• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت حل چاہتے ہیں، چین کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، یہ تاریخی تنازع ہے جسے یو این چارٹر کے تحت حل کیا جانا چاہیے‘‘ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گنگ شوانگ نے گزشتہ روز بیجنگ میں ہفتہ وار پریس بریفنگ سے خطاب میں تنازع کشمیر پر اپنے ملک کے دوٹوک اور منصفانہ موقف کو ایک بار پھر اِن غیر مبہم الفاظ میں دہرانے کے ساتھ ساتھ پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کے حوالے سے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ کونسل کے بیشتر ارکان کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے اور وہ اس دیرینہ مسئلے کے بین الاقوامی قانون کے تحت حل کیے جانے کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ اجلاس میں کونسل کا اہم رکن روس بھی مسئلہ کشمیر پر کھل کر بولا جبکہ دوسرے ارکان نے واضح طور پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ چینی ترجمان کا یہ اظہارِ خیال اس امر کا یقینی ثبوت ہے کہ کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔ مودی نے اُن کے حوصلوں کو شکست دینے کے لیے کھلی وحشت و درندگی کا جو ہتھیار آزمایا، اس کے نتائج الٹے نکلے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا پر مودی حکومت کا بھیانک چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوگیا ہے اور کشمیریوں کو ان کا حق ملنے کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کا اندازہ چینی ترجمان کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر پر سلامتی کونسل کے تازہ جائزہ اجلاس کے بعد کشیدگی میں کمی اور مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت کا امکان بڑھا ہے اور اب بھارت کو سلامتی کونسل کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی قانون کے مطابق حل کی ضرورت کے اظہار پر سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ ان حالات میں بھارتی قیادت کے لیے ہوشمندی کا واحد راستہ تو بلاشبہ یہی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی قانون کے مطابق حل کیے جانے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جلد از جلد عملی اقدامات کرے لیکن نریندر مودی اور ان کے ساتھی آر ایس ایس کی جس نسل پرست اور تنگ نظر سوچ کے علمبردار ہیں، اُس کے پیش نظر یہ توقع رکھنا حد درجہ سادہ لوحی ہوگی کہ وہ عالمی برادری کی محض خواہش پر تنازع کشمیر کے منصفانہ تصفیے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور اس سمت میں پیش رفت کی خاطر پاکستان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ بات چیت شروع کر دیں گے۔ لہٰذا سلامتی کونسل کو اپنے تادیبی اقدامات سے مودی حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی خاطر اسی طرح مجبور کرنا ہوگا جس کی مثال حالیہ عشروں میں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان وغیرہ جیسے تنازعات کے حل کی شکل میں ملتی ہے۔ بھارت پر دباؤ ڈالنے میں امریکہ اپنی عالمی پوزیشن کے سبب یقیناً سب سے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز واشنگٹن میں اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے ملاقات میں اس ضمن میں امریکہ کو اُس کی ذمہ داری کا بالکل درست طور پر ان الفاظ میں احساس دلایا کہ ’’جنوبی ایشیا میں امن کا امریکہ اور پاکستان کا خواب مسئلہ کشمیر کے حل تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا‘‘۔ افغان امن کے معاملے میں بھی شاہ محمود نے امریکی وزیر خارجہ پر واضح کیا کہ 1980ء کے عشرے کی غلطی نہیں دہرائی جانی چاہیے اور امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں پوری ذمہ داری سے کام لیا جانا چاہیے۔ ایران اور سعودی عرب کے حالیہ دوروں پر بھی انہوں نے امریکی ہم منصب کو اعتماد میں لیتے ہوئے بجا طور پر ایران کے ساتھ تنازع بڑھانے سے گریز کا مشورہ دیا تاکہ خطے کو بدامنی کا شکار ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ امریکی حکام ان معاملات میں درست رویہ اختیار کرکے جنوبی ایشیا ہی نہیں عالمی امن کا قابلِ اعتماد بندوبست کر سکتے ہیں جبکہ برعکس طرزِ عمل عالمگیر تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین