• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں دو رائے نہیں کہ مستقبل میں کشمیر کی صورتحال مزید خراب ہوگی جس کی بنیادی وجہ دہلی حکومت کی سخت گیر پالسیاں ہیں۔ گزشتہ سال بھارتی آئین کی دفعہ 370کی یکطرفہ تنسیخ کے بعد سے حکومت کسی بھی قسم کی سیاسی مفاہمت کے موڈ میں نہیں ہے۔ 

جہاں ایک طرف اس نے مختلف پابندیوں کے ذریعے وادی میں لوگوں کا قافیہ تنگ کر رکھا ہے وہیں وہ مظفر آباد پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں بھی دے رہی ہے۔ 

جب حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے ساڑھے پانچ مہینے سے جاری انٹرنیٹ اور آزادیٔ رائے پر پابندیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے ججوں نے اسے ختم کرنے کی صلاح دی تو حکومت نے علامتی طور پر چند سرکاری اداروں اور اسپتالوں میں نہایت سست رفتار انٹرنیٹ کھولنے پر اکتفا کیا جس سے عدالتی حکم نامے پر عمل محض ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ 

ماضی میں بھی کشمیر میں عدالتی احکامات کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے جس کی بنیادی وجہ ’’قومی مفاد‘‘ میں عدلیہ کی جانب سے حکومت کو کافی چھوٹ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے معاملات پر عدلیہ پر اکثر جانبداری کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ فی الحال سخت ترین حکومتی اقدامات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے باوجود حکومت کو عدالت کی جانب سے چھوٹ ملتی رہے گی۔ اگر کسی وجہ سے انٹرنیٹ کو بحال بھی کیا گیا تو یہ بات عین ممکن ہے کہ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کی جانب سے اس کو سخت قواعد و ضوابط کے ذریعے عملاً غیر فعال کر دیا جائے۔

یہ بھی دیکھئے: بھارت کا یوم جمہوریہ، دنیا بھر میں کشمیریوں کیلئے یوم سیاہ


بھارتی حکومت مستقبل میں کشمیر کے بارے میں کس قسم کے اقدامات کرنا چاہتی ہے، اس کے بارے میں آہستہ آہستہ ایک غیر مبہم تصویر ابھر رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے بھارت کے سابق آرمی چیف اور حال ہی میں بنائے گئے ملک کے پہلے چیف آف دی ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے ایک گفتگو میں کشمیری بچوں اور بچیوں کیلئے ’’ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپس‘‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ 

جنرل راوت اپنی اپروچ میں سخت گیر مانے جاتے ہیں اور ہندتوا آئیڈیالوجی اور بی جے پی کے کافی قریب جانے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں فوج کا نیا عہدہ تقویض کیا گیا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ ان کی باتوں کو حکومتی پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ جنرل راوت نے دعویٰ کیا کہ کشمیر میں انتہا پسندی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے جس میں اب دس سے بارہ سال کے نو عمر لڑکے لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ 

انہوں نے اس کے ممکنہ حل کے طور پر حراستی مراکز کی تجویز پیش کی جس میں ایک مخصوص مدت کیلئے ان بچوں کو رکھ کر ان کی ’’تربیت‘‘ کی جا سکے۔ 

حکومتِ ہند پہلے ہی غیر ملکی قرار دینے والے افراد جن میں غالب تعداد مسلمانوں کی ہے، کیلئے وسیع پیمانے پر حراستی مراکز کی تعمیر کر رہی ہے اور شاید جنرل راوت اسی قسم کے حراستی مراکز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ 

ان کی اس تجویز کے بعد کشمیر میں یہ تشویش بڑھ گئی ہے کہ بھارتی فوج کشمیری لڑکوں اور لڑکیوں کو ان کے گھر والوں سے چھین کر زبردستی حراستی مراکز میں رکھ کر انہیں بزرو جبر ان کے ثقافتی اور مذہبی ورثے سے محروم کر دے گی تاکہ ایک نئے آہنگ میں ان کی ذہن سازی کرکے انہیں اپنا ہمنوا بنایا جا سکے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی علیحدگی پسندی سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جا سکے۔

آج کل سوشل میڈیا پر خال خال ہی کشمیری نظر آتے ہیں، نظر وہی آتے ہیں جو وادیٔ کشمیر سے باہر رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی ان خیالات کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم مودی کی حکومت کشمیریوں کی نسل کشی کیلئے طرح طرح کے اقدامات کرنے جا رہی ہے، جن میں ان کی مسلم ثقافت حتیٰ کہ ان کی زبان تک بدلنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ 

بی جے پی کے کئی لیڈران کشمیری زبان کے موجودہ عربی فارسی رسم الخط کو ہندی میں بدل دینے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں جس سے کشمیری مسلمان کُلی طور پر اپنے کلچر اور میراث سے کٹ جائین گے۔ 

اس سے پہلے خطے کی سرکاری زبان اردو کے بارے میں بھی طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ سال اگست سے سرکاری تقریبات میں اردو کے بجائے ہندی کو ڈنکے کی چوٹ پر استعمال کیا جا رہا ہے جس سے کشمیریوں کی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

اس سے پہلے وزارتِ داخلہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ حکومت وادی میں پچاس ہزار سے زائد بند پڑے مندروں کو آباد کرے گی حالانکہ یہاں کی تاریخ گواہ ہے کہ مندروں کی تعداد دو یا تین سو سے زیادہ کبھی بھی نہ تھی۔ 

اس لیے خدشہ ہے کہ مسلم عمارتوں یا غیر آباد سرکاری زمینوں پر مندر بناکر کشمیر کے جغرافیہ کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا جائے گا۔

تازہ ترین