’’چچا چھکّن‘‘کا نام آتے ہی اُردو ادب کے شائقین کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑنے لگتی ہے۔ کون ہیں یہ چچا چھکّن؟کس نے انہیں تخلیق کیا؟ایک زمانہ گزر جانے کے باوجود بھی لوگ آج چچا چھکّن کو کیوں یاد کرتے ہیں؟ آئیے، ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال’’ کون ہیں یہ چچا چھکّن؟‘‘ تو اس کا سادہ سا جواب ہے’’ایک مزاحیہ افسانوی کردار۔‘‘ عمومی طور پر مزاحیہ کرداروں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ لوگ زندگی میں تفریح کو ضروری سمجھتے ہیں اور جو کردار اُن کے لیے تفریح پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں،اُنہیں وہ جلد اور زیادہ پسند کرتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ’’چچا چھکّن‘‘اُردو کا اوّلین مزاحیہ کردار ہے۔ ’’خوجی‘‘(رتن ناتھ سرشار)اور ’’حاجی بغلول‘‘(منشی سجّاد حسین،مُدیر اودھ پنچ) کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجودہیں۔
تاہم ،’’چچا چھکّن‘‘کا کردار ناقدین کے نزدیک اُردو ادب کا بہت حد تک مکمّل ترین مزاحیہ کردار ہے، جس کے خالق معروف ادیب اور افسانہ نگار سیّد امتیاز علی تاج تھے۔ انتہائی دل چسپ بات یہ ہے کہ اُن کو اُردو ادب میں جس تحریر نے لازوال مقام کا حامل بنایا، وہ ہے ڈراما ’’انار کلی۔‘‘ اُردو ڈراموں کا ذکر ہو اور ’’انار کلی‘‘ کی بات نہ کی جائے، یہ ناممکن ہے۔ یوں امتیاز علی تاج وہ خوش قسمت مصنّف ٹھہرے کہ جنہوں نے ایک کردار اور ایک ڈرامے کو لازوال بنادیاکہ لوگ آج بھی چچا چھکن کو یاد کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کردار بن گیا کہ جس کا نام لیتے ہی کسی مخبوط الحواس شخص کی تصویر نگاہوں میں گھومنے لگتی ہے۔ اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے امتیاز علی تاج کو ادب سے لگاؤ والدین سے وراثت میں ملا۔
اُن کے والد سیّد ممتاز علی ایک صاحبِ علم اور نام وَر انسان تھے۔ 1860ء میں راول پنڈی میں پیدا ہونے والے شمس العلماء سیّد ممتاز علی کی ابتدائی تعلیم و تربیت قدیم طرز پر ہوئی۔ اُن کے والد، مولوی سیّد ذوالفقار علی بھی حکومتِ پنجاب میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ایک لائق فائق انسان تھے۔ فارسی ادبیات کی تحصیل نام وَر عالم اور ادیب، مولانا امام بخش صہبائی سے کی، جن کا شمار قدیم دہلی کالج کے اساتذہ میں ہوتا تھا، وہ دہلی کی تاریخ اور آثار سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ سرسیّداحمد خان نے دہلی کے تاریخی آثار پر اپنی مرتّب کردہ کتاب ’’آثار الصّنادید‘‘ میں صہبائی سے مسلسل مشاورت جاری رکھی۔ خود صہبائی کے علمی و ادبی کارنامے بھی ایک تفصیلی تجزیے کے متقاضی ہیں۔ بہرحال، یہ مولوی سیّد ذوالفقار علی ہی کی تربیت کا اثر تھا کہ سیّد ممتاز علی کو بھی ابتدائی عُمر ہی سے علم و ادب سے لگاؤ ہوگیا۔
مکتبی تعلیم کے دوران سیّد ممتاز علی کومولانا قاسم نانوتوی کی شاگردی اختیار کرنے کا بھی موقع ملا، جہاں سے اُن کے دینی خیالات پُختگی کی منزلوں تک پہنچے۔ تاہم، آگے چل کر اُن کے خیالات میں کسی حد تک تبدیلی کا عمل بھی رُونما ہوا۔ تحصیلِ علم کے دوران مولانا محمد حسین آزادؔ کے شاگرد بھی رہے۔ سو، اُن سے بھی ممکنہ حد تک کسبِ علم و ادب کیا۔ اُن ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ روحانی مسائل و معاملات کے موضوع پر نہ صرف ڈھیروں کُتب پڑھ ڈالیں، بلکہ ایک مغربی ملک سے تعلق رکھنے والے سیّاح کے مشرقی ملک میں کیے جانے والے سفر اور وہاں ہونے والے روحانی تجربات کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا، جس کے بعد اُنہوں نے بھرپور طریقے سے عملی زندگی میں قدم رکھا۔
ابتدا میں لاہور ہائی کورٹ سے بطور مترجم وابستہ رہے۔ تاہم، جلد ہی ملازمت ترک کرکے نشر و اشاعت کے کاموں میں دل چسپی لینے لگے اور کچھ ہی عرصے بعد ہندوستان میں علم و ادب کے فروغ کے لیے ’’دارالاشاعت پنجاب‘‘ کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کے علاوہ رفاہِ عام پریس کی بنیاد بھی رکھی۔ ادیب اور صحافی ہونے کے ساتھ وہ مذہب سے بھی خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ 1897ء میں اُن کی دوسری شادی ہوئی۔ اُن کی پہلی بیوی کچھ عرصہ قبل وفات پا چکی تھیں،جن سے دو بچّے بھی تھے۔اُن کی شریکِ حیات محمدی بیگم کی ولادت 1878ء میں شاہ پور،پنجاب میں ہوئی تھی۔اُن کے والد مولوی احمد شفیع وزیر آباد ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ محمدی بیگم کی عُمر محض تین برس ہی تھی کہ اُن کی والدہ انتقال کرگئیں، تو والد نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کرلی۔
یوں محمدی بیگم کو سنِ شعور تک سوتیلی ماں کی پرورش میں رہنا پڑا۔ محمدی بیگم کی تربیت، صوم و صلوٰۃ کے پابند ایک دین دار گھرانے میں ہوئی، مگر دینی تعلیم کے ساتھ اُردو زبان و ادب کی تعلیم پر بھی خاص توجّہ مرکوز کی گئی۔ جب اُن کی بڑی بہن احمدی بیگم بیاہ کر دوسرے گھر چلی گئیں، تو محمدی بیگم نے انہیں خطوط لکھنا شروع کیے، یہ ایک طرح سے اُن کے ادبی سفر کا آغاز تھا۔ بہت جلد محمدی بیگم نے نہ صرف یہ کہ اُردو پر دسترس حاصل کرلی، بلکہ انگریزی زبان سے بھی کسی حد تک واقفیت حاصل کرلی اور پھر سیّد ممتاز علی کی صحبت میں کام کرکے محمدی بیگم کو علمی طور پر بہت فائدہ ہوا۔شوہر نے بیوی کی مزید تعلیم کے لیے ایک انگریزی خاتون اتالیق کا بندوبست کردیا۔
یہی نہیں، بلکہ کاروباری اُمور میں طاق کرنے اور اپنا کاروبار اہلیہ کو سونپنے کے لیے ایک ایسے نوجوان کی خدمات بھی حاصل کیں، جو ریاضی میں طاق تھا۔ یوں محمدی بیگم کو حساب کتاب میں بھی مہارت حاصل ہوچلی۔ اب وہ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں کو صحیح طور پر سمجھنے لگی تھیں۔ سرسیّد احمد خان کے افکار و کردار سے متاثر سیّد ممتاز علی سماجی بہتری کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ تاہم یہ بات جانتے تھے کہ وہ اُس جذبے کی تکمیل محض قلم ہی سے کرسکیں گے۔ اسی کے ساتھ اُن کے دل میں یہ بھی خیال تھا کہ خواتین کے حقوق اور اُنہیں بہتر آگاہی دینے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ضرور کیا جانا چاہیے، چناں چہ اُنہوں نے تمام عوامل پر غور کرنے کے بعد خواتین کے لیے ایک پرچہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا، اور یوں1898ء میں ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزے کا اجراء کیا گیا۔
جس کا مقصدِ اُولیٰ یہ تھا کہ تمام دن گھر کی چار دیواری میں قید اُن خواتین کے حقوق کی بات کی جائے کہ جن کو بیرونی دنیا سے کسی قسم کا کوئی علاقہ نہ تھا۔ یہ گویا ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کے پردے میں ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی تحریک بھی تھی۔ مذکورہ رسالے کا اوّلین شمارہ جولائی1898ء میں منصہ شہود پر آیا۔ آگے چل کر اس کے قلمی معاونین میں حسرتؔ موہانی، مولانا الطاف حسین حالیؔ اور علامہ اقبالؔ جیسی دُوربیں و جہاں دیدہ ہستیاں بھی شامل ہوئیں۔ سیّد ممتاز علی نے محض رسمی طور پر ہی خواتین کے حقوق کی بات نہ کی بلکہ ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کے مُدیر کا عہدہ اپنی شریکِ حیات کو دے کر ثابت کردیا کہ وہ دل سے خواتین کے حقوق کے قائل ہیں۔
رسالے کی کام یابی اور شہرت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی اشاعت کی نصف صدی مکمّل کی۔ محمدی بیگم نے ماؤں کی رہنمائی کے لیے 1905ء میں ’’مشیرِ مادر‘‘ کے عنوان سے ایک بھی رسالے کا اجراء کیا۔ ’’رفیقِ عروس‘‘، ’’حیاتِ اشرف‘‘،’’سچّے موتی‘‘،’’سگھڑ بیٹی‘‘،’’نعمت خانہ‘‘ ’’دل پسند کہانیاں‘‘، ’’تاج پھول‘‘ وغیرہ ان کی دیگر تخلیقی کاوشیں ہیں۔ محمدی بیگم 1908ء میں انتقال کرگئیں۔
سیّد ممتاز علی اَن تھک کام کرنے والے لوگوں میں سے تھے۔اُنہوں نے اس بات پر بھی غور وخوض شروع کیاکہ بچّوں کی ذہنی نشوونما کے لیے بھی کسی پرچے کا جاری ہونا کس حد تک مُفید ہو سکتا ہے، اور جب یہ فیصلہ ہوگیا، تو سوچا رسالے کا اچھا سا نام بھی ہونا چاہیے، کیوں کہ رسالہ پھول جیسے بچّوں کے لیے ترتیب دیا جانا تھا، لہٰذا اس کا نام ’’پھول‘‘ ہی رکھ دیا گیا۔ یہ رسالہ 1909ء میں جاری کیا گیا۔ زندگی کسی مقصدِ اعلیٰ کے تحت گزارنا گویا سیّد ممتاز علی کی سرشت میں شامل تھا۔ یوں وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے تن من دھن سے لگے رہے۔ کئی رسالے جاری کیے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر تعلیم و ترقیِ نسواں میں ہمہ وقت مصروف رہے۔
تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ چند علمی و ادبی مجالس اور ٹیکسٹ بُک کمیٹی کے رکن رہے۔ نصابی کُتب نہ صرف یہ کہ تصنیف کیں بلکہ دیگر عالم و فاضل اشخاص کو لکھنے کی تحریک دے کر شایع کروائیں۔ ’’دارالاشاعت پنجاب‘‘ کو ایک ادبی درس گاہ کی حیثیت عطا کی۔ غرض یہ کہ زندگی کا ہر ہر لمحہ سیّد ممتاز علی کو سماج کا ایک ممتاز شخص ثابت کرتا رہا۔ ممتازعلی 1935ء میں انتقال کرگئے۔
نابغۂ روزگارہستی، سیّد ممتاز علی کے صاحب زادے، امتیاز علی تاج 13 اکتوبر 1900ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ امتیاز علی کو اُن کی والدہ پیار سے تاج کہا کرتیں۔ یوں امتیاز علی نے آگے چل کر اسے نام کا حصّہ ہی بنا لیا اور ادب میں امتیاز علی تاج کے نام سے زندہ جاوید قرارپائے۔ امتیاز کے ایک بھائی حمید علی بھی تھے۔ امتیاز جب عُمر کی نویں منزل پر پہنچے تو باپ نے سال گرہ والے دن ’’پھول‘‘ کے عنوان سے اپنے بیٹے کو اپنا ہی ترتیب دیا ہوا بچّوں کا رسالہ بطور تحفہ پیش کیا۔
مقصد محض اپنے بیٹے کے لیے ہی رسالے کا اجراء نہ تھا، بلکہ اس کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی ذہنی و علمی تربیت بھی مقصود تھی۔ گورنمنٹ کالج،لاہور سے گریجویشن کے بعد امتیاز علی تاج نے انگریزی ادب میں ایم اے میں داخلہ لیا، مگر کچھ وجوہ کی بِنا پر مکمّل نہ کرسکے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سےاُنہیں غیر نصابی سرگرمیوں سے بے حد دل چسپی تھی، وہ ادب،شاعری،تھیٹر وغیرہ کے ساتھ خود کو زیادہ پُر سکون محسوس کرتے۔ تخلیق سے کچھ ایسا لگاؤ تھا کہ اپنے خیالات کو مضامین کی شکل میں تحریر کرتے۔
شیکسپیئر کے ڈراموں کو اُردو میں ڈھالنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ 1918ء کا سال تھا اورابھی عُمر کی اٹھارہویں ہی منزل تھی کہ ’’کہکشاں‘‘ کے عنوان سے ایک ماہ نامے کا اجراء کیا۔ مولانا عبدالمجید سالک بھی پرچے سے منسلک تھے۔ جلد ہی اس پرچے نے اور اس کے توسّط سے امتیاز علی تاج نے ادبی حلقوں میں شناخت قائم کرلی۔ رسالے کے قلمی معاونین میں منشی پریم چند بھی شامل تھے۔ یہ برّصغیر میں زبردست سیاسی انتشار اور خلفشار کا دَور تھا۔ انگریزوں سے آزادی کے لیے ہندوستان میں کسی نہ کسی وقت اور کہیں نہ کہیں کوئی احتجاج ضرور ہوتا نظر آتا۔اورشاید ایسے ہی عوامل کا اثر تھا کہ نوجوان سیّد امتیاز علی تاج نے1919ء میں کانگریسی رہنما، گاندھی جی کی سوانح عُمری تحریر کی۔
ہندوستان کے سیاسی اُفق پر کانگریس اور مسلم لیگ کا مزاحمتی رنگ نمایاں ہوتا جارہا تھا۔ اسی کے ساتھ گاندھی اور جناح کے نام بھی قریہ قریہ، کوچہ کوچہ گردش کرنے لگے تھے۔’’بھارت سپوت‘‘ کے عنوان سے تحریر کی گئی اس سوانح عُمری کے سرِورق پر تحریر تھا۔ ’’بھارتی سپوت، یعنی مہاتما گاندھی کی سوانح عُمری: مرتّبہ سیّد امتیاز علی تاج، ایڈیٹر رسالہ کہکشاں، لاہور۔‘‘ کتاب کا دیباچہ پنڈت موتی لعل نہرو نے تحریر کیا، جس میں امتیاز علی تاج کے کام کو خُوب خُوب سراہا۔ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے A Mid Summer Nights Dream کو ’’ساون رین کا سپنا‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ 1922ء میں اُنہوں نے’’انار کلی‘‘ کے عنوان سے اپنا شاہ کار ڈراما کیا تحریر کیا کہ اُن کا نام ہر خاص و عام کی زبان پر آگیا۔
’’اُردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ میں انور سدید نے ڈراما ’’انار کلی‘‘ کے بارے میں کچھ اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے:’’امتیاز علی تاجؔ کا ڈراما، انارکلی ایک ایسے تراشیدہ فن پارے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی فنی آرایش میں بہت محنت صرف کی گئی تھی۔ چناں چہ اسے دورِ جدید کا نقشِ اوّل شمار کیا گیا۔ یہ ڈراما جہانگیر اور انارکلی کے فرضی معاشقے پر مبنی ہے۔ اکبرِ اعظم کا ردّعمل، دل آرام کی سازش، مہارانی کی مامتا اور انارکلی کی قربانی اس میں ڈرامائی تاثّر اور گہرائی پیدا کرتے ہیں۔ تاجؔ نے ان سب کے جذباتی جزرومد کو پوری شان سے کاغذ پر منتقل کیا ہے اور کش مکش کو ڈرامائی صورت دے دی ہے۔ ہر چند یہ ڈراما اسٹیج پر کام یابی سے پیش نہ کیا جاسکا، تاہم اس کی ادبی حیثیت کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا۔‘‘
ڈراما اپنے وقتِ تخلیق سے اب تک نہ جانے کتنی ہی بار اسٹیج پر اور فلموں میں پیش کیا جاچکا ہے۔ نصابی سطح پر پڑھانے کے علاوہ اس کی شہرت وقت اور سرحد سے ماورا ہوچُکی ہے۔’’انار کلی‘‘ سے ایک بڑی ادبی جست لگانے والے سیّد امتیاز علی تاج نے 1926ء میں اپنی ادبی زندگی کا ایک اور سنگِ میل عبور کیا اور اُردو ادب کے انتہائی دل چسپ اور ناقابلِ فراموش کردار ’’چچا چھکن‘‘ کے ساتھ سامنے آئے۔ یہ کردار کس طرح تخلیق پایا، یہ بھی ایک دل چسپ بات ہے۔ حکیم محمد یوسف حسن ’’نیرنگِ خیال‘‘ کے عنوان سے ایک ماہانہ پرچہ نکالتے تھے۔اپنے مخصوص ادبی رنگ کے باعث اُسے ادب نواز حلقوں میں بہت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ حکیم محمد یوسف حسن پرچے میں مسلسل ایسی چیزیں شامل کرتے کہ جس سے پڑھنے والوں کے حلقے میں مسلسل اضافہ بھی ہوتا اور وہ رسالے کے مندرجات سے پوری طرح محظوظ ہوتے۔ ایک دن حکیم محمد یوسف حسن انگریزی زبان کے مصنّف Jerome K Jerome کی کتاب ’’تھری مین ان ا ے بوٹ‘‘ کا مطالعہ کررہے تھے۔
کہانی کا ایک کردار ’’انکل بوچر‘‘ ظریفانہ رنگ کا حامل تھا۔ حکیم محمد یوسف حسن کو یہ کہانی بہت پسند آئی اور انہوں نے امتیاز علی تاج سے درخواست کی کہ وہ’’نیرنگِ خیال‘‘ کے’’عید نمبر‘‘ کے لیے اُسے اُردو زبان کا پیرہن عطا کردیں۔ امتیاز علی تاج کو بھی کہانی بہت پسند آئی ،تاہم انہوں نے اپنی فطری ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اُس میں کچھ تبدیلی کر دی جائے۔ سو، اس تبدیلی کے نتیجے میں ’’چچا چھکّن‘‘ نے اُردو ادب کے میدان کا رُخ کرلیا اور اُس دن کے بعد سے مزاحیہ ادب میں گویا میدان اُن ہی کے ہاتھ آگیا۔
ڈاکٹر وزیر آغا ’’اُردو ادب میں طنزومزاح‘‘ میں واضح طور پر تحریر کرتے ہیں: ’’چچا چھکّن میں ہم پہلی بار اپنے ادب کے صحیح ترین مزاحیہ کردار سے متعارف ہوئے ہیں کہ یہاں لفظی بازی گری، عملی مذاق اور مضحکہ خیز حلیے کے بجائے صرف فطری ناہم واریوں سے مضحکہ خیز واقعات کو تحریک ملی ہے۔‘‘ گویا ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں ’’چچا چھکّن‘‘ اُردو ادب کا مزاحیہ ترین کردار ہے۔
1935ء میں امتیاز علی تاج کی شادی حجاب اسماعیل سے انجام پائی۔ حجاب حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُن کے والد سیّد محمد اسماعیل انتہائی باصلاحیت انسان تھے۔ نظام حیدرآباد کے فرسٹ سیکریٹری کے طورپر اعلیٰ کارِ سرکار میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔ 1915ء کا سال تھا اور ہندوستان بہت سی شورشیں دیکھنے کے بعد شاید کسی اگلی شورش کا منتظر تھا۔ گویا حجاب کے بچپن اور لڑکپن کا تمام تر زمانہ انتہائی اہم سیاسی تبدیلیوں سے عبارت تھا کہ اُن کی پیدایش کے اگلے ہی برس ہندوستان کے سیاسی اُفق پر ایک نئی سیاسی جماعت ’’مسلم لیگ‘‘ نے جنم لیا۔ حجاب کی والدہ عبّاسی بیگم بھی اس عنوان سے منفرد خاتون تھیں کہ ادب و شعر سے لگاؤ میں اپنے وقت کی خواتین میں یکتا نظر آتیں۔
انہوں نے ایک ناول ’’زہرا بیگم‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا،جسے ادبی حلقوں میں بے حد سراہا گیا۔ فلسفہ اُن کی دل چسپی کا ایک اور میدان تھا، جس میں انہوں نے محض زبانی حد تک ہی دل چسپی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ بہت سے مضامین بھی تحریر کیے۔ جنہیں بعدازاں ’’گُلِ صحرا‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل دے دی گئی۔ گویا حجاب اسماعیل کے والدین اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ اُن کی تمام تعلیم و تربیت حیدرآباد دکن ہی میں ہوئی۔ معاشی طور پر آسودگی تھی، لہٰذا کم عُمری میں دیکھنے والے خوابوں کو حقیقت کا رُوپ دینے کا بھی آئندہ زندگی میں خُوب خُوب موقع ملا۔ عربی،فارسی اور اُردو کی تعلیم تو گھر ہی پر حاصل کی، تاہم سینئر کیمبرج کے امتحان میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ 1927-28ء کا سال تھا اور عُمر محض بارہ یا تیرہ برس رہی ہوگی کہ زندگی کا اوّلین افسانہ ’’میری ناتمام محبت‘‘ شایع ہوا اور اُس کے چرچے ہونے لگے۔
حُسن و عشق اور حُزن و ملال کے رنگوں سے سجے اس افسانے کو ایک نَوعُمر لڑکی نے نہ جانے کس جذبے سے تحریر کیا کہ یہی افسانہ اُس کی ابتدائی شناخت بھی بن گیا۔1935ء تک حجاب کے کئی مجموعے شایع ہوچکے تھے، جن میں ’’نغماتِ موت‘‘،’’ادبِ زرّیں‘‘،’’میری ناتمام محبت‘‘،’’لاش‘‘ اور دوسرے ہیبت ناک افسانے وغیرہ شامل تھے۔ اگرچہ اُن کے اردگرد کی پوری فضا انتہائی درجہ سیاسی اور بے چینی پر مبنی تھی۔ اُس دَور کے بڑے بڑے شاعر، ادیب اور افسانہ نگار اپنے قریب ہونے والی تبدیلیوں سے متاثّر ہوکر اُن ہی مسائل و معاملات کو اپنی تخلیقات میں اُجاگر بھی کررہے تھے، تاہم حجاب کو اپنے قلم پر اس حد تک اعتبار تھا کہ وہ سمجھتی تھیں کہ اُن کی تحریروں کو لوگ اُسی رنگ میں پسند کریں گے، جسے وہ اظہار کے لیے اپناتی ہیں۔ اُسی برس اُن کی شادی اُردو کے نام وَر ادیب اور ڈراما نگار،امتیاز علی تاج سے ہوئی۔
یوں شادی کے بعد وہ حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے لگیں۔ ابتدائی عُمر ہی سے اونچی اڑان کے سپنے دیکھنے والی حجاب نے شادی کے اگلے ہی برس یعنی 1936ء میں ایک اور اونچی اڑان اس طرح بھری کہ برّصغیر میں بہت سی روایات اور تہذیب کی بنیاد پر منفرد مانے جانے والے شہر لاہور میں واقع ناردرن فلائنگ کلب سے ہوابازی کی سند حاصل کرلی۔ ہوا میں پرواز کرنے یا پائلٹ بننے کا خیال بھی یوں آیا کہ ایک دن آسمان کی وسعتوں میں محوِ پرواز عقاب کو دیکھا اور اُس کی شانِ پرواز اس قدر پسند آئی کہ ارادہ کر لیا کہ جیسے بھی ممکن ہو، فضاؤں میں پرواز ضرور کرنی ہے۔ یوں دل میں ٹھان لیا اور ایک دن اُسے عملی جامہ بھی پہنادیا۔
اس طرح حجاب امتیاز علی کو برطانوی ہند کی اوّلین ہوا باز خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ہمیشہ اس بات پر متعجب ہوتیں کہ حجاب نے یہ کیسے ممکن کردکھایا؟ تاہم، ان سب باتوں کے باوجود بھی حجاب نے قلم سے اپنا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار رکھا۔ حجاب نے موسیقی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ انگریزی زبان و ادب اُن کو بہت متاثّر کرتا۔ سو، اُس کا مطالعہ بھی بہت جم کر کیا۔ اُنہوں نے زندگی کے آخر تک قلم سے رشتہ قائم رکھا۔اُن کے ناولوں، افسانوی مجموعوں اور مضامین کے دیگر مجموعوں میں ’’خلوت کی انجمن‘‘،’’اندھیرا خواب‘‘،’’وہ بہاریں یہ خزائیں‘‘،’’پاگل خانہ‘‘،’’سیّاح عورت‘‘،’’کونٹ الیاس کی موت‘‘ اور دوسرے ’’ہیبت ناک افسانے‘‘،’’ممی خانہ‘‘،’’کالی حویلی اور دوسری خوف ناک کہانیاں‘‘، ’’تحفے اور شگوفے‘‘ اور ’’لیل و نہار (ڈائری)‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ’’موم بتّی کے سامنے‘‘ ان کی آپ بیتی ہے اور اس منفرد نام کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کا احوال اس طرح قلم بندکیا ہے کہ جنگ کے دوران رات میں بلیک آؤٹ ہوتا اور حجاب موم بتّی کی مدّھم اور لرزتی روشنی میں تخلیق سے اپنا مضبوط رشتہ اس طرح استوار کرتیں کہ قلم، کاغذ، احساس، تجربہ، حافظہ سب اسپِ بے لگام کی طرح رواں ہوجاتے۔
ناول ’’اندھیرا خواب‘‘ سگمنڈ فرائڈ کی تحریروں کے گہرے مطالعے کا نتیجہ ہے کہ جس میں ذہن کی نفسیاتی تہوں کو جاننے اور کھولنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’پاگل خانہ‘‘ ایک اور فکر انگیز اور اہم ناول ہے کہ جس میں ایٹم بموں اور کیمیائی ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی کا اوّل و آخر ذمّے دار انسان ہے، جس میں دنیا کو دارالامن کے بجائے ایک پاگل خانے سے تشبیہہ دی جارہی ہے۔ تراجم،بچّوں کے لیے تحریری سرمایہ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کی ادارت الگ میدان رہے۔ شوکت تھانوی کے امتیاز علی تاج سے گہرے مراسم تھے۔
اسی نسبت سے وہ امتیاز علی تاج کے گھر بھی آیا جایا کرتے۔ کسی وقت میں حجاب امتیاز علی پریشانی میں مبتلا ہوئیں، تو امتیاز علی تاج نے شوکت تھانوی کو خاص طور پر گھر مدعو کیا، جہاں انہوں نے اپنی فطری بذلہ سنجی اور ظرافتِ طبع سے حجاب امتیاز علی کو خُوب محظوظ کیا۔ حجاب مارچ 1999ء میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔
امتیاز علی تاج نے پاکستان کے قیام کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے ’’پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے عنوان سے یومیہ فیچر بھی پیش کیا۔ اسے سامعین میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ کئی برس تک ریڈیو سے نشر ہوتا رہا۔ اسی زمانے میں انہوں نے ریڈیو ڈراموں کے علاوہ فلموں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں۔ ’’قرطبہ کا قاضی‘‘ کو بھی بے حد مقبولیت ملی اور یہ ڈراما نصاب میں شامل کیا گیا۔ امتیاز علی تاجؔ ’’نیاز مندانِ لاہور‘‘ کے رکن بھی تھے۔ متذکرہ حلقہ اس سوچ کا حامل تھا کہ ادب میں جدید تصوّرات اور اسالیب کو روشناس کروایا جائے۔ مولانا عبدالمجید سالکؔ اس کے روحِ رواں تھے اور دیگر ارکان میں پطرسؔ بخاری،ایم ڈی تاثیرؔ، چراغ حسن حسرتؔ، مولانا غلام رسول مہرؔ، صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم ؔوغیرہ شامل تھے۔ امتیاز علی تاج کوتھیٹر سے اس حد تک دل چسپی تھی کہ اُس کے لیے لکھنے اور ہدایات دینے کے ساتھ بطور اداکار بھی کام کیا۔
علم و ادب کے فروغ کے لیے قائم ہونے والے ادارے’’مجلس‘‘ سے بھی بحیثیت صدرطویل وابستگی رہی۔ اُنہیں ہمہ وقت متحرّک اور فعال رہنے کا گُر آتا تھا،تاہم ’’کارِ ہمہ وقتی‘‘ سر بسر انفرادیت پر مبنی ہوتی۔ ادب اور آرٹ کی دیوانگی میں مبتلا رہنے والی ایک بے چین روح ،کچھ کر دکھانے اور سماج کو بہتر طور پر کچھ دیے جانے کی دھن میں منہمک ایک بیدار دماغ کو 19 اپریل 1970ء کو نامعلوم قاتلوں نے رات کی تاریکی میں ہمیشہ کی نیند سُلا دیا۔ اُن کی تصانیف میں سے چند کے نام یہ ہیں۔’’اُردو کا کلاسیکی ادب‘‘،’’ریل کہانیاں‘‘،’’مجلسِ ترقیِ ادب‘‘۔
امتیاز علی تاج اور حجاب امتیاز علی کی بیٹی یاسمین طاہر ہیں۔ یاسمین کی وجہِ شہرت ریڈیو رہا۔ انہوں نے ریڈیو پر رسمی انٹرویوز ترک کرکے غیر رسمی انداز کی بنیاد ڈالی اور ریڈیو سامعین کو حقیقی معنوں میں محسوس ہونے لگا کہ ریڈیو کے اندازِ کار میں ایک خوش گوار تبدیلی آئی ہے۔اُس زمانے میں ریڈیو کا ایک مقبول پروگرام ’’سات رنگ‘‘ تھا،جسے پروگرام کے مرد اور عورت میزبان مل کر چلاتے، تاہم فیصلہ ہوا کہ اسے تنہا آواز میں پیش کیا جائے اوریوں یاسمین طاہر نے اپنی خُوب صُورت صداکاری اور لب و لہجے کے کمال اتار چڑھاؤ کے ساتھ اس طرح پیش کیا کہ سامعین میں بے حد مقبولیت کا حامل ہوگیا۔ یہاں تک ہوا کہ سلیم گیلانی نے ایک تقریب میں یاسمین طاہر سے کہا کہ آپ نے کمپیئرنگ کے معنی ہی بدل دیے۔ یاسمین کی شادی نعیم طاہر سے ہوئی۔
نعیم طاہر شوبز کی دنیا کا ایک مستند نام ہے۔اُن کی والدہ ڈاکٹر اور والد ماہرِ تعلیم اور دانش وَر تھے۔نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی سول نافرمانی کی تحریک میں بھی حصّہ لیا۔ نعیم طاہر امرتسر، پنجاب کے علاقے چھان گلی میں1937ء میں پیدا ہوئے۔ یہ مقام جلیانوالہ باغ سے ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ نعیم طاہر کو محض شوبز سے وابستہ فرد کہنا کافی نہیں کہ اُن کا شمار اہلِ دانش میں ہوتا ہے۔ اُردو اور انگریزی میں کتابیں بھی تحریر کرچکے ہیں۔ مختلف انگریزی اخبارات کے لیے کالم بھی تحریر کرتے ہیں۔ ڈراما، تھیٹر، فلم، ہدایت کاری کے شعبے میں نعیم طاہر نے اپنی شناخت قائم کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل نعیم طاہر کو آرٹ سے دل چسپی رہی۔
اب عالم یہ ہوا کہ کبھی ریڈیو، تو کبھی تھیٹر اور کبھی فلم کی باتیں۔ صفدر میر کی صحبت نصیب ہوئی اور یوں تھیٹر کی دنیا سامنے آگئی۔ فضل کمال جیسے صاحبِ کمال سے بھی راہ و رسم ہوئی۔ یونی ورسٹی میگزین کے لیے نہ صرف مضمون لکھا بلکہ اسے پڑھا بھی۔ مزاحیہ انداز میں لکھے گئے اس مضمون پر اُن کے لیے ریڈیو کے دروازے کھل گئے۔ رفیع پیر اور امتیاز علی تاج کی رہنمائی بھی نصیب ہوئی۔ یہیں اسکرپٹ کی سوجھ بوجھ پیدا ہوئی۔امتیاز علی تاج کے لکھے ایک ڈرامے میں نعیم طاہر اور یاسمین آمنے سامنے تھے اور یہیں سے دونوں کے ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کے احساسات بیدار ہوئے،جس نے آگے چل کر دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔
شادی کے فوری بعد نعیم طاہر نے بیرونِ ملک یونی ورسٹی سے ڈرامے کی تیکنیک سے متعلق سند حاصل کی۔ قبل ازیں وہ مقابلے کا امتحان بھی پاس کرچکے تھے۔ان کے تین بیٹے ہیں فاران ہارون طاہر، مہران طاہر اور علی طاہر۔ امتیاز علی تاج کے نواسے، یاسمین اور نعیم طاہر کے سب سے چھوٹے بیٹے، علی طاہرنے ٹی وی کے بہت سے ڈراموں میں نہ صرف کام کیا، بلکہ اپنے کام کے باعث پہچان بھی رکھتے ہیں۔ ڈراما انڈسٹری سےاُن کی وابستگی کو لگ بھگ سولہ سترہ برس ہونے کو آرہے ہیں۔ پی ٹی وی سے نوّے کے عشرے کے اختتام پر کام کا آغاز کیا۔ اُن کے چند ڈراموں میں ’’غرور‘‘،’’تین بٹا تین‘‘، ’’رنجش‘‘،’’جنوں میں جتنی بھی گزری‘‘،’’مجھے جینے دو‘‘،’’محبت صبح کا ستارہ ہے‘‘،’’تارِ عنکبوت‘‘ اور ’’التجا‘‘ شامل ہیں۔ اسٹیج اور فلم میں بھی کام کیا۔ علی طاہر ایک شان دار ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ’’رنگ‘‘، ’’سمجھوتا ایکسپریس‘‘ ، ’’موہنی مینشن کی سینڈریلائیں‘‘ اور ’’تاج کلاسِکس‘‘ کے عنوان سے اپنے نانا کی تحریروں کی ڈرامائی تشکیل کی۔
وجیہہ طاہران کی اہلیہ ہیں۔ ان کی ایک بیٹی بھی ہے، جس کا نام الوینہ طاہرہے۔ وہ اے لیول کررہی ہے اور گٹار بجانے سے دل چسپی رکھتی ہے۔ علی طاہر کے بڑے بھائی مہران طاہر کی فیلڈ نسبتاً الگ ہے، مگر وہ رائٹر، ریسرچر بھی ہیں، جب کہ سب سے بڑے بھائی فاران ہارون طاہر باقاعدہ طور پر اداکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں،تاہم وہ ہالی وڈ کی ٹیلی ویژن سیریز اور فلموں کو ترجیح دیتے ہیں اور اُن کی شناخت کا ذریعہ بھی وہی ٹی وی سیریز اور فلمیں ہیں۔ ان کی شناخت بننے والے دو اہم کردار ’’آئرن مین‘‘ کا رضا اور ’’اسٹار ٹریک‘‘ کا کیپٹن روبو ہیں۔
سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی روشن خیالی سے شروع ہونے والا سفر، نسل در نسل آج بھی جاری ہے اور یوں یہ خانوادہ علم و ادب اور آرٹ کی دنیا میں ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہا ہے۔