• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمّارہ ارشد

گزشتہ دنوں کراچی سے کوئٹہ جانے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ایک طیّارے سے ٹڈی دَل ٹکرا گیا، جس کےنتیجے میں جہاز کی وِنڈ اسکرین اور اگلے حصّے پر خراشیں آئیں۔ تاہم، خوش قسمتی سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ 

البتہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ٹڈی دَل کے خاتمے کے لیے اسپرے کرنے والے ایک طیّارے کے حادثے کے شکار ہونے کی وجہ سے دو پائلٹس جاں بحق ہو گئے۔واضح رہے کہ پاکستان میں ٹڈی دَل کے حملے کوئی نئی بات نہیں ۔1961ء میں بھی ٹڈیوں کے لشکر نےکراچی پر یلغار کی تھی۔ طویل عرصے بعد حال ہی میں جب ٹڈی دَل نے کراچی سمیت سندھ کے دوسرے علاقوں پر دھاوا بولا، تو یہ مسئلہ پورے مُلک کی توجّہ کا مرکز بن گیا۔ ٹڈیوں کا پہلا ہدف خیر پور کا صحرائی علاقہ، نارا تھا۔ 

گرچہ بر وقت اقدامات کے ذریعے اس آفت پر قابو پایا جا سکتا تھا، لیکن انتظامیہ کی عدم دل چسپی و غیر سنجیدگی کے باعث ٹڈی دَل خیر پور کے بعد سکھر، سانگھڑ، عُمر کوٹ اور تھر کے صحرائی علاقوں سے ہوتا ہوا کراچی تک پہنچ گیا۔ 

سندھ پر ٹڈیوں کی یلغار کے موقعے پر صوبائی وزیرِ خوراک، اسماعیل راہو کا یہ دل چسپ بیان بھی سامنے آیا کہ ’’ٹڈیوں سے مت گھبرائیں، ان سے شہریوں، فصلوں کو نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں۔ اگر آپ چاہیں، تو انہیں کھا بھی سکتے ہیں۔‘‘ تاہم، صوبائی وزیر کے حوصلہ افزا بیانات کے برعکس ان حشرات نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا اور بڑی مشکلوں سے ان پر قابو پایا گیا۔

ٹڈی دَل کیا ہے؟

ٹڈی کا شمار حشرات میں ہوتا ہے۔ تنہا ٹڈی بے ضرر ہوتی ہے، لیکن جب یہ جُھنڈ کی صورت میں،جسے ٹڈی دَل کہا جاتا ہے، نمودار ہوتی ہیں، تو بعض اوقات انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی جسامت اور رنگوں میں فرق ہوتا ہے۔ بعض ٹڈیاں سُرخ، زرد اور بعض سفید رنگ کی ہوتی ہیں، ان کی 6ٹانگیں ہوتی ہیں۔ 

مادہ ٹڈی انڈے دینے کے لیے ایسی سخت اور بنجر زمین کا انتخاب کرتی ہے کہ جہاں سے انسان کا گزر تک نہ ہوتا ہو۔ پھر یہ اپنی دُم کی مدد سے زمین میں بِل بناتی ہے اور اس میں انڈے دیتی ہے۔ یہ ایک وقت میں 80انڈے دیتی ہے اور زمین کی گرمائش سے ان سے بچّے نکلتے ہیں۔ تین بار انڈے دینے کے بعد مادہ ٹڈی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ 

ٹڈیاں ہمیشہ اپنے ایک رہنما یا قائد کی زیرِ قیادت ایک جُھنڈ کی شکل میں پرواز کرتی ہیں اور مل کر فصلوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ یلغار کے دوران یہ پھل، سبزیاں، اناج، گھاس، پودے، درختوں کے پتّے اور حتیٰ کہ نحیف و نزار جانوروں تک کو چَٹ کر جاتی ہیں۔ 

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ٹڈی دَل اب تک کئی ممالک میں فصلوں کو برباد کر چُکے ہیں، جب کہ مصر کے باشندے خوف کے مارے ان کی پوجا کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے دَور میں فرعون کی حکومت میں ٹڈیوں کی یلغار کے نتیجے میں خوش حال و سرسبز مصر بھیانک قحط کا شکار ہو گیا تھا۔

اقوامِ متّحدہ کے ادارے، فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق حال ہی میں سندھ پر حملہ آور ہونے والی ٹڈیاں ایتھوپیا، صومالیہ، یمن، سعودی عرب، اومان اور ایران سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے ضلع، چاغی پہنچی تھیں۔ 

اس بارے میں محکمۂ تحفّظِ نباتات کے ڈپٹی ڈائریکٹر، فخر الزّمان کا کہنا ہے کہ ’’ آبی پرندوں کی طرح ٹڈیاں بھی موسم کی مناسبت سے ایک سے دوسرے مقام کی جانب نقل مکانی کرتی ہیں۔ پاکستان میں صحرائی ٹڈیوں کی افزائشِ نسل کے دو سیزن ہیں۔ 

اوّل، فروری سے جون، جس میں یہ بلوچستان کا رُخ کرتی ہیں اور دوم، جون سے ستمبر، جس میں یہ بدین (سندھ) سے ہوتے ہوئے بہاول نگر (پنجاب)میں داخل ہوتی ہیں اور یہ سیزن ختم ہو جانے کے بعد یہ دوسرے علاقوں کا رُخ کرتی ہیں۔‘‘ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دُنیا کے 10ممالک ٹڈی دَل کی زد میں ہیں اور انہیں تین خطّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 

ان میں ایک مغربی خطّہ ہے، جس میں افریقی ممالک موریطانیہ، سوڈان، ایتھوپیا اور صومالیہ وغیرہ شامل ہیں۔ وسطی خطّہ مصر، سعودی عرب اور یمن وغیرہ پر مشتمل ہے، جب کہ مشرقی خطّے میں پاکستان، ایران، بھارت اور افغانستان شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ٹڈیاں ایک سے دوسرے خطّے میں بھی سفر کرتی ہیں۔

افزائشِ نسل کے لیے سازگار ماحول

چوں کہ مادہ ٹڈی نم ریت میں انڈے دیتی ہے اور برسات میں پاکستان کے مختلف علاقوں کی ریت میں نمی بڑھ جاتی ہے، لہٰذا یہاں اس کی افزائشِ نسل کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔ ٹڈی دَل کی موجودگی کے حوالے سے اقوامِ متّحدہ کے متعلقہ ادارے کی جانب سے تیار کیے گئے نقشوں سے پتا چلتا ہے کہ مراکش، الجزائر اور بھارت کے مختلف حصّوں میں ٹڈیوں کے لشکر یلغار کر سکتے ہیں، جب کہ پاکستان میں ان کی موجودگی کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔

پرواز اور رفتار

ٹڈی کا شمار تیز رفتار حشرات میں ہوتا ہے اور یہ یومیہ 150سے 200کلو میٹر کا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چوں کہ یہ ہوا کے رُخ پر پرواز کرتی ہے، لہٰذا ہوا کی رفتار بڑھنے پر ان کی رفتار میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ انڈے دینے والی ٹڈیاں صحرا میں بسیرا کرتی ہیں، جب کہ دیگر مسلسل محوِ پرواز رہتی ہیں اور درختوں کے پتّے کھا کر گزارہ کرتی ہیں۔ 

خطرناک وبا کی طرح پھیلنے والا ٹڈل دَل چولستان اور تھر کے علاقوں سے ہوتا ہوا مئی میں سندھ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک یہ سندھ کے تقریباً 11اضلاع کی فصلوں کو چٹ کر چُکا ہے اور اس حوالے سے سب سے سنگین صورتِ حال گھوٹکی، سکھر، خیرپور، نواب شاہ، مٹیاری، سانگھڑ، عُمرکوٹ اور تھرپارکر میں ہے۔ 

ماہرین کے مطابق ٹڈی دَل کے خاتمے کے لیے ایسے کِرم کُش اسپرے کا استعمال کیا جاتا ہے کہ جو انسانی صحت اور جانوروں کے لیے کم سے کم نقصان دہ ہو۔ نیز، جدید آلات کے ذریعے انڈوں کا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ تاہم، سندھ میں ابھی تک اس آفت پر قابو پانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے گئے، حالاں کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ، سیّد مُراد علی شاہ نے تین ماہ کے اندر اس وبا پر قابو پانے کا اعلان کیا تھا۔

گرچہ کِرم کُش ادویہ کے ذریعے ٹڈیوں کا خاتمہ ممکن ہے، لیکن ان پر قابو پانے اور فصلوں کو تباہی سے بچانے کا سب سے مؤثر ذریعہ طریقہ بر وقت اور قبل از وقت اقدامات ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان جیسے پس ماندہ مُلک میں 56فی صد افراد کا ذریعۂ معاش زراعت ہے اور اگر بر وقت عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو ٹڈل دَل پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی فصلیں تباہ کر سکتا ہے۔

ٹڈی بطور خوراک

ٹڈی کو بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب میں اسے صحت بخش غذا قرار دیا جاتا ہے، جب کہ یمنی باشندے اسے محفوظ کرنے کے بعد بوقتِ ضرورت خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 19ویں صدی عیسوی میں یورپی سیّاحوں نے عرب خطّے، مصر اور مراکش میں ٹڈی دَل کھانے والے افراد کا مشاہدہ کیا، جب کہ کئی افریقی ممالک میں غربت کے شکار افراد ٹڈیوں کو بطور خوراک استعمال کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ٹڈی میں پروٹین کے علاوہ پوٹاشیم، کیلشیم، سوڈیم، فاسفورس اور زنک بھی وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ دوسری جانب رُوسی سائنس دانوں نے ٹڈی دَل کے نقصانات سے بچائو کے لیے ایک مخصوص ٹیکنالوجی کی مدد سے ان کے دماغ مائوف کر کے انہیں مچھلیوں کی خوراک بنا دیا ہے۔

تازہ ترین