• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا میں ایک زرعی ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، گندم سمیت کئی خوردنی اجناس اور پھل برآمد کرنے کیلئے مشہور ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح 2019ء میں بھی معمولی فرق کی کمی کے ساتھ گندم کا پیداواری ہدف حاصل کیا گیا۔ اس کے باوجود ان دنوں خیبر سے کراچی تک آٹے کے جس بحران کا سامنا ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سردست تین لاکھ ٹن گندم درآمد کی جا رہی ہے۔ ورنہ صورتحال نہایت ابتر ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف غربت اور مہنگائی کے مارے عوام جن کا بمشکل دو وقت کی روٹی پر گزارا تھا، آج آٹے کے حصول میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور آٹا 70روپے فی کلو تک تجاوز کر گیا ہے۔ وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ یہ حالات گندم کی اسمگلنگ کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ صرف چمن بارڈر سے ماہانہ چالیس ہزار ٹن گندم اسمگل ہونے کا مطلب نہ صرف فوڈ سیکورٹی بلکہ قومی معیشت کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچانا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جنہیں بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ موجودہ اور آنے والے حالات کے تناظر میں اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لیا جانا چاہیے۔ اس وقت مارکیٹ کی صورتحال یہ ہے کہ اگر فلور ملیں آٹا پانچ روپے فی کلو مہنگا کر رہی ہیں تو دکاندار اس سے بھی زیادہ اضافہ کر رہے ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر پوری کی جا رہی ہے جہاں روزانہ آٹے کی قیمتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ایک یہ رپورٹ بھی منظر عام پر ہے کہ بہت سی فلور ملیں سرکاری کوٹہ اوپن مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام تر زاویوں سے اس صورتحال کا جائزہ لیں۔

تازہ ترین