• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین چار دہائیاں قبل پڑھا ہوا شعر آج نجانے کیوں بےتحاشا یاد آنے لگا، پہلے شعر پڑھ لیجئے پھر بپتا کی طرف آتے ہیں۔

تیری زلفوں میں گھر گیا آخر

ذرے کو آفتاب ہونا تھا

کچھ تیری نگاہ کافر تھی

کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا

مطلب یہ کہ کافر نگاہ ہمیشہ خرابی کا باعث بنتی ہے اور دل میں امنگوں کے آتش دان کو بھڑکا دیتی ہے۔

سارا قصور نگاہ یا آنکھ کا نہیں ہوتا کیونکہ فتور دل میں پیدا ہوتا ہے۔ آنکھ فقط دیکھتی ہے اور پیغام رسانی کا کام کرتی ہے۔ اگر کسی کو گلستان میں کھلے ہوئے تازہ پھول خزاں رسیدہ لگیں اور گلاب کے جوبن کی سرخی پھیکی پھیکی یا زردی مائل نظر آنے لگے تو یہ دل کا کارنامہ ہے جو آنکھ کو ’’اصل‘‘ کے بجائے نقل دکھا رہا ہے اور حقیقت کے بجائے افسانہ دکھا رہا ہے۔

مطلب یہ کہ خواہشات آنکھ کو متاثر کرتی ہیں اور رنگین خواہشات بےرنگ کو بھی رنگدار بنا دیتی ہیں۔ کوئی دس برس قبل کی بات ہے کہ پاکستان میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس مقصد کیلئے بارہ، تیرہ، چودہ برس کے بچوں کو استعمال کیا جانے لگا۔

ان بچوں کی برین واشنگ کچھ اس طرح سے کی جاتی تھی جیسے وہ مقدس مشن پہ جا رہے ہیں اور انہیں مِس گائیڈ کیا جاتا تھا کہ اس نیک کام کا اجر جنت الفردوس ہے، جہاں خوبصورت ترین حوریں ان کی منتظر ہوں گی۔ ایک بار دو لڑکوں کو اس مشن پہ بھیجا گیا، ایک نے اپنے آپ کو بارود سے اڑا لیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہو کر اسپتال پہنچ گیا۔

کچھ دنوں کے بعد جب وہ لڑکا کسی قابل ہوا تو اسے اینٹی ٹیررازم (انسدادِ دہشت گردی) سیل میں لایا گیا۔ ماہرین نے سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا تو ’’حق گو‘‘ لڑکے نے بتایا کہ جب دو دن کے بعد اسپتال میں اس کی آنکھ کھلی اور اس نے نرسوں کو دیکھا تو وہ سمجھا کہ میں اپنے مشن کی تکمیل کرکے جنت میں پہنچ چکا ہوں اور یہ حوریں ہیں جو اس کا دل بہلانے کیلیے موجود ہیں۔

وہ چند منٹ جاگتی آنکھوں کے ذریعے یہی خواب دیکھتا رہا لیکن جب نرس نے اسے ٹیکہ لگایا تو وہ خواب کے فریب سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آگیا۔ بعض ٹیکے نرسوں کو حوریں اور بعض حوروں کو نرسیں بنا دیتے ہیں، یہ سب ذہن کا چکر ہے۔ پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ وہ اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

انسدادِ دہشت گردی سیل کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ خودکش بمبار کی برین واشنگ کچھ اس طرح سے کی جاتی تھی کہ حوریں ان کے دل ودماغ میں جاگزین ہو جاتی تھیں، انہیں جنت کا یقین دلا دیا جاتا تھا اور ظاہری آنکھوں پر اس حسن کے فریب کا جادو کر دیا جاتا تھا جو آنکھ کھلنے پر عام سی نرسوں کو بھوری آنکھوں والی حسین ترین حوریں سمجھنے لگتا تھا بلکہ یوں کہئے کہ اسے نرسوں کے عامیانہ چہروں پر حوروں کا گمان ہوتا تھا کیونکہ حوریں دراصل اس کے دل پہ قابض ہوتی تھیں۔

بقول ایک عربی شاعر کہ جب لیلیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو میرے دل کی کیفیت بدل جاتی ہے اور لیلیٰ میری آنکھوں کے سامنے اپنے حسن کے جلوے دکھانا شروع کر دیتی ہے۔ شاید مجاز کی وہ غزل آپ نے بھی پڑھی ہو گی، موت سے کچھ لمحے قبل روح قبض کرنے والا فرشتہ موجود ہے۔

شاعر سے کہتا ہے کہ آئو اب میرے ساتھ چلو۔ اتنے میں موسم نہایت سہانا ہو جاتا ہے اور چپکے سے کوئی بوتل آگے بڑھا دیتا ہے۔ چسکی لگاتے ہی شاعر رنگین خوابوں کے محلات میں کھو جاتا ہے اور فرشتے سے کہتا ہے کہ ایسے دوچار محل اور بنالوں تو چلوں۔

ابھی چلتا ہوں ذرا خود کو سنبھالوں تو چلوں۔ جن آنکھوں پر دنیاوی خواہشات اور نفسانی جذبات کا پردۂ فریب پڑا ہو وہ آنکھیں زندگی کے انجام تک فریبِ آرزو میں مگن رہتی ہیں اور نفسانی خواہشات کو حقیقت کا لباس پہنا کر دیکھتی ہیں حالانکہ یہ سب نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔

گویا فتور دل کا ہوتا ہے جو تشنہ آرزوئوں اور خوابی خواہشات کو فلم کی صورت نگاہوں کےسامنے پھیلا دیتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں آنکھیں یا نگاہیں دل کے تابع ہوتی ہیں۔ دل اگر حوروں کا مسکن ہے تو آنکھیں عام سے چہروں کو بھی حوریں بنا کر دکھا دیتی ہیں۔

کوئی ایک صدی قبل اقبالؔ نے جاوید اقبال کو لکھا تھا؎

خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بےداغ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ اقبالؔ کا دور تو خاصا حیادار تھا۔ اقبالؔ زندہ ہوتے تو آج کے دور بارے نجانے کیا لکھتے۔

اب تو یہ عالم ہے کہ عاشقِ نامراد باقاعدہ اپنی محبت کا اعلان کرتے ہیں بلکہ اشتہار دیتے ہیں۔ چوری چھپے ملنے کے بجائے برملا اپنی خواہشات کی تشہیر کرتے ہیں۔

کیسا دور آگیا ہے کہ حیا کی علامت خواتین اپنی پسندیدہ شخصیات کو کرشماتی شخصیات قرار دیتی اور ان کی آنکھوں کی مسکراہٹ کے جادو پہ مرمٹنے کا اعلان کرتی ہیں جبکہ اقبالؔ کے دور میں مسلمان خواتین کی اکثریت باپردہ ہوتی تھی اور کسی غیر مرد پر نگاہ غلط ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

مغربی تہذیب کی آمد اور دیدارِ عام کی پیش گوئی بھی اقبال نے کی تھی اور آج اس پیش گوئی کے سچ کا جادو سر پہ چڑھ کر بول رہا ہے۔

درست کہ حیا آنکھ کا پردہ ہوتی ہے لیکن جب دل میں فتور کا طوفان برپا ہو تو آنکھ کا پردہ بیکار ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ سارا قصور دل کا ہوتا ہے جہاں نفسانی خواہشات کا بھانبڑ جلتا ہے جو آنکھ اور زبان کے حیا کو بھی جلا کر رکھ دیتا ہے، اس لیے آنکھ کو پاک وصاف رکھنے کے لیے دل کو پاک و صاف رکھنا ضروری ہے۔

یہ ہے دل کا فتور، اس میں نہیں آنکھوں کا قصور

تازہ ترین