• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پنجابیوں نے پچھلے دو کالموں پہ زبردست ردعمل دیا ہے۔ خاص طور پر زبان کے حوالے سے زیادہ لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ پہاڑی، پوٹھوہاری، جھنگوچی اور سرائیکی الگ زبانیں نہیں ہیں بلکہ یہ سب پنجابی کے ہی لہجے ہیں۔ 

چونکہ ہر بیس کلومیٹر بعد زبان کے لہجے میں تبدیلی آ جاتی ہے اس لیے پنجابی کے تیس بتیس لہجے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے بسنت کی یاد دلائی ہے۔ زبان اور بسنت سمیت چند اور باتیں اگلے کالم کا حصہ بنائوں گا۔ آج یہ بات ہو جائے کہ پنجاب کو کس طرح محروم رکھا گیا اور اس اہم صوبے کو کس طرح انصاف ملنا چاہیے۔

جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ پنجاب پر حکمرانی زیادہ تر غلط ہاتھوں میں رہی، اُن حکمرانوں نے پنجاب کی محرومیوں کا ازالہ نہ کیا اور نہ ہی یہ سوچا کہ سونا اگلنے والا یہ صوبہ کس طرح بہتر ہو سکتا ہے۔ 

پہلے تیس سال جاگیرداروں کے مختلف روپ حکمران رہے، وہ طبعاً سست تھے، انہیں صوبے سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر رہی۔ تیس سال بعد جو اگلے چالیس سال تھے، اس وقت ایسے لوگ پنجاب کے اقتدار پر قابض رہے جو دولت کے پجاری تھے، ان کا ہر حربہ دولت کے حصول کے لیے تھا، انہیں پنجاب کی عظیم دھرتی کی کوئی پروا نہ تھی، ان لوگوں نے جان بوجھ کر پنجاب کو چٹیل میدان بنانے کی کوشش کی۔ 

یہ لوگ چھانگا مانگا اور کندیاں سمیت پنجاب کے باقی جنگل بھی ہڑپ کر گئے۔ پنجاب کی سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر یہاں کی دھرتی کے اپنے درخت لگے ہوتے تھے، وہ سب درخت اہلِ اقتدار ہڑپ کر گئے، اب بدقسمتی سے سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر جو نئے درخت لگائے گئے ہیں، وہ تمام درخت سفیدے کے ہیں، سفیدے کے درختوں کی قطاریں میرے سوہنے پنجاب کا پانی پی گئی ہیں، حکمرانوں کو اس پانی کی کوئی فکر نہیں۔ 

پنجاب کا جو پانی ضائع ہو جاتا ہے اس کی بھی کوئی فکر نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب کی شادابی کی خاطر پانی کی فکر کی جاتی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ پنجاب کی دھرتی پانی کے معاملے میں انصاف مانگتی ہے مگر یہ انصاف کیسے ہو، جب انصاف حکومت نے پنجاب کی تقدیر ایک ایسے شخص کے حوالے کر دی ہو جو اس کا اہل ہی نہ ہو، جسے یہ اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ کس صوبے کا سربراہ ہے اور اس کے صوبے میں کیا کچھ ہو سکتا ہے؟

ستر برسوں کے ظلم کا تذکرہ ایک طرف، پنجاب کے ساتھ اس سے پہلے بھی ظلم ہوا۔ انگریزوں نے برصغیر میں جس خطے کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کی، اس کا نام پنجاب ہے۔ انہوں نے وسیع و عریض پنجاب کو تقسیم کیا۔ پچھلی صدی کی ابتدا میں پنجاب میں سے این ڈبلیو ایف پی بنایا گیا، جسے بعد میں صوبہ سرحد کہا جانے لگا، آج کل اسے خیبر پختونخوا کہا جاتا ہے۔ 

اسی طرح پنجاب کے پہاڑی علاقوں کو صوبہ جموں کا نام دیا گیا۔چلو یہ پرانی باتیں ہیں، نئے زمانے میں بھی پنجاب ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ بھارت والوں نے اپنے حصے کے پنجاب میں سے ہریانہ اور دہلی نکال کر اسے تین حصوں میں بانٹ دیا، پاکستان کے پنجاب میں بھی عجیب صورتحال ہے۔ 

اس کے جنوبی حصے میں آباد ہونے والے بلوچوں اور عربوں نے سرائیکی صوبے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب میں تمام جنگل آباد رہتے بلکہ محکمہ جنگلات مزید جنگل پیدا کرتا۔ پنجاب کی سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر سفیدے کے بجائے پھلدار درخت اگائے جاتے تاکہ پنجاب کے باسیوں کو پھل سستا ملتا۔ پنجاب کے شہروں کے قرب میں سبزیاں اگانے کے لیے زمینیں دی گئی تھیں، افسوس ان زمینوں کو ہائوسنگ سوسائٹیاں کھا گئیں۔ 

سبزیوں والی زمینوں کے علاوہ یہ ہائوسنگ سوسائٹیاں اناج اگانے والی زمینوں کو بھی کھا گئیں، یہ سب کچھ ہماری حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث ہوا۔ زرعی پیداوار کو جانچنے کے لیے اگر آپ بھارتی پنجاب سے پاکستانی پنجاب کا موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ امرتسر اور جالندھر میں گندم فی ایکڑ 65سے 70من ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں گوجرانوالہ، لاہور اور سیالکوٹ میں صرف 40سے 45من۔ اسی طرح گورداسپور اور چندی گڑھ میں گنا 18سے 22ٹن فی ایکڑ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سرگودھا اور رحیم یار خان میں 9سے 12ٹن فی ایکڑ۔ 

پیداوار میں اتنا فرق کیوں ہے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو حکمرانوں سے ہونا چاہیے۔ بھارتی پنجاب میں کاشتکار کو بےشمار سہولتیں دی گئی ہیں جبکہ ہمارے ہاں کا شتکار کا کچومر نکال دیا گیا ہے۔ وہاں بجلی، کھاد، کھیت سے منڈی تک ہر جگہ کسان کا خیال کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ہر جگہ کسان کا استحصال ہوتا ہے، اسے ہر جگہ لوٹا جاتا ہے۔ 

پچاس سال پہلے تک تو پنجاب کے ہر علاقے میں کپاس اگائی جاتی تھی، پھر کپاس کے علاقے محدود ہوگئے اور پھر ان محدود علاقوں میں بھی شوگر مافیا نے پنجے گاڑ کر بربادیوں کے سلسلے بڑھا دیے۔ اس پر مزید ظلم ہمارے صنعت کاروں نے کیا۔ 

افسوس کہ کپاس ہم پیدا کرتے ہیں مگر کپڑا بنانے والی فیکٹریاں بنگلا دیش منتقل ہو گئی ہیں، یہ بھی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے سبب ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پتوکی کے پھولوں سے فرانس کی مارکیٹیں بھر جاتیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ 

اوکاڑہ، قصور اور پاکپتن میں پیدا ہونے والا شاندار آلو دنیا کو برآمد ہونا چاہیے تھا مگر یہاں تو آلو پیدا کرنے والے رُل گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، منڈی بہائو الدین، گجرات، شیخوپورہ، حافظ آباد اور جھنگ میں کاشت ہونے والا باسمتی چاول ہم دنیا بھر میں بھیجتے، ہمارا کسان خوشحال ہوتا مگر ہمارے آڑھتی نے ہمارے چاول کے ساتھ بھی ظلم کیا۔

 آج ہمارے زرخیز علاقوں کا چاول دبئی پہنچ کر انڈیا کی سٹمپ کے ساتھ دنیا کو متعارف کروایا جاتا ہے، افسوس اس کی روک تھام نہ ہو سکی۔ ہونا تو بہت کچھ چاہیے تھا مگر کچھ نہ ہو سکا، باقی اگلے کالم میں۔ فی الحال جون ایلیا کا شعر:

اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب

اور خود جیسا اب، دو آب نہیں

تازہ ترین