• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر طرزِ معاشرت میں محبتوں کے اظہار اور رشتوں کے برتاؤ کا اپنا اپنا منفرد انداز ہوتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں رسم و رواج اور تہواروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے کیونکہ ان رسم و رواج اور تہواروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی نظریہ یا مقصد بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کرسمس کے بعد دوسرا بڑا تہوار امریکہ اور مغربی ممالک میں مدر ڈے ہے جو کہ کمرشلائزڈ ھائی ڈے کی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ رواج کسی زمانے میں بہت سادگی سے منایا جاتا تھا اور صرف ایک کارڈ یا فون کال یا چاکلیٹ اور تھوڑے سے پھول ماں سے محبت کے اظہار کے لئے کافی تھے لیکن برطانوی سوسائٹی میں بھی دن بدن مادہ پرستی اور تعیشات زندگی کا رواج زور پکڑتا جارہا ہے۔ اب مدر ڈے پر ماؤں کو مہنگے تحائف دے کر خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ریستوران پر اہتمام ڈنرز اس خاص دن کی ماؤں کے لئے بہت اہم بنا دیتے ہیں۔مغرب میں ماؤں کو ایک خاص دن پر خراج پیش کرنے کی یہ روایت بہت پرانی ہے گو کہ اس رواج کا آغاز امریکہ سے ہوا لیکن زیادہ تر تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ مدرنگ سنڈے کا رواج سولہویں صدی عیسوی میں عام ہوچکا تھا۔ لیٹر سنڈے پر چرچ میں سالانہ مذہبی جلسے کا انعقاد ہوتا اور اس مذہبی روایت کی بدولت ایسے موقع پر بیگار اور غلامی میں لی گئی ماؤں کے مالکان انہیں آزاد کر دیتے تھے اور اس طرح ان ماؤں کو اپنے بچوں کے ساتھ دوبارہ اکھٹے رہنے کی آزادی مل جاتی تھی۔ لیکن انگلستان میں مدر ڈے کا رواج انیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی فوجیوں کے ذریعے پہنچا اور مدر ڈے کے اس تہوار کو مدرنگ سنڈے کے ساتھ یکجا کرکے منایا جانے لگا۔ماؤں کا عالمی دن دنیا کے مختلف حصوں میں الگ الگ دنوں اور تاریخوں میں منایا جاتا ہے لیکن زیادہ تر ممالک امریکی مدر ڈے کی تقلید کرتے ہوئے مئی کے دوسرے اتوار کو اس تہوار یا خاص دن کے لئے ترجیح دیتے ہیں جن میں آسٹریلیا، بلجیم، اٹلی، جرمنی، ڈنمارک، فن لینڈ، برازیل، کینیڈا، چیک ری پبلک، گریک، نیوزی لینڈ، انڈیا، جاپان، سری لنکا، تائیوان اور ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ روس اور سابقہ کمیونسٹ علاقے مشرقے جرمنی وغیرہ میں مدر ڈے کی جگہ اس دن کو عالمی یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔اینا جاروس وہ امریکی خاتون تھی جو خود تو بے اولاد تھی لیکن اس نے دنیا کو ماؤں کے عالمی دن کی اہمت سے متعارف کرایا اور اس کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ دن امریکہ میں منائے جانے کا رواج عام ہوا۔ لیکن اینا جاروس سے بھی پہلے 1870ء میں مشہور امریکی سوشل ایکٹیوسٹ اور شاعرہ و ادیبہ جولیا وارڈ ہوونے ”مدر ڈے فار پیس“ میں اس تصور کو اجاگر کیا تھا اور تمام دنیا کی ماؤں کو امن کا پیغام عام کرنے کی دعوت دی تھی۔ اس طرح اگر تاریخی شواہد کو سامنے رکھ کر اس دن کی اہمیت کی طرف توجہ دیں تو اس رواج یا تہوار کے پیچھے امن کا عالمگیر فلسفہ بھی کارفرما نظر آتا ہے۔
آج دنیا میں امن و امان کی خوبصورت حال ہے ا سے مدر ڈے کا بانی امریکہ بھی خوب واقف ہے۔ نہ جانے کتنی ماؤں کی گودیں خالی ہوچکی ہیں۔ کتنے معصوم بچوں نے اپنی ماؤں کئے جسموں کے ٹکڑے بموں کے دھماکوں اور ڈرون حملوں کے ملبوں میں بکھرتے دیکھے ہیں۔ جارحیت، تسلط پسندی، ملک گیری اور دہشت گردی کی آگ میں بستیاں جل کر راکھ ہو رہی ہیں اور جولیا وارڈ ہووکی (Battle Hymn of the Vepublic) کا نغمہ سننے والا کوئی نہیں۔ ”مدر ڈے فار پیس“ یا ”ماؤں کے امن کا دن“ نہ جانے کب طلوع ہوگا؟
تازہ ترین