• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جڑ سے بیماری ختم کرنے والے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی اہمیت اجاگر کی جائے، میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کا سیمینار

 لاہور (رپورٹ: وردہ طارق) ہومیوپیتھک میڈیسن ایک قدیم طریقہ علاج ہے اس کی ادویات ہر ایک کے لئے فائدہ مند ہیں۔ اس میں بیماری کی جڑ کو ختم کرنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اب ہومیوپیتھی کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی مل رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اس کی اہمیت سے واقف ہو رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج کی اہمیت اجاگر کی جائے ۔ ان خیالا ت کا اظہار مقررین نے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی اور پاکستان ہومیوپیتھک میڈیکل کالج ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر کے زیر اہتمام ہونے والے خصوصی سیمینار بعنوان ہومیوپیتھک قدرتی طریقہ علاج میں جدید تحقیق و آگاہی اور انٹرنیشنل ریسرچ جرنل کا افتتاح میں کیا۔ سیمینار میں حرف آغاز ڈاکٹر محمد زبیر قریشی نے پیش کیا۔ اس کے علاوہ ماہرین کے پینل میں ہیڈ آف فارما سیوٹکس کا لج آف فارمیسی یونیورسٹی آف پنجاب لاہور ڈاکٹر سید عاطف رضا، پرنسپل یو سی سی ایم ، آئی یو بی ڈاکٹر حافظ محمد آصف، ڈاکٹر آف فارمیسی ڈاکٹر حمیرا مجید، ڈپٹی سیکرٹری محکمہ صحت حکومت پنجاب ڈاکٹر شاہد، ڈین آف فارمیسی یونیورسٹی آف لاہور پروفیسر ڈاکٹر سیدالحسن، پروفیسر ہمایوں ریاض، ڈاکٹر جاوید اختر، ڈاکٹر عبدالمغیز، ڈاکٹر طارق خان، پرنسپل کالج آف فارمیسی پنجاب یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین شامل تھے۔ میزبانی کے فرائض چیئرمین میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی واصف ناگی نے سرانجام دیئے۔ تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبولؐ کی سعادت محمد خلیق حامد نے حاصل کی۔ ڈاکٹر محمد زبیر قریشی نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے ہومیوپیتھک شعبے کو اتنی سرپرستی نہیں دی جس کی وجہ سے یہ بین الاقوامی سطح پر اپنی افادیت اجاگر نہیں کرسکا۔ ڈبلیو ایچ او کی 2013-2018 کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی متبادل دوا استعمال کرتی ہے اور حال ہی میں افغانستان میں ان کے صدر نے ہدایت جاری کی ہے کہ اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا جائے گا۔ اب اس کی ایچ ای سی سے تصدیق شدہ ڈگری بھی ملتی ہے۔ انہو ں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے ہم وسائل پیدا کر سکتے ہیں مگر ضرورت اس امرکی ہے کہ اس کو ایک شعبے کے طور پر اجاگر کیا جائے۔ اب تو دنیا بھر میں آلٹرنیٹو میڈیسن پروموٹ ہو رہی ہے۔ ڈریپ کی جانب سے اس حوالے سے گائیڈ لائنز ترتیب دی جائیں۔ 1961 میں ڈاکٹر محمد مسعود نے یہ پہلا تعلیمی ادارہ قائم کیا اور یہ ہومیوپیتھک کی تعلیم کا پہلا کالج تھا۔ اب اس میں ریسرچ سنٹر بھی ہے۔ اس وقت ملائشیا میں زیادہ تر ہومیوپیتھک ڈاکٹر یہاں کے ہی ہیں۔ سری لنکا میں 200 کے قریب ہومیوپیتھک ڈاکٹرز ہیں جس میں 50کے قریب پاکستانی ہیں۔ ہمارے پاس ریسرچر، ذرائع، وسائل سب موجود ہیں صرف حکومتی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر سید عاطف رضا نے کہا کہ یہ ایک سائنٹیفک طریقہ علاج ہے۔ اب تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس کے ہسپتال قائم ہیں اور فرانس اور جرمنی میں اس کی کونسلز بھی ہیں۔ آج NANO MEDICINEکی جو بات کی جارہی ہے ہومیوپیتھک میں اس کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں کلینیکل ٹرائلز ہوں، تجزیے اور مشاہدے بیان کئے جاسکیں۔ اس طرح کلینیکل ریسرچ بھی پروموٹ ہوگی۔ ڈاکٹر حافظ محمد عاصم نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کی چند رپورٹس کے مطابق ابھی بھی صحت کی سہولت پوری طرح سے نہیں ہے۔ آج ہربل اور ہو میو پیتھی سے پوری دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ ہم نے اپنے روایتی طریقہ کار کو بھلا دیا ہے۔ طب اور ہومیوپیتھی کا فلسفہ ہے کہ ہر مریض کو الگ الگ دوا اس کے مزاج کے مطابق دی جاتی ہے۔ اب جو ریسرچ جرنل شائع ہو رہا ہے آپ سب اس کو پڑھیں اور فائدہ حاصل کریں۔ ڈاکٹر حمید مجید نے کہا کہ ہومیوپیتھی میں تین پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ایک تو کوالٹی کنٹرول کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا ڈائیگناسٹک ایبلٹی ہونی چاہئے اور تیسرا کلینیکل ٹرائل ضروری ہے۔ ہومیوپیتھک دوائی امیون سسٹم کو بہتر بناتی ہے کہ بیماری سے لڑا جا سکے ۔ انہوں نے ریسرچ جرنل شائع ہونے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ جو لوگ کلینک بنا رہے ہیں ان کو اپنے کچھ ٹارگٹ سیٹ کرنے چاہئیں۔ ڈاکٹر شاہد نے کہاکہ بعض جگہوں پر سٹینڈرڈآئزیشن کی تعریف کو صحیح طرح سے ایڈریس نہیں کیا گیا۔ دراصل ریسرچ کا مطلب اپنے تجربات کو دوسروں سے شیئر کرنا ہے۔ اب مریضوں کی کونسلنگ مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر ہم آپ کی مدد کے لئے تیار ہیں پہلے آپ ہمارے پاس کوئی ورکنگ لے کر آئیں۔واصف ناگی نے کہا کہ ہومیوپیتھی ایک قدیم طریقہ علاج ہے۔ تمام ڈاکٹرز بھرپور جذبے سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے سیمینار کے انعقاد پر ڈاکٹر محمد زبیر اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی۔پروفیسر ڈاکٹر سید الحسن نے کہا کہ ہمارے پاس بے شمار قدرتی وسائل موجود ہیں اور تعلیم بھی ہے۔ ان چیزوں سے ہم اپنے ٹارگٹ کو بآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ پودوں میں بے شمار وسائل چھپے ہوئے ہیں آپ کو ان کا مشاہدہ کرنا چاہئے ۔اس کے علاوہ پاکستان کا اپنا فارما کوپیا اور ہربل فارما کوپیاہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھل اور سبزیاں ضرور استعمال کیا کریں کیونکہ ان میں سے کچھ ہم اینٹی آکسیڈنٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد المغیز نے ریسرچ جرنل کے افتتاح پر مبارکباد پیش کی اور سی ای اوز ریپ ڈاکٹر عاصم رئوف کی طرف سے پیغام دیا کہ یہ سیمینار ہومیوپیتھک فیلڈ کی راہ میں بہتری کے لئے ایک اہم قدم ہے ۔اب ریسرچ کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مریضوں کو بہترین علاج فراہم کیا جا سکے اس سیمینار میں موجود مقررین، تحقیقی جرائد میں شمولیت اختیار کرنے والے، ہومیوپیتھک کی پریکٹس کرنے والوں کو یہ یقینی بنانا ہو گا ۔ پروفیسر ہمایوں ریاض نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ہومیوطریقہ علاج کو بہت مانا جاتا ہے۔ یہ ایک بہترین طریقہ علاج ہے اور ریسرچ سنٹر کا قیام بھی خوش آئند ہے۔ ڈاکٹر جاوید اختر نے کہا کہ ریسرچ جرنل کاافتتاح ہومیوپیتھی میں ایک بریک تھرو ہے۔ اس سےہومیو ڈاکٹرز کو ایک فورم ملاہے۔ ہم پوری انسانیت کے لئے لگن سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی سہولت کارڈ میں ہمیں بھی شامل کیا جائے۔ ڈاکٹر طارق خان نے کہاکہ آج ریسرچ جرنل کے شائع ہونے پر بے حد خوشی ہو رہی ہے، یہ مستقل بنیادوں پر ہمارے لئے بہتری ضرور لائے گا۔ پروفیسر خالد حسین نے کہا کہ ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک میڈیسن میں بہت فرق ہے۔اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔   

تازہ ترین