ملک میں اس وقت گندم کا شدید بحران ہے اور روٹی کا نوالہ غریب عوام کی رسائی سے دورہوتا جارہا ہے، لیکن اس کی اصل وجوہات سے عوام کو لاعلم رکھا جارہا ہے۔اس بات کو تقویت اس خبرسے بھی ملتی ہے کہ چند روز قبل محکمہ خوراک جیکب آباد کے ضلعی افسر، ڈی ایف سی روشن شیخ کی جانب سے محکمہ اینٹی کرپشن سندھ میں دائر کی گئی ایک درخواست پرکارروائی کرتے ہوئے اینٹی کرپشن جیکب آباد کی ٹیم نے سرکل آفیسر اور سول جج گڑھی خیرو کی زیرِ نگرانی گڑھی خیرو میں اسٹیشن روڈ پر محکمہ خوراک کے گوداموں پرجب چھاپہ مارا تو وہاں ایک لاکھ سے زائد گندم سے بھری بوریاں غائب ہونے کا انکشاف ہوا۔ اس انکشاف کے بعد محکمہ خوراک کے افسران میں کھلبلی مچ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق اسی طرح تعلقہ ٹھل سمیت ضلع جیکب آباد کے دیگر گوداموں سے بھی ہزاروں کی تعداد میں گندم سے بھری بوریاں غائب ہیں جن کی مجموعی طور پر قیمت ڈیڑھ ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ چھاپے کے دوران ایک اور خوف ناک انکشاف اس وقت ہوا جب اینٹی کرپشن ٹیم کے چھاپے کی اطلاع ملنے پر میڈیا کے نمائندوں کی جانب سےمحکمہ خوراک کےگوداموں کا تفصیلی معائنہ کیا گیا تو اس دوران وہاں رکھی ہوئی باقی ماندہ بوریوں میں سے زیادہ تر میں گندم کی جگہ مٹی، پتھر اور کوڑا کرکٹ بھرا ہواتھا۔ واضح شواہد ملنے کے باوجود ڈی ایف سی جیکب آباد کے ساتھ ساتھ اینٹی کرپشن حکام بھی دیدہ دانستہ اس کوڑا کرکٹ کےڈھیر کو گندم کی بوریاں ثابت کرنے پر مصر نظر آئے، جس پر وہاں موجودعینی شاہدین نے بھی حیرت کا اظہار کیا۔
محکمہ خوراک کےباوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ گندم کی مذکورہ بوریاں محکمہ خوراک کے فوڈ انسپکٹرز، ضلعی افسران اورحکام بالاکی مبینہ ملی بھگت سے غائب ہوئی ہیںجس کی وجہ سے نہ صرف ملکی خرانے کوکھربوںروپے کا نقصان پہنچایا گیا بلکہ ملک میں گندم کا بحران بھی پیدا ہواور یہ طریقہ کار پورے ملک میں دہرایا گیا ہے جس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات بہت ضروری ہیں۔
ذرائع کے مطابق چھان بین کے دوران ڈی ایف سی جیکب آباد روشن پہنور، کرپشن کے اس میگا اسکینڈل کا سارا ملبہ فوڈ انسپکٹر اور دیگر چھوٹے ملازمین کے اوپر ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے نظر آئے۔یہاں پر ایک اور عجیب منطق دیکھنے میں آئی کہ جن افسران کے خلاف اتنی بڑی کرپشن پر کارروائی ہونا چاہیے ، وہ خود ہی اس معاملے میں فریادی بنے ہوئے ہیں۔
محکمہ خوراک کے اندرموجود باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں گندم کی بوریاں غائب ہونے کا یہ معاملہ نہ تو اتنا سادہ ہے کہ کوئی سمجھ سکے اور نہ ہی حالیہ دنوں کی واردات لگتاہے جب کہ یہ نچلے درجے کے ملازمین کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ ہر سال صوبائی حکومت گندم کے سیزن کے دوران خریداری کا جوہدف مقرر کرتی ہے، وہ باردانے کی تقسیم کی حد تک محدود ہوتا ہے، جب کہ باردانے کی تقسیم میں بھی وسیع پیمانے پر خور د بردکی جاتی ہے ۔
محکمہ خوراک کے مقامی افسران اعلیٰ حکام اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی ملی بھگت سے مبینہ طور سے جعلسازی کے ذریعے فرضی بل بنا کر گندم خریدے بغیر ہی ہدف پورا دکھایا جاتا ہے یا پھر گوداموں کے درمیانی حصوں میں مٹی اور بھوسے سے بھری ہوئی بوریاں رکھنے کے بعد صرف باہر والی سائیڈ سے گندم سے بھری بوریاں لگا کر اسٹاک برابر دکھا کر ہر سال قومی خزانے کو اربوں روپے کانقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اگر اس معاملے پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کیاجائے تو صوبے کے تمام گوداموں سے کھربوں روپے مالیت گندم کے ذخائر خورد بردہونے کے ثبوت ملیںگے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گندم کےسیزن کے دوران فوڈ انسپکٹرز اور سینٹر انچارجز کی تقرری مبینہ طور پر لاکھوں روپے رشوت کی ادائیگی کے عیوض ہوتی ہے۔’’عجب کرپشن کی غضب کہانی ‘‘کبھی بھی منظر عام پر نہیں آتی ہے۔ جانے یا انجانے میں صوبائی حکومت نے صوبے بھر کے گوداموں میں گندم کے ذخائر کی وافر مقدار میں موجودگی کا جوازبتا کر سال 2019 کے سیزن میں گندم خریداری کاہدف مقرر کیا اور نہ ہی خریداری سینٹر قائم کیےگئے، جس کے باعث رواں سال محکمہ خوراک کی جانب سے گوداموں سے کوٹہ سسٹم کے تحت فلور ملز اور آٹا چکیوں کو ضرورت کے مطابق گندم کی فراہمی کے دوران مختلف گوداموں میں محکمہ خوراک کے فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق گندم کی عدم موجودگی کا معاملہ سامنے آیا۔
فلور ملز کو ضرورت کے مطابق گندم کی فراہمی نہ ہونےاور گندم کی قلت کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث جب حکومتی حلقوں کی جانب سے کچھ علاقوں میں سرکاری گوداموں میں موجود اسٹاکس کی چھان بین شروع کی گئی، تو ریکارڈ اور گراؤنڈ لیول پر موجود گندم کے ذخائر میں بڑے پیمانے پر فرق ظاہر ہونے پر حیرانی میں مبتلا ہو گئے۔ اسی وجہ سے حکام بالا نے مستقبل میں اپنے خلاف امکانی طور پر ہونے والی تحقیقات یا نیب کارروائی سے بچنے کے لیے سارا الزام چھوٹے ملازمین پر عائد کرنے ہی میںعافیت محسوس کی مگر بدقسمتی سے نیب آرڈیننس میں ہونے والی حالیہ ترامیم اور 50 کروڑ سے کم رقم کی خورد بردکی تحقیقات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کے بعد افسران اور حکومتی عہدیداروں کے اندر موجود احتساب کے عمل کے خوف کوبھی ختم کردیا ہے۔
دوسری جانب محکمہ اینٹی کرپشن صوبائی حکومت کے ماتحت ہونے اور اس کی تمام کارروائیاں صرف دکھاوے کی حد تک محدود ہونے کے باعث عوامی حلقوں میں یہ تاثر تقوت پا رہا ہے کہ بعض افسران، نیب ،ایف آئی اے یا دیگر وفاقی تحقیقاتی اداروں کی ممکنہ کارروائیوںسے بچنے کے لیے خود ہی اینٹی کرپشن کو درخواست دے کررسمی طور پر تحقیقات کے بعد شواہد نہ ملنے کا تاثر دے کر کرپشن اسکینڈلز سے باعزت بری ہونے کی کلین چٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کرپشن کے خاتمے کے لیے بنائے گئے ادارے ہی مبینہ طور پر کرپشن میں سہولت کار کا کردار ادا کریں گے تو پھر اس ملک میں احتساب اور انصاف کی فراہمی کیوں کر ممکن ہوگی؟