• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے خیال میں کراچی اور کوئٹہ کے مکینوں کو جان و مال کا تحفظ صرف فوج فراہم کر سکتی ہے۔ آئین میں موجود آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لئے بلا کر فوج کو دہشت گردوں  اغوا کاروں  بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی سرکوبی کا فرض سونپا جا سکتا ہے اور وہ یہ فرض بحسن و خوبی ادا کرے گی۔
مگر ہمارے سفاک اور سنگدل حکمرانوں کو آئین سے سروکار ہے نہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی فکر۔ ورنہ کراچی میں روزانہ انسان گاجر مولی کی طرح نہ کٹتے اور بلوچستان میں نسل کشی کا بازار یوں گرم نہ ہوتا۔ آسٹریلیا نے بلوچستان کے 2500 خاندانوں کو پناہ دینے کی باضابطہ پیشکش کی ہے جو نسل کشی کا شکار ہیں۔ پانی سر سے گزرنے لگا مگر ہماری سیاسی اشرافیہ کی ترجیحات میں قومی خزانے کی بندربانٹ  سیاسی جوڑ توڑ  وفاداریوں کی خرید و فروخت  سرکاری افسران کی پسند کے حلقوں میں تعیناتی اور ترقیاتی فنڈز کے ذریعے پری پول رگنگ سرفہرست ہے۔
امن  روزگار اور سیاسی استحکام حکمران طبقہ کی ترجیح ہوتا تو یہ کچھ نہ کچھ ضرور کرتے۔ بجلی و گیس کی پیداوار میں اضافہ  صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری کے لئے اقدامات  پولیس و انتظامیہ کی کارگزاری بہتر بنانے  قانون شہادت میں تبدیلی  انسداد دہشت گردی قانون کے نفاذ اور فوج کی مدد سے ٹارگٹڈ آپریشن مگر پانچ سالہ خاموشی  سہل انگاری اور الٹا ہر واقعہ میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو مورد ِالزام ٹھہرانے کی روش سے واضح ہوگیا کہ # سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے۔
سوات میں دہشت گردوں  عسکریت پسندوں نے ریاست پاکستان کو للکارا تو فوج آگے بڑھی  آرٹیکل 245 کے تحت آپریشن کیا اور امن قائم کر دیا مگر تین سال گزر گئے حکومت وقت اور سول انتظامیہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ گرفتار عسکریت پسندوں کو قانون کے حوالے کرنے  کلیئر کرائے گئے علاقوں میں سول نظم و نسق بحال کرنے اور فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کی ذمہ دار وہ ہے۔ اس نے سوات کو علاقہ غیر سمجھ کر غیرمعینہ مدت کے لئے فوج کے حوالے کر دیا ہے۔
فوج اب حیران ہے کہ وہ پولیس اور انتظامیہ کے فرائض کیسے اور کتنے عرصہ تک سرانجام دے اور گرفتار عسکریت پسندوں سے کیا سلوک کیا جائے۔ چھوڑا گیا تو انجام کیا ہوگا اور مزید زیرحراست رکھنے پر سپریم کورٹ کے ردعمل سے کیسے نمٹا جائے۔ کراچی اور کوئٹہ کیا ملک کے ہر حصے میں فوج کو وزیراعظم  وزیراعلیٰ حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنر طلب کر سکتا ہے۔ آئین کے تحت فوج اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کی ذمہ دار ہے مگر 245 کے تحت فوج کسی علاقے میں کارروائی کرے تو پھر شرپسندوں سے نمٹنے کا اپنا انداز اختیار کرتی ہے۔ ہائیکورٹ 199 کے تحت مداخلت کی مجاز نہیں اور پھر وہ یہ نہیں دیکھتی کہ گرفتار شرپسندوں میں سے کون کس سیاسی جماعت کا چہیتا ہے۔ کسے نسلی و لسانی تنظیم نے مجرم بنایا اور فلاں مذہبی جماعت کی سرپرستی کس کو حاصل ہے۔ کوئی پرچی  سفارش اور فون کال کارگر نہیں ہوتی۔
اسی خدشے کے پیش نظر ہمارے سول حکمران اور ان کی چہیتی انتظامیہ فوج بلانے پر آمادہ نہیں کیونکہ خدشہ کیا یقین ہے کہ پکڑے گئے دہشت گرد  ٹارگٹ کلر  بھتہ خور اور اغوا کار پانچ سال کے بھید کھولیں گے۔ شریک جرم عناصر مخبری کریں گے  رہبروں و رہنماؤں کے روپ میں رہزنوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی ہوگی اور دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہشیں خاک میں مل جائیں گی۔ مگر کیا دہشت گردی اور بدامنی کی روک تھام کے بغیر پرامن الیکشن ہوسکتے ہیں ؟ جس کے لئے یہ حکمران  سیاستدان اور مذہبی رہنما ہلکان ہورہے ہیں۔
پرامن الیکشن کی تدبیر ان لوگوں نے یہ سوچی ہے کہ فوج سے بالا بالا مقامی تحریک طالبان کو مذاکرات کے جال میں پھنسایا جائے۔ اگر طالبان دو ماہ تک کارروائی نہ کریں تو الیکشن اور انتقال اقتدار کا مرحلہ طے ہو جائے گا پھر تو کون میں کون ؟ لیکن اس کا طالبان کو کیا فائدہ ؟ انہیں ریاست اور حکمرانوں کی کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے تو وہ اسے کیوں ضائع کریں گے ؟ 2008 میں یہ موقع انہوں نے ضائع کیاتھا ؟
قدرت کی طرح فوج نے بھی اس عیار ٹولے کی رسی دراز کی۔ پانچ سال کی مدت پوری کرلی مگر اب عوام کو امن ملنا چاہئے  جان و مال کا تحفظ اور گھر سے باہر ِگلیوں  بازاروں  تجارتی مراکز میں بلا خوف گھومنے پھرنے کی آزادی یہ نہ تو سیاست زدہ انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کو حصہ پتی دینے والی پولیس فراہم کر سکتی ہے اور نہ لولی لنگڑی نگران حکومت دے پائے گی جو ملی بھگت سے محدود مینڈیٹ کے لئے وجود میں لائی جا رہی ہے۔ عمر رسیدہ  لغزیدہ الیکشن کمیشن تو ہے ہی بے بسی، پسپائی اور قدم قدم پر سمجھوتہ بازی کی تصویر۔
احتساب و تطہیر ہماری سیاسی و مذہبی قیادت چاہتی نہیں کہ سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ کم از کم اگلے دو تین ماہ کے لئے امن ہی اس کم نصیب قوم کو مل جائے۔ انتقال اقتدار کے بعد موجودہ چہرے ہی بھیس بدل کر آئیں گے اور پھر لوٹ مار  بدامنی  قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگا۔ درمیانی وقفے میں بے بس عوام کو کچھ ریلیف مل جائے تو برا کیا ہے۔ آئین میں آرٹیکل 245 موجود ہے۔ یہ حصول ثواب کے لئے نہیں عوامی مفاد کیلئے درج ہوا تھا تو کیوں نہ اسے بروئے کار لا کر عوام کو سکھ چین سے جینے کا موقع فراہم کیا جائے۔
ہاں البتہ اگر دہشت گردی  لاقانونیت اور عدم استحکام جاری رکھنا کسی گریٹ گیم کا حصہ ہے اور صرف اس کی آڑ میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر سنگ باری ہو سکتی ہے تاکہ این آر او کے باقی مادہ حصوں پر عملدرآمد میں کوئی رکا وٹ نہ پڑے تو منے بھائی لگے رہو ! فوج آئے گی نہ احتساب ہوگا نہ دہشت گردی رکے گی اور گریٹ گیم کے سارے کردار اپنا حصہ رسدی وصول کرتے چلتے بنیں گے۔ 1970/71 کو یاد کرنے کا فائدہ ؟
تازہ ترین