• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکہ کوہسار نے جب برف کی چادر اوڑھ رکھی ہو تو مظفرآباد (کشمیر) جانے کیلئے مانسہرہ اور گڑھی حبیب اللہ کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اللہ بھلا کرے زندان خانے والوں اور ’’جلاوطن‘‘ بیماروں کا کہ لاہور سے مانسہرہ تک کا سفر بوجہ ہزارہ موٹروے ترقی یافتہ ممالک سا لگتا ہے۔ یہ شریف بھی کیا ’’غضبناک‘‘ چیز ہیں، ہم نے ان پر تنقید کی قسم کھا رکھی ہے مگر پاکستان میں جدھر بھی سفر کریں تو سڑکوں اور نفرتوں کے ایکو سسٹم سے ابھرتے لفظ شرفا کی تعریفی آوازوں کی بازگشت بن جاتے ہیں جو تعاقب کرنے سے باز نہیں آتے۔ مگر باوجود جدید سفری رعنائیوں کے، یہ روٹ مجھے جھنجوڑ دیتا ہے، زلزلہ 2005کے مناظر نہیں بھولتے، اور شاید وہ ریلیف جو ان علاقوں کا حق بنتا تھا، وہ ہم دے بھی نہ سکے۔ شاید اس شرمندہ احساس کی بازگشت تاحال تعاقب کرتی ہے، بہت سے پروجیکٹ غیروں نے مکمل کر دیے، افسوس کہ ہم نہ کر سکے۔ جونہی مانسہرہ کے بعد اور بالاکوٹ سے پہلے مظفرآباد جانے کیلئے دائیں مڑتے ہیں اور براستہ گڑھی حبیب اللہ راستہ لیتے ہیں تو 2005 کے زلزلہ کی بالاکوٹ، گڑھی خدا بخش اور مظفرآباد کی چیخوں، سسکیوں اور بےبسیوں کی دردناک آوازیں تعاقب نہیں چھوڑتیں۔ اس دفعہ مظفرآباد گیا تو وادیٔ نیلم کا درد بھی آواز بن کر پریشان کرتا رہا۔ قدرتی آفات کا مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا تاہم اصلاحات، منصوبہ بندی اور ترقیات حکومتوں اور ماہرین کا فرض ہے۔ اس دفعہ میرے مظفرآباد جانے کا مقصد وادیٔ نیلم میں شدید برفباری کے عذاب اور نقصانات پر کشمیریوں سے اظہارِ ہمدردی اور اسٹیٹ ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے کارکنان کی شبانہ روز محنت کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل سید شاہد محی الدین سے ملاقات سے قبل جو فیڈ بیک سامنے آیا تو ضروری ہوگیا تھا کہ ان سے ملاقات کی جائے۔ ان میں بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ چیلنجز اور لوگوں کا سامنا کرتے ہیں، ورنہ میرا تجربہ ہے کہ آزاد کشمیر کے وزراء، بیورو کریسی کی اکثریت ملنے سے اجتناب کرتی ہے۔ ’’جانے کوئی اپنا ’وہم‘ ہے درمیاں یا گھٹا انہیں ڈراتی ہے؟‘‘ مجھے یاد ہے جب کوٹلی/ میرپور وغیرہ میں زلزلہ آیا تو شاہد محی الدین کچھ دن قبل اتفاق سے وہاں گئے تو ڈی سی سے ڈیزاسسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے بات کی تو موصوف نے کہا، آفات بالائی کشمیر ہی میں آتی ہیں، ادھر نہیں، بعد ازاں انہیں شرمندہ ہونا پڑا۔ جو آگ کی بڑی آفت پچھلے دنوں آسٹریلیا میں آئی اور جو برفانی عذاب ان دنوں کینیڈا امریکہ میں ہے، اس کا کس کو معلوم تھا؟ تاہم شہری انتظامیہ اور ایمرجنسی سے نمٹنے والے محکموں کا فرض ہی یہ ہے کہ وہ اپنے کام کیلئے ہردم تیار رہیں ۔بہرحال پاکستان آرمی کے افسران اور شاہد محی الدین کےکوآرڈنیشن نے لوگوں کے لیے بہت آسانیاں پیدا کیں گویا آرمی اور مینجمنٹ اتھارٹی قابل ستائش ہیں کہ 13اور 14جنوری کی طوفانی بارش اور ہولناک برفباری نے سرجن، کیل، لاوات، شکار و مضافات میں قیامت صغریٰ برپا کر دی۔ 80سے زائد اموات کے علاوہ گھروں کی بربادی نے کشمیر کو پھر سے خون کے آنسو رلائے۔ ویسے عالمی کرتا دھرتائوں، اقوام متحدہ اور منڈیوں شادیوں نے ان کے آنسو خشک ہی کب ہونے دیے؟ این ڈی ایم اے، این ایچ اے، سی اینڈ ڈبلیو اور 1122نے احسن انداز میں اپنا کردار ادا کیا۔ آہ! یو این کے ورلڈ فوڈ پروگرام والے کنٹرول لائن کے اس پار سے آنے والی آتش و آہن کی بارش سے ہچکچاتے رہے! اور واہ، ایک ہمارے کشمیری ہیں کہ سب آفتوں کے سامنے چٹان!

کمشنر مظفرآباد امتیاز احمد کے آفس جب میں اچانک گیا تو وادیٔ نیلم اور دیگر متاثرہ علاقوں سے لوگ ریلیف کی غرض سے آ جا رہے تھے، وہ اس سے قبل چونکہ نیلم ضلع کے ڈی سی رہ چکے ہیں چنانچہ وہاں کے لوگ ان سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں بحیثیت کمشنر ان کا کردار بھی قابل تعریف لگا۔ واپسی پر اچانک میری نظر اسمبلی ہال چوک میں آویزاں کرفیو کلاک پر پڑی تو پھر حسبِ روایت یہی ذہن میں آیا کہ کشمیریوں کا حوصلہ ان پربتوں سے کہیں بلند ہے اور ان کے عزم کی روانی دریائے نیلم اور دریائے جہلم سے کہیں زیادہ بہاؤ، تسلسل اور طغیانی رکھتی ہے، غازیوں کی علمبرداری اور شہداکی صف میں اعلیٰ مقام ان کی تحریک اور تاریخ لہو سے تر و تازہ رکھتا ہے۔ کرفیو کلاک دیکھ کر میں رک گیا، یوں لگا اس پر سب سرخ خون سے کندہ ہے اور اس میں ہندسے نہیں کشمیریوں کے خون کے دھارے ہیں جیسے، اس کرفیو کلاک کی اس وقت کی آواز تھی کہ ’’اے اندھے اور بہرے عالمی چوہدریوں! مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگے، انٹرنیٹ بند ہوا، زبانوں پر تالے لگے اور ظلمی بارود چلتے 168دن 17گھنٹے اور 25منٹ ہو چکے ہیں!‘‘ کیا ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ سسکیاں، یہ نسل کشی، انسانیت کی یہ تذلیل اور ظلم و جبر کی یہ انتہا، جمہوریت کا یہ قتل، سیکولر ازم کا یہ کھلواڑ اور مودی حکومت کا یہ ستم دکھائی نہیں دیتا؟ نہتے کشمیریوں کی درد بھری آواز امریکہ و عالمی این جی اوز اور یو این کا تعاقب کرتی پتھروں سے ٹکرا کر واپس کیوں آتی ہے، امت مسلمہ کیلئے بازگشت کیوں نہیں بنتی؟ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل وغیرہ کو ہماری کرپشن کی بڑھوتری یاد آجاتی ہے مگر مقبوضہ کشمیر کے زخموں کی بڑھوتری کیوں سمجھ میں نہیں آتی؟ سنا ہے عمران خان و وزیر خارجہ نے آج سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مہم چلانے اور مختلف ممالک کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ احسن اقدام ہے۔ بہرحال کشمیر کو دعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے۔

ہاں یاد آیا ’ایک بند خط‘۔ پچھلے دنوں ہم نے بھی ایک شخص کو لکھا ہے جن کے کبھی ہم پرستار تھے کہ وہ فارن سروسز میں بطور تھرڈ، سیکنڈ اور فرسٹ سیکرٹری، یو این کے مستقل مندوب اور زرداری و گیلانی دور میں سفیر چین اور آج آزاد کشمیر کے 27ویں صدر ہیں۔ کیا خط لکھا، یہ کہانی اور عالم نرگسیت پسندی پھر سہی مگر انتظار ہے وہ اچھے چانسلر اور کشمیریوں پر ستم کے حوالے اپنی بین الاقوامیت کا لوہا منوائیں۔ آخر سسکیوں اور درد بھری آوازوں کا تعاقب کب تک؟ ہم کب ٹرانسپیرنٹ ہوں گے؟ کیا ہم صبر کے پہاڑ ہونے پر ہی نازاں رہیں گے؟ ان انٹرنیشنل ’’ٹرانسپیرنسیوں‘‘ کو غموں کے آتش فشاں اور زخموں کے برف پوش پہاڑ کب نظر آئیں گے؟ کب؟

تازہ ترین