• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ پاکستان اور امریکا افغانستان کے معاملے پر ایک صفحے پر ہیں‘‘، یہ اعلان امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیرِ اعظم، عمران خان نے ڈیوس میں عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ تجارتی کانفرنس کے موقعے پر ہونے والی اِس ملاقات کے بعد رہنمائوں کا یہ اعتراف اس جانب واضح اشارہ ہے کہ افغان امن معاہدہ اب دِنوں کی بات ہے۔ اسی کے ساتھ صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ’’ پاکستان اور امریکا آج جتنے قریب ہیں، پہلے کبھی نہ تھے،‘‘ ایک طرف دِل چسپ ہے، تو دوسری طرف اسے بڑی اور اہم پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ 

وگرنہ اس سے قبل تو دونوں مُمالک کے رہنما اور ماہرین یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ’’ پاک، امریکا تعلقات انتہائی خراب ہیں، دونوں میں اعتماد کا فقدان ہے، جسے بحال کرنے میں عرصہ درکار ہوگا۔‘‘ دونوں مُمالک کے لیے، جو تقریبا ستّر سال سے ایک دوسرے کے اتحادی رہنے کے باوجود اونچ نیچ سے گزرتے رہے، اتنے قریب ہونے کی نوید یقینًا بہت اچھی خبر ہے۔ 

اسی کے ساتھ حالیہ دنوں میں کئی دوسرے معاملات بھی دنیا، خطّے اور ہمارے لیے اہم رہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ اور اُس سے نکلنے کی حکومتی کوششیں، ایران میں مسافر طیارے کی تباہی، تہران کا نیوکلیر معاہدے کی شرائط عملًا معطّل کرنے اور یورینیم افزودگی کا اعلان.

جوابًا یورپی ممالک کی معاہدے کی خلاف ورزی پر عالمی فورم پر باقاعدہ شکایت، صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کا آغاز، بہ ظاہر تو یہ سب معاملات الگ الگ ہیں، لیکن کسی نہ کسی طور ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔

23 جنوری کو ایک مرتبہ پھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیرِ اعظم، عمران خان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ یہ گزشتہ جولائی سے اب تک اُن کی تیسری ملاقات تھی۔ 

آخر ایسا کیا ہوا کہ کہاں تو اسلام آباد اور واشنگٹن میں سربراہ سطح پر برسوں ملاقات نہ ہوتی تھی اور کہاں صرف چھے ماہ میں تین مرتبہ ملاقات۔ حیرانی اُس وقت اور بڑھ جاتی ہے، جب صدر ٹرمپ کی وہ دِل آزار ٹویٹ یاد آتی ہے، جس میں پاکستان پر اربوں ڈالرز کی امداد میں خورد بُرد اور بے وفائی کے الزامات لگائے گئے، جس کا ہماری لیڈر شپ کی جانب سے بھرپور جواب دینے کا دعویٰ کیا گیا۔ 

شاید اسی کا نام عالمی سیاست اور سفارت کاری ہے۔بین الاقوامی تعلقات میں دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی، یہ مفادات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ جب ٹرمپ اور عمران خان کے مابین وائٹ ہاوس میں پہلی ملاقات ہوئی، تو اُسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ امریکا ہر حالت میں افغانستان میں امن معاہدے کا خواہش مند ہے اور صدر ٹرمپ اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں گے، جب کہ ایران سے متعلق اُن کی پالیسی سخت ہوتی جائے گی۔ 

افغانستان اور ایران کو ٹرمپ نے اپنی انتخابی خارجہ پالیسی کے لیے اہم سمجھا ہے۔ اسی لیے امریکا نے افغان مسئلے کے حل کے لیے اسلام آباد پر کبھی شدید دبائو، تو کبھی خوش کرنے کی پالیسی اختیار کی۔عمران خان اور ٹرمپ نے بیک وقت کہا کہ دونوں مُلک افغان مسئلے پر ایک پیج پر ہیں، تو اس کا سفارتی زبان میں یہی مطلب لیا گیا کہ پاکستان نے مذاکرات کی کام یابی کے لیے امریکی مطالبات پورے کر دیے ہیں۔ اس کا برملا اعتراف شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں کیا۔ 

ملاقات سے قبل وزیرِ خارجہ واشنگٹن میں تھے، جب کہ امریکی وزیر برائے جنوبی ایشیا، ایلس ویلز اس کے فوراً بعد اسلام آباد پہنچیں۔ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ طالبان اور امریکا میں نہ صرف معاہدہ ہونے والا ہے، بلکہ’’ انٹرا افغان ڈائیلاگ‘‘ کی شرائط بھی طے ہوچُکی ہیں۔ افغانستان میں امن یقینًا دنیا کے لیے نیک شگون ہی نہیں، بلکہ علاقائی ترقّی میں بھی اہم ثابت ہوگا۔ 

ساتھ ہی یہ چین کے سی پیک منصوبے کے لیے بھی بہتر ماحول فراہم کرسکے گا۔ اسی لیے چین اور روس اس عمل کا حصّہ رہے، بلکہ وہ مذاکرات کی میزبانی بھی کرتے رہے۔ لہٰذا،یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ افغان امن معاہدے پر تمام عالمی اور علاقائی کھلاڑی ایک پیج پر ہیں۔

صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا کے سامنے ایک مرتبہ پھر کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی۔ وہ یہ پیش کش ہر سربراہ ملاقات میں اعلانیہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی عمران خان کو ایک اچھا دوست بھی قرار دیتے ہیں، تاہم اس کے باوجود کشمیر پر، جسے پاکستان اپنا سب سے ترجیحی معاملہ مانتا ہے، کوئی عملی پیش رفت سامنے نہ آسکی۔ 

وادی میں لاک ڈائون اور پابندیاں برقرار ہیں، لیکن ٹرمپ، مودی کے سامنے بے بس ہیں ۔یاد رہے، واشنگٹن پہلے ہی افغانستان میں بھارت کا اہم کردار تسلیم کرتا ہے، جس پر پاکستان کے شدید تحفّظات ہیں۔ 

عمران خان نے ٹرمپ سے پھر کہا کہ وہ بھارت سے معاملات طے کروانے میں مدد کریں۔ اگلے ماہ ٹرمپ کا دورۂ بھارت متوقّع ہے، کیا اُس میں پاکستان کی بات ہوسکے گی، یہ دیکھنا ہوگا۔ لیکن ماہرین اس طرف بھی توجّہ دِلاتے ہیں کہ کشیدگی کم کرنے میں تو امریکا کردار ادا کر سکتا ہے، تاہم شملہ معاہدے کے بعد پاک، بھارت تعلقات کی بحالی دوطرفہ مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔

بھارت نے ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی تازہ پیش کش بھی اسی طرح فورا رَد کردی، جیسے وہ پہلے دو بار کرچُکا ہے۔ عمران خان اور اُن کی حکومت نے ڈیوس کانفرنس سے پہلے نریندر مودی اور اُن کی پالیسیز پر جس قسم کی تنقید کی( ڈیوس میں بھی کہا کہ وہ تباہی کے راستے پر جارہے ہیں )اس کے بعد ماحول دوطرفہ سربراہ ملاقات کے لیے کتنا بہتر ہوا، یہ خود عمران خان ہی بتاسکتے ہیں۔

 تاہم، ذرا سی تبدیلی یہ آئی کہ اُنہوں نے ایک اور فورم پر کہا’’ بھارت سے جنگ کا فوری خطرہ نہیں‘‘، جب کہ اس سے قبل بار بار بھارتی فوجی مہم جوئی کا ذکر کیا جارہا تھا۔ ناقدین پوچھتے ہیں، کیا یہ ٹرمپ کی جانب سے کسی تجویز کے بعد ہوا؟

پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر ہے اور اُس سے نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔جب ڈیوس میں امریکا اور پاکستان کے رہنما ملاقات کر رہے تھے، اُسی وقت اسلام آباد، بیجنگ میں ایف اے ٹی ایف کمیٹی کے سامنے اپنے کیس کا دفاع کر رہا تھا، جس کی چیئرمین شپ مشترکہ طور پر چین اور بھارت کر رہے تھے۔ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود نے واشنگٹن میں کہا’’ ہم نے امریکا کو کہا ہے کہ وہ گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد کرے۔‘‘ 

اُن کے مطابق ٹرمپ، عمران ملاقات میں یہ درخواست امریکی صدر کے سامنے دُہرائی گئی، جس پر اُنہوں نے اپنے وزیرِ خزانہ کو پاکستان کی اچھے کاموں میں مدد کا کہا۔ 

ایف اے ٹی ایف کے سامنے پاکستان نے دیے گئے ٹاسک پر اپنی پیش رفت کی رپورٹ پیش کی۔ اطلاعات کے مطابق، اس مرتبہ یورپی ممالک اور امریکا کی جانب سے زیادہ سخت سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اس لیے توقّع ہے کہ اس مرتبہ نہیں، تو آئندہ ووٹنگ پاکستان کے حق میں جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، عمران خان نے ڈیوس فورم کی تقریر میں ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ’’ اُن کے علاوہ ماضی کی تمام حکومتیں کرپٹ تھیں، دنیا سے جھوٹے وعدے کرتی تھیں، کرپشن ہی فوج سے اُن حکومتوں کی کشیدگی کی وجہ تھی، حکم رانوں نے ذاتی مفاد کے لیے قومی ادارے تباہ کیے، بڑے بڑے منصوبوں میں کمیشن لی، معیشت کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیا۔‘‘ 

وہ میڈیا پر بھی برسے کہ اُس نے اُن کی معاشی اصلاحات پر شدید حملے کیے۔ یہ اپوزیشن کے خلاف ایک خوف ناک چارج شیٹ تھی، جو عمران خان نے دنیا کے سامنے رکھی، اگر اس کے باوجود بھی کسی کا حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت پر اصرار ہے، تو وہی اس کا بہتر جواز دے سکتا ہے۔ 

نیز، اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر افغان وار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ پاکستان 1980 ء میں افغان جہاد کا حصّہ بنا اور افغانستان کو روس سے آزادی دِلانے کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔ ہم نے گوریلا سرگرمیوں کے لیے انتہا پسند گروپس کو تربیت دی۔‘‘ 

پھر اپنی حکومت کی کارکردگی بتاتے ہوئے کہا’’ 2019 ء پاکستان کا محفوظ ترین اور امن کا سال تھا۔‘‘ اُنھوں نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ’’ پی ٹی آئی حکومت کو فوج سمیت تمام اداروں کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ ساتھ یہ بھی اعتراف کیا کہ موجودہ حکومت کو گڈ گورنینس کے چیلنج کا سامنا ہے۔ 

ناقدین کا کہنا ہے کہ کسی بھی مُلک میں حکومت کا سربراہ ہی گورنینس کا ذمّے دار ہوتا ہے،لہٰذا اگر اٹھارہ ماہ کی حکم رانی اور تمام اداروں کی حمایت کے باوجود بھی گُڈ گورنینس نہ آسکی اور عوام مطمئن نہیں، تو اس صُورتِ حال کا ذمّے دار کسے قرار دیا جائے؟ 

پھر سوال یہ بھی ہے کہ عالمی فورمز پر ساری دنیا کے سامنے اس نوعیت کے اعترافات اور اپوزیشن کو چارج شیٹ کرنے سے کیا قومی فوائد حاصل ہوں گے؟ کیا یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ ان سے پہلے اور بعد میں کوئی حکومت چلانے کے قابل نہیں۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ایسا ہی ہے، تو پھر عالمی برادری پاکستان میں لانگ ٹرم سرمایہ کاری پر کیوں کر راضی ہو گی؟

ڈیوس کانفرنس سے تین ہفتے قبل جنرل سلیمانی کی ہلاکت نے امریکا، ایران کشیدگی میں اضافہ کیا۔ اس ضمن میں عمران خان کا کہنا تھا کہ’’ ہم نے امریکا، سعودی عرب اور ایران کو بتا دیا کہ جنگ ہمارے لیے مُہلک ہوگی۔ امن و استحکام کے بغیر معیشت ترقّی نہیں کرسکتی۔‘‘ 

سوال یہ ہے کہ کیا ایران اور امریکا ہم سے پوچھ کر مشرقِ وسطیٰ کی پالیسیز مرتّب کرتے رہے ہیں یا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اُن پر اثرانداز ہوسکیں؟ ایران نے شامی خانہ جنگی میں روس کے ساتھ مل کر صدر اسد کی حمایت میں فوجی مداخلت کی۔ لاکھوں شامی مسلمان شہری جاں بحق اور اَن گنت مہاجر بنے۔ عراق میں جس قسم کے مظاہرے حکومت اور اس کے سرپرستوں کے خلاف ہو رہے ہیں، کیا یہ بتانے کے لیے کافی نہیں کہ وہاں کے عوام کس حد تک مطمئن ہیں؟ 

یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے، کیا اس پر فریقین نے ہمیں اعتماد میں لیا تھا؟ نیک خواہشات بہت خُوب، لیکن کیا ہمارا یہ کردار نتیجہ خیز ثابت ہوگا یا ہم مفت مشوروں میں اپنا وقت صَرف کرتے رہیں گے۔ 

کیا مُلکی معیشت اس اَمر کا تقاضا نہیں کرتی کہ ساری توانائیاں اسی پر مرکوز کردی جائیں اور فعال خارجہ پالیسی کسی اچھے وقت کے لیے رکھ چھوڑیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں چین اور روس جیسی بڑی طاقتیں خاموش تماشائی ہیں، جب کہ اُن کا اقتصادی وزن کون محسوس نہیں کرتا، ہمیں بھی اُن سے سبق سیکھنا چاہیے۔

تہران ائیرپورٹ پر یوکرین کے طیارے کی تباہی، جس میں موجود تمام 176 مسافر ہلاک ہوگئے، ایران کے لیے مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنی۔ 

ایرانی حکومت اور پاسدارانِ انقلاب نے اعتراف کیا کہ یہ سانحہ اُس کے اہل کار کی غلطی سے ہوا۔ ایرانی حکّام نے حادثے کے پہلے تین روز تک طیارے کی تباہی کو تیکنیکی خرابی بتایا۔ بعدازاں، کینیڈا کے وزیر اعظم کی جانب سے جہاز کو میزائل سے نشانہ بنانے کے انکشاف کے بعد تہران نے غلطی کی ہامی بھری۔ 

ہلاک ہونے والے مسافروں میں ایک سو سے زاید کا تعلق خود ایران سے ہے، یہ دُہری شہریت کے حامل طلبہ تھے، جو کینیڈا کے لیے روانہ ہوئے، جب کہ کینیڈا، برطانیہ، افغانستان اور جرمنی کے مسافر بھی طیارے میں سوار تھے۔ 

گو ان ممالک نے ایران کے اعتراف کو ایک مثبت قدم کہا، لیکن ساتھ ہی اس سے مکمل تحقیقات اور معاوضے کا مطالبہ بھی کیا۔ نیز، تہران میں بھی ایرانی طلبہ اور عوام کی طرف سے مظاہرے ہوئے، جس میں حکومت پر تنقید کی گئی۔ 

اسی لیے صدر روحانی نے تحقیقاتی کمیشن بناتے وقت قوم سے خطاب میں کہا’’ دنیا اور خود ایرانی عوام اس کی شفّافیت دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ایک اور معاملہ بھی ایران کے لیے مشکلات کا سبب بن چُکا ہے۔ 

تہران نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اعلان کیا کہ وہ نیوکلیر ڈیل کی شرائط کے مطابق اب یورینیم افزودگی کی پابندی نہیں کرے گا اور اپنی مرضی سے اُسے استعمال کرے گا۔‘‘ جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اس اعلان کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے باقاعدہ عالمی فورم پر شکایت درج کروا دی۔ 

ایران نے اس اقدام کو یورپی مُمالک پر امریکی دبائو کا نتیجہ قرار دیا۔ یاد رہے، گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے امریکا کی جانب سے نیوکلیر ڈیل سے علیٰحدگی کا اعلان کیا، تاہم یورپی مُمالک، روس اور چین ایران کے ساتھ رہے۔ 

اب یورپ کے تہران پر الزامات کے بعد نیوکلیر ڈیل کی افادیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی، اسی لیے برطانیہ کے وزیر اعظم، بورس جانسن نے کہا کہ’’ صدر ٹرمپ کی تجویز کے مطابق ایک نیا معاہدہ عمل میں لایا جائے، جس سے ایران کے نیوکلیر پروگرام کو پابند کیا جاسکے۔‘‘ ایران میں اگلے ماہ پارلیمانی انتخابات ہونے جارہے ہیں، جن میں صدر روحانی اپنے معاشی منشور کی وجہ سے گزشتہ سات سال سے برتری حاصل کرتے آ رہے ہیں۔ 

نیوکلیر ڈیل کو ان کی سفارت کاری کا شاہ کار مانا جاتا ہے۔گو کہ ایرانی قدامت پسندوں نے اس معاملے پر مسلسل تنقید کی، لیکن روحانی کو ایرانی عوام کی تائید حاصل رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس ایٹمی معاہدے کے انجام پر پہنچنے سے عوام میں اُن کی کیا پوزیشن ہوگی۔ یقیناً یہ ایرانی سیاست کا ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔

امریکا میں صدر ٹرمپ کو مواخذے کا سامنا ہے۔ کانگریس نے، جس میں ڈیمو کریٹس کی اکثریت ہے، مواخذے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد سینیٹ بھجوا دی ہے، جہاں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ 

اُمید ہے، کارروائی ایک ماہ میں مکمل ہوجائے گی۔ صدر ٹرمپ پر گزشتہ سال ایک نامعلوم حکومتی اہل کار کے خط میں الزام لگایا گیا کہ اُنہوں نے یوکرین کے صدر سے ٹیلی فونک بات چیت میں جوبائیڈن کے کاروباری معاملات کے خلاف انکوائری کا کہا۔ 

اس سلسلے میں اُنہوں نے یوکرین پر دبائو ڈالا اور امداد روک دی۔اگر جوبائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نام زَد ہوتے ہیں، تو وہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے حریف ہوں گے۔صدر ٹرمپ ان الزامات کو بار بار مسترد کرتے رہے اور اُنھوں نے مواخذے کو شرم ناک کارروائی قرار دیا۔ 

امریکا کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں کبھی کسی منتخب صدر کو مواخذے کے ذریعے نہیں ہٹایا گیا۔ 

دو صدور کو اس طرح کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، اُن میں سے نکسن مواخذے سے قبل ہی مستعفی ہو گئے ، جب کہ بِل کلنٹن بَری کردیے گئے۔ 

ناقدین کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی مواخذے کے ذریعے ہٹانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور عین ممکن ہے کہ اس سے اُنھیں انتخابات میں فائدہ پہنچے، اسی لیے وہ مواخذے کی کارروائی کے لیے خوشی خوشی آمادہ بھی ہوگئے تھے۔

تازہ ترین