• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کی مالی معاونت کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نام نکالنے میں پاکستان کا امریکہ سے تعاون کا مطالبہ، جس کا انکشاف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے تین روزہ دورۂ امریکہ کے اختتام پر جمعہ کی شب واشنگٹن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں کیا، بوجوہ بالکل درست اور بروقت ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ موقف حقائق کے عین مطابق ہے کہ پاکستان نے نہ صرف ٹاسک فورس کی شرائط کی تکمیل کے لیے متعدد ٹھوس اقدامات کیے ہیں بلکہ افغان امن عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے وہ تمام مطالبات بھی پورے کردیے ہیں جن کے مکمل کیے جانے پر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تمام حوالوں سے بہتر روابط اور تعاون کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔ سپر پاور کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے کی خاطر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور سمجھوتے کے مرحلے تک پہنچانے میں پاکستان نے جو کلیدی کردار ادا کیا وہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اسی تناظر میں میڈیا سے گفتگو میں اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ ماہ ایف اے ٹی ایف کے بیجنگ اجلاس میں امریکہ گرے لسٹ سے نکلنے میں پاکستانی کوششوں میں معاونت کرے گا۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں خود کہا تھا کہ امریکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے باہر دیکھنا چاہتا ہے۔ اب اس ضمن میں امریکہ کی جانب سے عملی کردار ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان کیلئے ٹاسک فورس کا بیجنگ اجلاس اس وجہ سے خاص طور پر اہم ہے کہ یہ اپریل میں پیرس میں ہونیوالے اُس اجلاس سے پہلے ہورہا ہے جس میں حتمی طور پر فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جائے یا نہیں۔ ناکامی کی صورت میں بلیک لسٹ میں شمولیت کا خطرہ بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کو ایران جیسی سخت پابندیوں سے سابقہ پیش آسکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے اس دورے میں اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرین سمیت متعدد امریکی قانون سازوں اور اعلیٰ افسروں سے مذاکرات کیے جن کی اہمیت اس امر سے واضح ہے کہ واشنگٹن پہنچنے سے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ نے ایران اور سعودی عرب کا دورہ کیا جس کا بنیادی مقصد ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی روک تھام کے راستے تلاش کرنا تھا۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے سے لے کر سمجھوتے پر دستخطوںکے لیے عارضی جنگ بندی نیز یرغمالیوں کی رہائی تک پاکستان کی کوششوں سے تمام مشکل مراحل طے پا چکے ہیں، لہٰذا امریکہ کو بھی اب پاکستان کو کرائی گئی یقین دہانیاں پوری کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے جن میں ایف اے ٹی ایف کے علاوہ پاکستان کو امریکیوں کے لیے خطرناک قرار دیے جانے کے انتباہ کی واپسی، تجارتی روابط اور سرمایہ کاری میں اضافہ وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے امریکہ کی جانب سے ہر صورت میں بھارت کی نازبرداریاں جاری رکھنے پر گرفت کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ امریکہ کو بھارت کا متنازع قانون نظر نہیں آتا، اسے اپنی عینک کا نمبر بدلوا لینا چاہئے۔کشمیر میں بھارتی مظالم کے سدباب اور تنازع کے منصفانہ حل میں بھی نتیجہ خیز کردارا دا کرنا واشنگٹن کی ناگزیر ذمہ داری ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کولمبو اور نئی دہلی کے بعد اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ افغان امن اور دیگر حوالوں سے پاکستان کی کامیاب کاوشوں کی کتنی قدر دان ہے اور اس کے بدلے پاکستان کے مسائل و مشکلات کے ازالے میں کیا اور کتنا تعاون کرنے پر تیار ہے، ایلس ویلز کا دورۂ پاکستان ان سوالوں کا جواب مہیا کرے گا۔

تازہ ترین