• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں تیزی سے فروغ پانے والا آٹو سیکٹر اِن دنوں سنگین بحران کا شکار ہے۔ گزشتہ برس بعض بڑی کمپنیوں کے کئی کار مینوفیکچرنگ پلانٹ جزوی طور پر بند ہو چکے ہیں جس سے ملک کی مقامی پیداوار 40سے 60فیصد تک کم ہو گئی ہے اور ہزاروں افراد ملازمت سے فارغ ہو چکے ہیں۔ اگر متذکرہ سیکٹر مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے تو اِس سے مزید ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے۔ اِس تشویشناک صورتحال کے پیشِ نظر اراکینِ سینیٹ نے شدید احتجاج کیا کہ ہمارے ملک میں نئی گاڑیاں بن نہیں رہیں بلکہ اسمبل ہو رہی ہیں، ایسی گاڑیوں کو مینوفیکجرنگ کا نام نہ دیا جائے، 15سال قبل کا اِس حوالے سے جاری ایس آر او غلط ہے، اِس میں ترمیم ہونی چاہئے۔ آٹو سیکٹر کے شدید بحران کی وجہ سے لاکھوں افراد کے روز گار متاثر ہو رہے ہیں اِس لئے ٹیکسوں میں ریلیف اور پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے۔ یہ رائے بھی موجود ہے کہ گاڑیوں کی صنعت کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بند کیا گیا، حالات کے اِس نہج پر پہنچنے کی بڑی وجہ کاروں کی مقامی قیمتوں میں اوسطاً 13لاکھ روپے کا اضافہ ہے، آج گاڑی کی ضرورت ہے مگر منہ زور مہنگائی کی وجہ سے قیمت عام آدمی کی بساط سے زیادہ ہے جس کیلئے پرائس اینڈ کنٹرول اتھارٹی ہونی چاہئے چونکہ اِس سیکٹر کو کوئی چیک نہیں اِس لئے جس کا دل کرتا ہے قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آٹو موبائل کی یہ کمپنیاں ابھی وطنِ عزیز میں مزید سرمایہ لانا چاہتی ہیں تاکہ مقامی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اِس کی برآمدات میں بھی پیشرفت ہو۔ بہتر ہوگا کہ وزیراعظم کی معاشی ٹیم جملہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کرکے اِن مسائل کا حل نکالے تاکہ آٹو انڈسٹری کو بحران سے نکالا جا سکے اور زرمبادلہ کی آمد کے علاوہ اندرون ملک روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین