• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:قیوم راجہ ۔۔لندن
15جنوری 2020 کو چین نے سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں "ANY OTHER BUSINESS" کے عنوان سے مسئلہ کشمیر اٹھایا جس پر بھارتی میڈیا کا شور شرابہ ابھی تک جاری ہے۔ بھارتی میڈیا فخریہ دعویٰ کر رہا ہے کہ بھارت نے دو طرفہ مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر عالمی مسئلہ بنانے کی چین اور پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ترجمان رویش کمار نے چین کو اس ناکامی کے بعد مشورہ دیا ہے کہ وہ آئندہ علاقائی مسئلہ کشمیر کو عالمی فورم پر اٹھانے کی کوشش نہ کرے ورنہ اسے دوبارہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تواتر کے ساتھ بھارتی رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ سیکورٹی کونسل کے دو مستقل اراکین برطانیہ اور فرانس نے واضح طور پر بھارت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو پاک،بھارت کا باہمی مسئلہ قرار دیا جب کہ امریکہ اور غیر مستقل اراکین میں سے بھی کسی نے چین کی تحریک کی حمایت نہیں کی۔ روس کے نمائندہ دمتری سولنسکی سے بھی یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ پاک،بھارت مسئلہ کشمیر پر اختلافات ختم کر کے خطے میں پائے جانے والے تنائو کو دور کریں۔ دوسری طرف چین کے امور خارجہ کے ترجمان گینگ شو ہانگ نے بھارتی میڈیا کے سوالوں کے جواب میں اپنی کوششوں اور عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تنہا رہ جانے کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی کونسل کے ممبران کی اکثریت نے مسئلہ کشمیر پر تشویش کا اظہار کیا البتہ مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا جب کہ چین نے اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔چینی ترجمان نے کہا اگر کسی کو ہماری بات پر شبہ ہے تو وہ دوسرے اراکین سے بھی براہ راست رابطہ کر سکتا ہے۔ اب آئیے اس حقیقت کی طرف کہ آیا بھارت کو کیسے اور کیوں مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت کو علاقائی کہنے کا موقع ملا؟ دوسرا سلامتی کونسل جس نے خود جموں کشمیر میں کشمیریوں کی مرضی کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کروانے کی شرط پر فائر بندی کروائی تھی وہ کیوں اس سے راہ فرار ا ختیار کر گیا؟ تیسرا پاکستان، بھارت کے ساتھ ایسے دو طرفہ معاہدوں کو کیوں گلے لگائے ہوئے ہے جنہیں بھارت ،پاکستان کے گلے میں پڑی ایسی رسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے جسے وہ جب بھی چاہے کھینچ لیتا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات برطانیہ کی کشمیر پالیسی سے ملتے ہیں۔ برطانیہ روز اوّل سے ہی ریاست جموں کشمیر کی انفرادیت کو ختم کرکے اسے پاک،بھارت مسئلہ بنا کر دونوں ممالک کے درمیان ختم نہ ہونے والی جنگی صورت حال پیدا کرنا چاہتا تھا۔ برطانیہ نے ہر کالونی سے نکلنے سے پہلے اسی طرح کے مسائل پیدا کیے تاکہ اس کے اور اس کے بڑے بھائی امریکہ کے اسلحے کی فیکٹریاں چلتی رہیں اور یہ فیکٹریاں اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک تیسری دنیا تیسرے درجے کے حکمرانوں سے نجات نہیں حاصل کر پاتی، ابھی تک پاک،بھارت حکومتوں نے عقل سے کام لے کر مسئلہ کشمیر حل کر کے اپنی غریب عوام کے مستقبل کو پہلی ترجیح بنانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا بلکہ دن بدن نفرتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے نریندر مودی جیسے متعصب حکمران کی حمایت کی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنی طرح کے وحشی سیاسی درندوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری رکھ سکے اور پاکستانی حکمرانوں کی امن پسندی کی تعریفیں کر کے ان سے بھی مرضی کے فیصلے کرواتے رہیں۔ پانچ جنوری 1949کی اقوام متحدہ کی قرارداد کی پاکستانی درخواست کی منظوری کا ماحول بھی برطانیہ نے پیدا کیا تھا جس کا مقصد مسئلہ کشمیرکو دو طرفہ بنانا تھا۔ معاہدہ کراچی میں بھی برطانوی سازش شامل تھی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی فوجی حیثیت ختم کروانے میں برطانیہ نے پاکستان پر دبائو ڈالا اور کشمیریوں کی مرضی کے خلاف بھارت کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کروائے۔مودی نے5اگست کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی جس کے خلاف برطانیہ میں تاریخی مظاہرے ہوئے ۔ برطانیہ نے کشمیریوں کی رائے کا احترام کرنے کے بجائے اب اندرون برطانیہ پارٹی پالیٹکس میں مسئلہ کشمیر پر بحث کو اس حد تک روکنا شروع کر دیا ہے کہ کچھ وارڈ ز میں جب کسی کشمیری نے لوکل الیکشن میں ٹکٹ کی درخواست دی تو اسے کہا گیا کہ اس کی درخواست اس شرط پر درج کی جا سکتی ہے کہ وہ کشمیر اشو کو برطانیہ کی اندرونی سیاست کا حصہ نہیں بنائے گا۔ برطانیہ مختلف مرحلوں پر کہہ چکا ہے کہ کشمیر کا تنازع اور کشمیری سیاست برطانیہ کے اندر بد امنی کا سبب ہے۔ برطانیہ نے یہ موقف اس لیے بھی اپنایا ہے کہ برطانیہ بھر کے کشمیریوں کے تاریخی احتجاج کے رد عمل میں بھارت نے برطانیہ پر دبائوبڑھا دیا ہے۔ اگر برطانیہ مخلص ہو تو وہ کشمیری پس منظر کے مالک اپنے شہریوں کے جائز مطالبات پر توجہ دے کر اپنا پیدا کردہ مسئلہ حل کرنے میں مدد کرے مگر برطانیہ کے نزدیک دوسروں کے انسانی و پیدائشی حقوق کی کوئی قدر و قیمت نہیں، بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ جموں کشمیرکی موجودہ تحریک کے اوّلین حریت پسند رہنمائوں کو برطانوی اور پاکستانی خفیہ اداروں نے مل کر سا ئیڈ لائن کیا کیونکہ اس تحریک کے اولین حریت پسندوں کی اکثریت کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا جس سے قومی تحریک کا تاثر پیدا ہوا تھا، اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے تحریک کو ویلی کشمیر تک محدود کر دیا گیا جسے جب جیل میں بدلا گیا تو کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچ پایا۔ آزاد کشمیر میں بھی تحریک کو احتجاجی مظاہروں تک محدود کیا گیا جس کے لیے ویلی سے چند مخصوص لوگ لا کر مقامی شاخوں پر مسلط کر دئیے گے جو ہر قدم اٹھانے سے پہلے اپنی تنخواہ کا سوچتے ہیں۔تحریک کے لیے خون تو ریاست جموں کشمیر کے ہر شہری سے مانگا جاتا ہے لیکن نمائندگی مخصوص علاقہ کے مخصوص افراد کو دی جاتی ہے جنہوں نے پاک،بھارت بیانیہ پروموٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے ریاست کی باقی اکائیاں تحریک سے دور ہو گئیں۔پاکستان نے بھارت کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کے نتائج دیکھ لیے ہیں۔ اب اسے چاہئے کہ وہ شملہ جیسے معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کر کے کشمیر کا فریق بننے کے بجائے حامی بنے لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کشمیری خود ہوش کے ناخن نہ لیں۔ عالمی سطح پر اگر پاکستان مسئلہ کشمیرکا فریق بننے کے بجائے حامی بنے اور کشمیری اپنی نمائندگی خود کریں تو سیکورٹی کونسل کو یہ موقف اختیار کرنے میں بہت مشکل پیش آئے گی کہ کشمیری اپنے مسئلہ کے حل کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے پاس جائیں کیونکہ یہ ان کا باہمی مسئلہ ہے۔ کشمیریوں نے سب کو ڈھال بنا کر دیکھ لیا ہے اب اگر ان میں معمولی سی بھی عقل ہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اپنی آزادی کی جنگ انہوں نے خود لڑنی ہے کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ انہیں اپنے اندر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا اور مل کر سب سے پہلے پاکستان پر دبائو ڈالنا ہو گا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ ختم کرے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
تازہ ترین