• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
موقر برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز ویک اینڈ کا لائق توجہ اداریہ ہے کہ برطانیہ نے اب EU کو تو چھوڑ دیا ہے مگر اصل کام تو اب شروع ہوا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی تعمیر، حکومت کے لیے choicesسخت ہوں گی۔ یوکے آج اپنی تاریخ کے نئے عہد میں داخل ہوگیا ہے،47 سال تک تو اس کے تعلقات کار باقی دنیا کے ساتھ ای یو ممبرشپ کے تناظر میں دیکھے جاتے رہے، ووٹروں کا ایک گروپ اس نئے phase کو خوش آمدید کہے گا کہ برطانیہ کو اب یہ موقع مل رہا کہ وہ اپنے طور پر فیصلے کر سکے گا۔ دوسرا گروپ اس سے الگ سوچ رکھتا ہے لیکن دونوں سوچوں سے قطع نظر برطانیہ اب یورپ سے باہر ہے۔ وہ debate کہ کیا برطانیہ ای یو میں رہے ؟ یا انخلاء کرے ؟ اب اختتام پزیر ہو چکی ہے۔ اب ایگزٹ ہوگیا ہے۔ اب چیلنجز دو طرح کے ہیں۔ اس کے دو فولڈز ہیں۔ ایک تو اس تقسیم کے اثرات کو دور کرنا ہے جو بریگزٹ پراسیس نے پیدا کی اور وہ socio-economic division جو ا ں خلاء کے ووٹروں کو پس پشت ایندھن مہیا کرتی رہی اس صورت حال کا تدارک کرنا ہے۔ دوسرا یورپ کے ساتھ تعلقات کی نئی جہتیں قائم کرنا ہے ۔ یورپ کے علاوہ وسیع دنیا کے ساتھ بھی نئے بندھن استوار کرنا ہے جن سے برطانیہ کی unity ، security اور prosperity کو تقویت مل پائے۔ ان دو امور کی کامیابی پر بورس جانسن اور بریگزٹ بابت تمام پراجیکٹ کو جانچا اور پرکھا جائے گا۔ کنزرویٹو حکومت کو یہ ادراک ہے کہ 2016 کا ریفرنڈم صرف 27 ممالک کے قوموں کے بلاک سے الگ ہونا ہی نہیں تھا بلکہ یہ پیچھے رہ جانے والی کمیونٹیز کی جانب سے ایک احتجاجی ووٹ بھی تھا، یہ وہ طبقات ہیں جو کئی سالوں سے نظرانداز کیا جانا محسوس کر رہے تھے، مسٹر جانسن نے اپنا الیکشن بریگزٹ تکمیل کرنے اور برطانیہ کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے تفاوت کو مٹانے کے وعدوں پر جیتا ہے وہ ملک کے دیگر حصوں کو لندن اور ساؤتھ ایسٹ انگلینڈ کے خوشحال علاقوں کی سطح پر لے جانے کا پرامس کرتے آئے ہیں ۔ اس بااثر اخبار کے مطابق گورنمنٹ نے انفراسٹرکچر کی تعمیر کی اپروچ کا عندیہ ظاہر کیاہےاس لیے اس کو اب ایک متنوع وژن دینا ہوگا۔ عام تاثر یہ ہے کہ ای یو چھوڑنے سے حکومت کا یہ ٹاسک پیچیدہ ہو جائے لیکن باوجود اس کے کہ حکومت کو نصف صدی کے بہت بڑے اکنامک اور آئینی shake up کا سامنا ہے مگر حکومت سوشل کوژن کی تعمیر نو کی تلاش میں ہے۔ تاہم آگے چل کر اخبار نشاندہی کرتا ہے کہ چاہے جو بھی بریگزٹ ورژن برطانیہ اپنائے لیکن ملک کی معیشت کا حجم ای یو میں رہنے کی نسبت کم ہوگا، سنگل مارکیٹ یا کسٹم یونین ممبرشپ کو مسترد کرکے اور ایک فری ٹریڈ اگریمنٹ کا رستہ اختیار کرکے مسٹر جانسن نے نہایت مشکل دشوار ترین اور اکنامک ڈیپارچر کی سخت ترین شکل کو چنا ہے، مزید برآں ریفرنڈم کے تین سال سے زائد مدت بعد حکومت کو ابھی یہ بھی تشریح کرنا باقی ہے کہ جس بریگزٹ کا انتخاب اس نے کیا ہے اس کا درحقیقت مطلب ہے کیا ؟ یہ اب واضح کر دیا جانا چاہئے اور جلد ہی یہ ہدف طے کردیا جائے کہ ملک 2025 یا 2030 میں کہاں ہوگا اور ان اہداف کو ای یو سے نئے تعلقات طے کرنے کے لیے سامنے رکھا جائے، جو فیصلے اگلے چھ ماہ میں یورپ کے ساتھ نئے ریلیشن سے متعلق کیے جائیں گے وہ اگلی کئی دہائیوں تک برطانیہ کے اکنامک آوٹ لک کو شیپ کرنے ، بنانے یعنی معاشی مستقبل پر اثرات مرتب کریں گے۔ ایک فوقیت، برتری جو بورس جانسن کو تھریسا مے پر حاصل ہے وہ ہے ان کی مستحکم اکثریت ۔ اخبار نے صائب مشورہ دیا ہے کہ یورپ سے حتی المقدور قریب تر رہنے کی کوشش کی جائے ، موجودہ سیکورٹی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ برقرار رکھا جائے، ای یو ممبرشپ ممالک کو اس بات کی شناخت ہو کہ ان کے برطانیہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور پارٹنرشپ ان سب کے لیے فائدہ مند ہیں اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ جلد ہی ان کی برسلز میں جو گفت و شنید اس متعلق ہوگی ان میں ان عوامل کو مدنظر رکھا جائے گا۔ یوکے کو اب یہ بھی واضح کردیا چائیے کہ اس کے Global Britainکے تصور سے عملی طور پرکیا مراد ہے؟ اس اخبار نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ تین سال برطانیہ میں سیاسی اعتبار سے بہت پراگندہ ہے اور بریگزٹ نے برطانیہ کی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا لیکن بلا آخر بریگزٹ کا عمل تکمیل پزیر ہوگیا اور اب لازمی طور پر حقیقی کام شروع ہونا چاہئے ۔ فنانشل ٹائمز کے اس اداریہ کے کئی پہلو تلخ مگر ہیں سچ ۔ اس سارے پراسیس پر ایک نظر ڈالیں: بریگزٹ: برطانوی رائے عامہ اس پر واقعی منقسم رہی، برسوں یہ ایک مسئلہ لایخل بنارہا، جب کہ برطانیہ 47 سال ای یو ممبر رہا۔ لیکن گزشتہ ساڑھے تین سال خاص طور پر یہ ایک ایشو برٹش پالیٹکس پر حاوی رہا ۔ اب تین وزرائے اعظم کی قربانی دینے اور دو انتخابات کے بھاری اخراجات برداشت کرنے کے کے بعد بالآخر گزشتہ ماہ کے اختتام پر یورپی یونین سے انخلاء کرلیا ہے، یعنی بریگزٹ ہوگیا ہے، یورپ کو الوداع خدا حافظ کہہ دیا گیا ہے تو بھی ہر تیسرا شخص آپ کو یہ استفسار کرتا ملے گا کہ اس بریگزٹ کے بعد اب فوری طور پر اس سے کیا تبدیلی وقوع پزیر ہوگی؟ بتدریج کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی ؟اور طویل مدتی اثرات کیا مرتب ہوسکتے ہیں؟ کون سے معاملات بدستور پہلے کی طرح جاری رہیں گے؟ برطانیہ کے لیے کیا کچھ بدلے گا؟اور یورپ کو اب کس طرح کی تبدیلیوں کا برطانیہ کی جانب سے سامنا کرنا پڑے گا؟ یعنی بریگزٹ جب نہیں ہوا تھا تب بھی اس مسئلہ پر بحث مباحثے جاری تھے اور اب بریگزٹ کے بعد اگرچہ قدرے ایک ٹھہراو محسوس کیا جاسکتا ہے مگر اب بھی برطانوی قوم کی سوچوں کا محور بریگزٹ بابت امور ہی ہیں۔ اب یہ تفکرات ہیں کہ اس عمل کے اچھے یا برے کیا نتائج ممکن ہیں؟ اور حکومتی کل پرزے کیسے اس ٹرانزیشن پیریڈ سے عہدہ برآ ہوتے ہیں؟ اخبارات کا مطالعہ کیا جائے یا مختلف میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر کوئی ان عوامل پر اپنی اپنی سوچ سمجھ اور بصیرت کے مطابق صورت حال کو اپنی نظر سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہےلیکن ایک بات جو اہم وقوع پزیر ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ برطانیہ اکتیس جنوری کو سرکاری طور پر یورپی یونین سے انخلاء کر گیا ہے اور برطانیہ سے 73 اراکین یورپی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ساتھ ہی ختم ہوگئی ہے۔ بی بی سی کا جائزہ ہے کہ فی الوقت زیادہ تر معاملات پہلے کی طرح جاری رہیں گے ۔ جیسا کہ برطانیہ کے یورپ کے ساتھ ریلیشن شپ کی نئی ٹاسک فورس کے سربراہ اور یورپ کی جانب سے بریگزیٹ پر چیف مذاکرات کار مشل بارنیئے نے کہا ہے کہ یکم فروری کو برطانیہ کی علیحدگی کے بعد منتقلی کی مدت کے دوران یعنی 31 دسمبر 2020 تک یورپ کا قانون ہی نافذالعمل رہے گا۔ برطانیہ اور دیگر ممالک کے مابین آزادانہ آمد و رفت جاری رہے گی، فضائی ، بحری اور ریل سروس پہلے کی مانند جاری رہے گی اور کسی اضافی ٹیکس یا چیکنگ پڑتال کے بغیر مال کی تجارت جاری رہے گی۔ برطانیہ کو اب بھی ای یو رولز ریگولیشننز پر عمل درآمد اور اس سال کے آخر تک ای یو بجٹ میں بھی اپنا حصہ ڈالتے رہنا ہوگا کیونکہ برطانیہ یورپ کے ساتھ آئندہ تعلقات کار طے کرنے کے لیے گیارہ مہینے کے ٹرانزیشن، منتقلی دور یا ایک عبوری عرصہ میں داخل ہوگیاہے تاہم اس ٹرانزیشن پریڈ کے عرصہ میں برطانیہ کی یورپی یونین کے اداروں میں کوئی نمائندگی نہیں ہوگی کیونکہ اس کے ایم ای پیز ختم ہوگئے ہیں اب اس کی ای یو پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں رہی۔تاہم دوسری جانب تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اب برطانیہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ ایک الگ تھلگ ملک کے طور پر اپنی مرضی و منشاء سے ای یو کی پابندیوں کے بغیر ، انڈی پنڈنٹ ٹریڈ ڈیلز ، آزادانہ تجارتی معاہدات کرنے اور پالیساں بنا سکتا ہے ۔ البتہ یہ باور کیا جاتا ہے کہ اب بھی پہلی ترجیح یورپ سے کاروباری تجارتی معائدات طے کرناہوگا اور جب تک یہ اگریمنٹ فائنل نہیں ہوجاتا کسی کو علم نہیں کہ یورپ کے ساتھ نئے ریلیشنز یا تعلقات کار کس نوعیت کے ہوں گے۔اس عرصہ میں وائس آف امریکہ کے مطابق برطانیہ تعلقات کی نئی جہتیں متعین کرنے کے لیے یورپی یونین سے مذاکرات کرے گا، جس میں آزاد تجارتی معاہدے کی توثیق کا معاملہ بھی شامل ہے۔ساتھ ہی یہ اندازے بھی لگائے جارہے ہیں کہ اس ٹرانزیشن پیریڈ میں گفت و شنید اور مذاکرات کے ادوار مشکل ثابت ہوں گے۔کیونکہ برطانیہ اور یورپ دونوں اطراف سے سخت موقف اختیار کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے برطانیہ کے وزیر خارجہ کا پہلے سے ہی یہ کہنا ہے کہ برطانیہ ای یو کے ضابطوں کا پابند نہیں رہے گا۔ برطانیہ اب اپنے ضابطے اور قوانین خود وضع کرے گا۔ تاہم اس کے باوصف انہیں امید واثق ہے کہ ای یو بلاک کے ساتھ وہ خوشگوار تجارتی مراسم استوار کرنے میں کامیاب رہیں گے لیکن یہ بات موضوع بحث ہے جیسا کہ بقول مشل بارنیئے برطانیہ کے سنگل مارکیٹ کو چھوڑ دینے کے بعد برطانیہ اس سے پہلے ملنے والے اقتصادی اور معاشی فوائد حاصل نہیں کر پائے گا۔ ظاہر ہے کہ کچھ نقصان تو ہوگا ہی۔ بی بی سی تجزیہ نگار ٹومی ایڈینگٹن کا تجزیہ ہے کہ سات معاملات ہیں جو تبدیلی کے عمل سے متاثر اور سات ہی افئیرز انہوں نے ایسے گنوائے ہیں جو نہیں تبدیل ہوں گے ان امور سے آگاہی بریگزٹ سے دلچسپی رکھنے والے ریڈرز کے لیے باعث دلچسپی اور باعث معلوبات ہوگا اس لیے ان کو یہاں پر قدرے تفصیل سے شئیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پہلی بات جیسا کہ پہلے بتایا : یورپی یونین میں برطانیہ کے 73 ارکان اپنی نشمول نائجل فراج اپنی نشستیں کھو دیں گے خیال رہے کہ نائیجل فراج جو کہ برطانوی بریگزٹ پارٹی کے سربراہ ہیں یہی موصوف برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی مہم میں نمایاں تھے، اب ہر چندکہ سرکاری طور پر یورپ کا بلاک چھوڑنے کے بعد برطانیہ یورپی یونین کے تمام سیاسی اداروں اور ایجنسیوں سے نکل جائے گا۔ لیکن اس عبوری عرصہ میں اسے ای یو قواعد وضوابط قوانین کی پاسداری بدستور کرنا پڑے گی جبکہ بی بی سی کے مطابق کسی قانونی معاملہ کی صورت میں یورپی عدالتِ انصاف فیصلے کرے گی۔ سادہ الفاظ میں 31 جنوری کے اس سرکاری انخلاء کے بعد برطانیہ یورپی یونین کے اجلاسوں میں شامل نہیں ہوسکے گا دوسرا اب نئی صورت حال میں بورس جانسن اگر یورپی کونسل کے کسی اجلاس میں شریک ہونے کی ضرورت محسوس کریں تو انہیں خصوصی طور پر مدعو کرنا پڑے گا۔ تیسرا اہم فیکٹر تجارتی معاملات ہیں برطانیہ اب ای یو سے ہٹ کر بھی دنیا کے دیگر ممالک سے تجارت کے متعلق معاہدات آزادانہ طور پر کرسکے گا اس مقصد کے لیے اسے اپنی مصنوعات پراڈکٹس کی خرید و فروخت اشیا کو بیچنے اور خریدنے کے نئے قوانین طے ہوں گے۔بی بی سی کے اس جائزہ کے مطابق برطانیہ جب تک یورپی یونین کا ممبر تھا اس وقت تک وہ مثال کے طور پر امریکہ اور آسٹریلیا کے ساتھ رسمی طور پر مذاکرات نہیں کر سکتا تھا۔اسی باعث بریگزٹ کے حامی کہتے رہے ہیں کہ اپنی تجارتی پالیسی بنانے سے برطانوی معیشت بہتر ہو گی۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ کن شرائط پر نئے معائدات ہوں گے؟ جبکہ اس عبوری عرصہ میں حکومت برطانیہ کے سامنے ایک بڑا ٹاسک ای یو کے ساتھ قابل عمل ٹریڈ ڈیل طے کرنا ہے۔ چوتھی تبدیلی یہ ہے کہ برطانوی پاسپورٹ کا رنگ بدل جائے گا تیس سال کی طویل مدت کے بعد نیلے رنگ کا برطانوی پاسپورٹ واپس آ جائے گا۔ پانچواں اہم فیصلہ پچاس پینس کے تیس لاکھ کے بھگ بریگزٹ کے سکے اکتیس جنوری سے جاری کیے گئے ہیں چھٹی بات ، برطانیہ کا بریگزٹ ادارہ بند ۔ سات ، جرمنی مجرموں کو برطانیہ کے حوالے نہیں کرے گا برطانیہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ان ملزمان کو وطن واپس لا سکے کیونکہ جرمنی کا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے کسی شہری کو یورپی یونین کے کسی ملک کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے حوالے کیا جائے۔ بی بی سی کے اس اہم جائزہ کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ اس پابندی کا اطلاق دوسرے ممالک پر بھی ہوگا یا نہیں۔ دوسری جانب سات امور حسب حال یعنی حسب معمول جاری رہیں گے ۔ایک تو یہ جیسا کہ پہلے زکر کیا ہے سفر کے لیے فلائٹس، کشتیاں اور ٹرینیں وغیرہ معمول کے مطابق چلتی رہیں گی۔دوسرا ڈرائیونگ لائسنس اور پالتو جانوروں کے پاسپورٹوہ جب تک قانونی طور پر جائز ہیں استعمال میں رہیں گے۔ تیسرا یورپین ہیلتھ انشورنس کارڈز یہ اس ٹرانزیشن پیریڈ میں بھی مستعمل رہیں گے۔ چوتھا،یورپی یونین میں رہنا اور کام کرنے کی اور نقل و حمل کی آزادی رہے گی تاکہ برطانوی شہری اسی طرح یورپی یونین میں کام کرتے رہیں جیسے وہ اب کر رہے ہیں۔ اسی طرح جو یورپی یونین کے باشندے برطانیہ میں رہنا یا کام کرنا چاہیں وہ بھی اس عبوری دور میں برطانیہ میں جابز کر سکتے ہیں۔پانچواں ، پینشن، یورپی یونین میں رہائش پذیر برطانوی باشندے اپنی سرکاری پینشن پہلے کی مانند ہی لیتے رہیں گے ۔ یعنی پنشن متعلق امور پر فرق نہیں پڑے گا چھٹا، بجٹ میں حصہ ، برطانیہ یورپی یونین کے بجٹ میں اپنا حصہ ڈالتا رہے گا۔ جس سے یورپی یونین کے فنڈز سے چلنے والی سکیموں کو فنڈز ملنے جاری رہیں گے۔ساتواں اہم نقطہ ٹریڈ، تجارت کا ہے ۔برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارت بغیر کسی اضافی اخراجات کے جاری رہے گی اور کوئی نئی پابندیاں بھی متعارف نہیں کروائی جائی گی۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج صورت حال واضح ہوتی جائے گی۔ ڈئیر جنگ ریڈرز، منگل کی صبح کالم یہاں تک رقم کر چکا تھا کہ اپنے ای میل ان بکس میں لب ڈیم ایکٹنگ لیڈر ایڈ ڈیوی نے خبرادر کیا ہے کہ ٹوریز یعنی موجودہ حکومت کو 12 بلین بریگزٹ بلیک ہول کا سامنا ہے Tories facing £12 billion Brexit black hole انہوں نے فنانشل ٹائمز کے ایک مشاہدہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر ریسپانس دیا ہے کہ حکومت تین سال میں بھاری بلیک ہول دیکھ رہی ہے۔ بورس جانسن برطانیہ کی اکنامی چلانے کے لیے فٹ یعنی موزوں نہیں ہیں۔ Boris Johnson is not fit to run the UK’s economy انہوں نے متنبہ کیا کہ جانسن کا بریگزٹ برطانوی عوام کا مال و متاع کے ضیاع کے قوی اندیشے ہیں۔ لب ڈیم کو یہ خدشہ ہے کہ وزیراعظم ای یو کے ساتھ لازمی ٹریڈنگ ریلشن شپس کی اصابت نہیں رکھتے۔ لبرل قائم مقام لیڈر کا مشورہ ہے کہ مسٹر جانسن اپنے نو ڈیل بریگزٹ یا ہارڈ بریگزٹ بیانیہ کو چھوڑ کر ای یو کے ساتھ ممکن حد تک قریبی تجارتی تعلقات کار کا ڈول ڈالیں بصورت دیگر مستقبل میں برطانیہ کے پاس قومی محکمہ صحت، این ایچ ایس،اسکولوں اور پولیس کے لیے کوئی پیسہ نہیں بچے گا۔ ہماری رائے میں حکومت کو اپنی اکثریت کے زعم میں ایک نسبتا” چھوٹی جماعت کے سربراہ کی وارننگ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور خاص طورپر اس لیے بھی کہ ان کا ردعمل ایک مالیاتی اور اقتصادی امور پر گرفت رکھنے والے اخبارکے جائزہ کے تناظر میں ہے اسے آپ صرف سیاسی مخالفت کی پوائنٹ اسکو رنگ کہہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے! یہاں آخر میں حکومت کے کل پرزوں کی توجہ چاہیں گے آج کا برطانیہ ہاوسنگ کے مسائل میں گھرا ہوا ہے نئے مکانات تعمیر کی بھی ضرورت ہے، کتنے لوگ ہیں جو اس حوالے ضرورت مند ہیں ، ٹرانسپورٹ ، بہتر ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے، سفری زرائع کے کرایے بڑھ گئے ہیں، سوشل ان ایکوالٹی ہے ، غریب اور امیر کے درمیان گیپ بہت نمایاں ہو رہا ہے، بہت زیادہ سطح کی ناہمواری پائی جاتی ہے۔ کلچرل سنٹرز کا فقدان ہے ، لیژرز سہولیات کی فراہمی کی ضرورت بھی ہے۔ فزیکل اور سوشل ماحول پراگندہ ہے وہ پہلے والا گریٹ بریٹن نہیں رہا ، کاروباری ضیاع ، ویسٹ مینجمنٹ الگ بہت بڑے ایشوز ہیں، جن پر قابل عمل پلانز پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے ویسٹ waste کم کرنے اور ری سائیکلنگ بہتر امپروو کرنے میں مدد مل سکے۔ اور سیلاب پھر ماحولیات، کلائمنٹ چیجز، تبدیلیاں اس کے اکنامک ، سوشل اور انوائرنمنٹ پر گہرے اثرات ہیں یہ برطانیہ میں متنوع نوعیت کے ہیں ۔ اگر برف کم ہو تو سکتی ski resorts ریسورنٹس بند ہونے پر مجبور ہوسکتے ہیں جس سے ریونیو ، آمدن کے زرائع کم پڑ سکتے ہیں ۔اگر گرمی کی لہر آجائے heat wave تو معمر افراد نشانہ بن سکتے ہیں ۔ کلائمنٹ تبدیلیوں کے مضر گہرے اثرات جنگلی حیات اور پودوں پر مرتب ہوسکتے ہیں ، پھر پرندوں کی مائگریشن ہجرت کا پیٹرن شفٹ ہوسکتا ہے۔موسموں کے تغیر و تبدیل سے انسانوں چرند پرند سب متاثر ہوتے ہیں ، پھر جغرافیہ دان ایک خوف ناک سوشل امپیکٹ یہ بھی باور کراتے ہیں کہ 2050 تک بہت سوں کو پانی کی قلت ہوسکتی ہے، سمندر کی سطح میں تبدیلی کا امپکٹ بھی حکومتوں کی توجہ کا متقاضی رہتا ہے۔سیلاب سے زرعی زمین کو اور موسمی تبدیلیوں سے beaches کو پہنچنے والے نقصانات سے ٹورازم صنعت متاثر ہوتی ہے۔ دی گارڈین، پیر 3 فروری، بریگزٹ جنگلی حیات کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ جسے وائیلڈ لائف ٹرسٹ نے کمیشنڈ کیا کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ای یو سے انخلاء وائیلڈ لائف کو رسک پر ڈال رہی ہے کیونکہ برطانیہ اس متعلق ریگولیشننز کو کھونے کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک دوسرا اہم ترین معاملہ جو کسی بھی وقت سنجیدگی سے سر اٹھا سکتا ہے ۔وہ گارڈین کے ہی مطابق، سکاٹ لینڈ کا ہے ، یورپین کونسل کے سابق صدر ڈونلڈ ٹسک کا یہ کہنا ہے کہ ای یو میں وسیع سطح پر جذبات دیکھنے میں آئیں گے اگر سکاٹ لینڈ آزادی کے بعد ای یو کو ری جائن کرنے کے لیے اپلائی کرتا ہے۔ ان کے یہ ریمارکس نکولا سٹروجن کی دوسرے ریفرنڈم کی کمپین کو بوسٹ مہیا کریں گے بی بی سی کو مسٹر ٹسک نے بتایا کہ وہ بہت سے ان سکاٹش باشندوں سے ہمدردی رکھتے ہیں جن کی تمنا ہے کہ وہ دوبارہ ای یو میں شمولیت اختیار کریں۔ خیال رہے کہ سکاٹ لینڈ کے 62 فیصد عوام نے 2016 کے ریفرنڈم میں ای یو میں رہنے کے حق میں ووٹ ڈالے تھے اور پھر خاص بات یہ ہے کہ اس کے بعد وہاں پر ہر الیکشن میں ستر فیصد سے زیادہ سپورٹ ان پارٹیوں کو ملی جو یا تو ای یو پر دوسرے ریفرنڈم کی حمایتی ہیں یا پھر بریگزٹ کو سکریپ کرنے کی خواں۔ یہ تمام مسائل، ہر موضوع، ہر ٹاپک، بذات خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر ایک پر الگ الگ جامع کتابیں اور ضخیم فیچرز تحریر کیے جائیں پر یہاں ہمارا مقصد بدیحی طور پر صرف اشارہ کرنا ہے تاکہ حکومت بروقت تدابیر کرسکے۔ جب کہ کئی زہنوں میں یہ سوال بھی فطری طور پر اٹھ رہے ہیں کہ آخر آپ ٹوریز کتنے مواقع اور چاہتے ہیں ؟ کتنی مرتبہ آپ کے خوشنما دعووں پر عوام نے اعتماد کی مہر ثبت کی ہے ، مگر آپ نے کیا ان کی لاج رکھی ؟۔
تازہ ترین