپ فون پر بات کریں تو آپ کو لگے گا کہ آپ نے بہت ہی روکھے بندے سے بات کی ہے مگر جب نوید مرزا انہیں کسی محفل میں کھینچ لائیں تو پتا چلتا ہے کہ جسے آپ انتہائی خوف ناک آدمی سمجھتے تھے وہ تو بڑا شریف النفس اور دھیمے مزاج کا آدمی ہے، اس کے کھرے پن کا اندازہ ’’گھر کا بھیدی‘‘ پڑھنے سے بھی ہو جاتا ہے، انہوں نے ’’کس کی لنکا ڈھائی‘‘ یہ آپ خود پڑھ سکتے ہیں۔

خواتین و حضرات! بات کتابوں سے آگے میزائلوں تک چلی گئی ہے، بموں نے انسانوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ آج کا تیمور تلواروں والا نہیں بلکہ میزائلوں والا ہے۔ اب افراد کی جگہ ملکوں نے لے لی ہے۔ 

تلوار کا تو پتا تھا کہ کون چلاتا ہے، میزائل تو اتنے بدمعاش ہیں کہ یہ پتا بھی نہیں چلنے دیتے کہ کس نے اور کہاں سے چلایا ہے، اس ڈزنی ٹیکنالوجی نے دنیا کو بدل کے رکھ دیا ہے، آج کی دنیا آگ کی کشتی پر سوار ہے۔ 

آج پھر سے کتاب کی ضرورت ہے، کتابیں انسانوں کو ہدایت دیتی ہیں، انسانوں کو اڑاتی نہیں ہیں۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ انسانوں کو پھول پیش کیے جائیں، ہمیں پھولوں اور خوشبوئوں کے شہر آباد رکھنے چاہئیں، ہمیں ایسے ملکوں کی مخالفت کرنی چاہئے جو شہروں کو بارود کا ڈھیر بناتے ہیں، جو ملکوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرتے ہیں۔ 

ہمیں ایسے انسانوں سے بھی گریز کرنا چاہئے جو نفرتوں کو پالتے ہیں، جو معاشروں میں زہر گھولتے ہیں، جو دنیا کو دل کی تسکین کے لیے آگ لگانا چاہتے ہیں، ہمیں آگ بجھانے والا ہونا چاہئے، ہمارا شمار نارِ نمرود کو بجھانے والی چڑیا کے ساتھ ہونا چاہئے۔ 

مجھے تو ایسے افراد پر سخت غصہ آتا ہے جو باغوں، بہاروں اور خوشیوں کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ امریکی عوام اچھا کر رہے ہیں، اپنے صدر کو کوس رہے ہیں، مسٹر ٹرمپ پر تنقید کر رہے ہیں۔ 

ٹرمپ کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ ایرانیوں نے قاسم سلیمانی شہید کے ساتھ اپنی محبت کا والہانہ اظہار کیا مگر اب ایرانی عوام بھی ان افراد کیخلاف مظاہرے کر رہے ہیں جن کا میزائل غلطی سے ایک مسافر طیارے کو لگا۔ مسافروں کا کیا قصور تھا؟ سفر ویسے بھی مشکلات کا نام ہے اور اگر آپ کا سفر آپ کو کسی اگلے سفر پر لے جائے تو.... باقی باتیں مسافر ہی بہتر بتا سکتا ہے۔ بہت اچھا کر رہے ہیں بھارت کے عوام۔ 

آج پورے بھارت میں لوگ سڑکوں پر ہیں، لوگ مودی کی پھیلائی ہوئی نفرت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج سے بھارت کا کوئی شہر نہیں بچا۔ پورے بھارت کی کوئی ریاست ایسی نہیں جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ یہ ریاست آگ اور نفرت سے خالی ہے۔ 

بھارت میں ظلم کا راج ہے، ظلم کے اس راج میں زندگی کو مشکل بنا دیا گیا ہے، ہر طرف تاریک راہیں ہیں، جگنوئوں کا بسیرا نہیں۔ ہر طرف نفرت کے کانٹے ہیں، محبت کے پھول نہیں۔ رہی بات اسرائیل کی تو یہ ملک بنا ہی ناجائز ہے۔ نفرتوں کے بیج بو کر محبت کی فصل تو نہیں اگائی جا سکتی۔ فلسطینیوں کو بے گھر کر کے عالم اسلام کے سینے میں یہ خنجر گڑ دیا گیا۔ 

اسرائیل نے آس پاس کے تمام ملکوں کا سکون غارت کر کے رکھ دیا۔ اسرائیل اپنے قدموں کو پھیلانے کی ہر دم کوشش کرتا ہے۔ گریٹر اسرائیل کے تصور نے مشرق وسطیٰ میں موت بانٹنا شروع کی۔ پورے عالم عرب میں نفرتوں کو جنم دینے والے ملک کا نام اسرائیل ہے جس نے پورے خطے میں بارود کی بو پھیلا رکھی ہے۔

صاحبو! پاکستان واحد ملک ہے جو دنیا کو نفرتوں میں سے نکال کر محبت کی طرف جانا چاہتا ہے۔ میں یہ اس لئے نہیں لکھ رہا کہ پاکستان میرا ملک ہے بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے دنیا کو بچانے کے لیے ستر ہزار سے زائد قربانیاں دیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کا صفایا کیا، دنیا کو بچایا، اگر پاکستانی قربانیاں نہ دیتے تو آج دنیا آگ اور بارود کی نذر ہو چکی ہوتی۔ 

پاکستان ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا ہمیشہ متلاشی رہا، ہمیشہ اچھے مراسم کی کوشش کرتا رہا۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کو بھی میزائلوں کی بارش سے بچانا چاہتا ہے۔ دراصل پاکستان عالم اسلام کو بھی بچانا چاہتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو ہر ملک سے بات کرسکتا ہے، یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا مگر پاکستان کر سکتا ہے، اسی طرح ایران نہ امریکہ سے بات کر سکتا ہے اور نہ ہی سعودی عرب سے، حتیٰ کہ اس کا برطانیہ سے بات کرنا بھی مشکل ہے۔ 

مگر پاکستان کو وہ مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ یہ ملک امریکہ، برطانیہ، روس، چین، سعودی عرب، ایران اور ترکی سمیت تمام اہم ملکوں سے بات کر سکتا ہے، حالیہ دنوں میں بھارت کو تو کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ مودی پومپیو کے فون کا بھی انتظار ہی کرتے رہے۔ 

پاکستان کی یہ اہمیت اچانک نہیں بنی بلکہ اس کی بڑی وجہ پاکستان کا وہ کردار ہے جو اس نے دنیا کو نفرت کی آگ سے بچانے کے لیے ادا کیا۔ اب بھی پاکستان کی خواہش ہی نہیں کوشش ہے۔ مشرق وسطیٰ کا خوبصورت خطہ آگ کے کھیل سے بچ جائے کیونکہ یہاں سے نکلنے والی چنگاریاں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ 

پاکستان دنیا کو بچانے کے لیے میدان میں کود پڑا ہے، اس نے کسی کا انتظار نہیں کیا۔ مجھے اس ماحول میں مظفر وارثی کا شعر بہت یاد آ رہا ہے جو انسان کی حیثیت کو یاد کرواتا رہتا ہے کہ؎

ہم تو آنسو ہیں، ہمیں خاک میں مل جانا ہے

میتوں کے لیے ڈولی نہیں آیا کرتی

تازہ ترین