• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین ترین پامالی اور جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے کرۂ ارض کے امن کو لاحق خطرات کے تناظر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا چھ ماہ کے دوران منعقدہ دوسرا غیر معمولی اجلاس اس حقیقت کا واضح اشارہ ہے کہ سات دہائیوں سے جاری کشمیری عوام کی قربانیاں اپنا اثر دکھا رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مختلف حکومتوں کے ایک بڑی عالمی منڈی کے حکمرانوں سے وابستہ تجارتی مفادات پر انسانی اقدار کی سربلندی کا وہ جذبہ جلد غالب آجائے جس کا اظہار جنرل اسمبلی کے 10دسمبر 1948کو اعلان کردہ ’’منشورِ انسانی حقوق‘‘ سے ہوتا ہے اور جس کی پہلی شق ہی واضح کر رہی ہے کہ ’’تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وقار و حقوق کے معاملے میں مساوی الحیثیت ہیں‘‘۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل جن 30نکات کا نفاذ کرنے اور جن کی پابندی کرانے کی ذمہ دار ہے ان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر فرد کو زندہ رہنے، آزاد رہنے اور اپنی جان کی حفاظت کرنے کا حق ہے۔ کسی بھی شخص کو نہ غلام بنایا جائے گا، نہ محکوم رکھا جائے گا، نہ ہی تشدد، ظلم و ستم، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جا سکے گا۔ بدھ 15؍جنوری 2020ء کو منعقدہ سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس کے حوالے سے اگرچہ تادمِ تحریر کسی تفصیل کا اجرا نہیں ہوا تاہم عوامی جمہوریہ چین کے سفیر زینگ جون نے اپنے چیمبر کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں تصدیق کی کہ اجلاس میں وادیٔ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ قبل ازیں 16اگست 2019ء کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کی گئی اور 1965ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اجلاس میں صرف ایک موضوع پر گفتگو ہوئی۔ مذکورہ اجلاس بھی دوست ملک چین نے بلایا تھا اور اسی کی درخواست پر سلامتی کونسل کے 5مستقل اراکین کا ایک اجلاس دسمبر 2019ء میں بھی ہوا جس نے بھارت اور پاکستان میں موجود اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے گروپ کو کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے اتفاق کیا تھا کہ مبصرین کی رپورٹ پر غور کیلئے ایک خصوصی اجلاس بلایا جائے گا۔ جموں و کشمیر کا علاقہ 1947ء کے برٹش انڈیا کی آزادی و تقسیم کے ہر فارمولے کے اعتبار سے پاکستان کا حصہ تھا جو بھارت کی طرف سے یکطرفہ فوجیں اتارنے کے جارحانہ قدم اور کشمیریوں کی مسلح مزاحمت کے بعد سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بموجب پاکستان و بھارت کے درمیان متنازع قرار پایا۔ اسلام آباد ایک جانب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس تنازع کے حل کیلئے آواز بلند کرتا رہا ہے دوسری جانب اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام اور دوسری بین الاقوامی سطحوں پر دنیا بھر میں کئی گئی امن کوششوں میں اہم حصہ دار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سلامتی کونسل کے مذکورہ اجلاس کے موقع پر اور اُس مشن کے سلسلے میں امریکہ پہنچے تھے جو ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے واقعہ کے بعد سے تہران، ریاض اور واشنگٹن میں کشیدگی کم کرنے کیلئے جاری ہے۔ انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریز اور جنرل اسمبلی کے صدر تجانی محمد بندے سے ملاقاتوں میں مقبوضہ کشمیر، کنٹرول لائن اور خطے کی صورتحال پر روشنی ڈالی اور بعد ازاں اپنے امن مشن کے تیسرے مرحلے کیلئے واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ آج جمعہ 17جنوری 2020ء کو مقبوضہ کشمیر میں بدترین لاک ڈاون کا 167واں دن ہے۔ کشمیری عوام یقین رکھتے ہیں کہ ان کی بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں جلد یا بدیر بھارت کی مسلط کردہ زنجیروں کو ٹوٹنا ہی ہے تاہم زبانِ حال سے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ ان زنجیروں کی شکستگی کیلئے عالمی برادری کیا کردار ادا کر رہی ہے؟

تازہ ترین