• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم خود یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ ہم نے گذشتہ برسوں میں کیا کیا، کیونکہ یہ ابھی ماضی قریب کی بات ہے اور ہم ان واقعات میں پوری طرح شامل رہے ہیں۔ہوسکتا ہے ہم نے غلطیاں کی ہوں۔ مستقبل کے مورخین اس بات کا فیصلہ کرینگے کہ ہمارے کون سے اقدامات درست تھے اور کون سے غلط" یہ جواہر لال نہرو کی تقریر کے الفاظ ہیں جو اُس نے ماؤنٹ بیٹن کی الوداعی تقریب میں جون 1948ء میں ادا کیے تھے اور اب تاریخ کا حصہ ہیں۔بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کی موجودہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قائد اعظم کا ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ درست تھا اور آج بھی بھارت کے بطن سے مزید آزاد اور خودمختار ریاستیں وجود میں آسکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق زیر التواء تنازعات میں کشمیر سب سے پرانا اور حل طلب عالمی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تشویشناک مسئلہ بھی بن چُکا ہے۔اس مسئلہ پر تین بڑی جنگوں کے علاؤہ متعدد بار چھوٹے پیمانے پر بھارتی اور پاکستانی افواج جنگ کرچُکی ہیں۔05فروری یوم یکجہتی کشمیر کے دن کی مناسبت سے اس مسئلہ کے تاریخی پہلوؤں اور موجودہ صورتحال بالخصوص 05اگست2019ء کے بعد کے منظر نامے کے معروضی جائزہ کی ضرورت ہے۔

کشمیر کے عوام کی غیر مسلح مزاحمت نے ایک بار پھر پوری دنیا پر واضح کردیا ہے کہ بھارت کا اپنی دس لاکھ فوج کی تعیناتی کے ساتھ جموں و کشمیر پر قبضہ غاصبانہ ہے جسے برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔یہ مسئلہ کی شدت ہی تھی کہ گذشتہ سال دوست ملک چین کے تعاون سے مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر سیکیورٹی کونسل کے ایجنڈے میں آیا اور تمام ممبر ممالک نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیااور چین نے دوٹوک انداز میں کہا کہ چین کی مسئلہ کشمیر پر پوزیشن برقرار ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کے مطابق ہونا چاہیے۔

اس کے علاؤہ برادر اسلامی ممالک ترکی اور ملائیشیا کے صدور جناب رجب طیب اردگان اور جناب مہاتیر محمد کے حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ موقف نے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کیاگو کہ ان ممالک کو بھارت کے شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مسلم اُمہ کے دیگر ممالک بالخصوص سعوی عربیہ اور متحدہ عرب امارات کا اس مسئلہ پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز نہ اُٹھانا اذیت ناک ہونے کے ساتھ ساتھ مایوسی کا سبب بھی بنا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی بھرپور انداز سے اس مسئلہ کو اقوام عالم کے سامنے پیش کیا اور اسکے تاریخی اور انسانی حقوق کے پہلوؤں سے آگاہ کیا۔ 

ہندتوااور مودی کے فاشٹ فلسفے کو ہٹلرکے فلسفے سے خطرناک قرار دیکر بھی انہوں نے بھرپور سفارتی حملہ کیا جس پر انھیں ملک بھراور بالخصوص کشمیری عوام کی جانب سے بھرپور ستائش بھی ملی۔ تاہم اتنی جامع ، مدلل اور جارحانہ تقریر کے فالو اپ میں سفارتی سطح پر جو سرگرمیاں اور اقدامات فوری کیے جانے تھے نہ تو وہ نظر آئے اور نہ ہی اسکے بعد کوئی موثر سفارتی ایکشن پلان نظر آیا۔

گذشتہ ماہ کے آخری عشرے میں ڈیووس میں ہونیوالے عالمی اقتصادی فورم پروزیراعظم پاکستان نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جرمن چانسلرانجیلا مرکل سمیت متعدد سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کی ہیں اور اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر اپنی ثالثی کی پیشکش کا دوبارہ اعادہ بھی کیا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے ان پیشکشوں ، وعدوں اور اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے موثر حکمت عملی بنائی جائے۔ امریکہ اور چین سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے ذریعہ سے پہلے مرحلہ میں 80لاکھ آبادی کا محاصر ہ اور کرفیو ختم کروایا جائے اور آزاد فضاء کے اند رکشمیر ی عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق مسئلے کا حل نکالا جائے۔

کشمیر کی آزادی کی تحریک کے اس نازک موڑ پر ایک تاریخی مغالطے، مسلسل پراپیگنڈے اور جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔کشمیر کے حوالہ سے لکھی جانے والی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی تاریخی دستاویزی کتاب " Kashmir A Disputed Legacy 1846-1990"کے مصنف الیسٹرلیمب لکھتے ہیں کہ

"The fact that the Indian troops arriving at Srinagar Airport on 27 October 1947 found other Indian troops, in the shape of Patiala men, already established there and elsewhere in the state. The Patiala forces had arrived, it seems, on about 17 October 1947, that is to say before the tribal crossing of the bridge at Domail on 22 October".

یوں انڈین نواز لابی کا یہ پراپیکنڈہ کہ سری نگر پر بھارتی فوج قبائلیوںکے جواب میں مہاراجہ کی درخواست پر اتاری گئی تھی سراسر بے بنیاد ہے۔یہی مصنف لکھتے ہیں کہ مہاراجہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ کیا گیا الحاق (Accession)بھی ریاستی عوام کی مرضی کے مطابق رائے شماری سے مشروط تھا جسکو بھارت سرکار نے آج تک منظر عام پر نہیں آنے دیا۔

مسئلہ کشمیر صرف زمین کے ایک ٹکڑے کا مسئلہ نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ عوام کے حق ِخودارادیت اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق" رائے شماری" کے ذریعے ہی حل ہوناچاہیے۔ مسئلہ کا سب سے اہم فریق کشمیر کے عوام ہیں جنکی مرضی کے بغیر کوئی حل قابل قبول نہ ہوگا اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر یہ مسئلہ ابھی تک ناقابل تصفیہ موجود ہے ۔گزشتہ سالوں میں سکاٹ لینڈ سمیت چند دیگر جگہوں پر بین الاقوامی برادری، انٹرنیشنل میڈیا اوردیگر مبصر گروپس کی موجودگی میں شفاف،آزادانہ ریفرنڈم کروایا گیا۔

کیا عالمی برادری اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے چیمپئین بالخصوص امریکہ ،برطانیہ اور یورپی یونین وغیرہ کشمیر کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسطرح کا ریفرنڈم اور رائے شماری کروا کر اس انسانی المیہ کا خاتمہ نہیں کرواسکتی؟

اگر حکومت پاکستان آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے اندر اقوام متحدہ کے نمائندگان ،ملکی و بین الاقوامی میڈیا اور دیگر عالمی مبصرین کی موجودگی میں شفاف اورآزادانہ رائے شماری کروائے اور اسی طرز پر عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے اپیل کرے کہ وہ مودی سرکار کو بھی اسی طرح کی رائے شماری مقبوضہ کشمیر میں کروانے پر مجبور کرے تواسطرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق کشمیر کے حل کے لیے حکومت پاکستان عالمی سفارتی حلقوں کا بھرپور تعاون حاصل کرتے ہوئے بھارت پر بے پناہ دباو ڈال سکتی ہے ۔

اس وقت مسئلہ کشمیر ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بھی بن چکا ہے کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقیتں ہیں اور اگر بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ نے اس انسانی مسئلے کو حل کروانے میں مدد نہ کی تو کسی بھی وقت ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔جنوبی ایشیاء کے پر امن اور مستحکم رہنے کی کنجی کشمیر کے مسئلے کے حل میں ہے۔

وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان کی یہ تجویز موجودہ حالات میں انتہائی مناسب ہے کہ آزادکشمیر تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے لہذا مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے آئندہ کے سفارتی اقدامات اگر آزاد حکومت، حریت کانفرنس اور دیگر کشمیری سیاسی جماعتوں کی نمائندہ باڈی کی سرپرستی میںہونگے تو اس مسئلہ کو عالمی برادری کے سامنے زندہ رکھنے اور مہذب اقوام کو یادہانی کروانے کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہونگے۔مسلح افواج پاکستان کا کردار مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ سے مثالی رہا ہے۔ پاک فوج کے سپہ سالار ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ‘‘ کے بیان کا اعادہ ہر وقت کرتے ہیںاور موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مختلف انٹرنیشنل فورمز پر مسئلہ کشمیر کی مسلمہ اہمیت کا اعادہ کرچُکے ہیں۔

منفرد انداز تخاطب اور تحریر کی مالک معروف بھارتی مصنفہ برکھا دت اپنی کتاب "This Unquiet Land, Stories from India's Fault lines" میں کشمیر کے حوالہ سے لکھے گئے باب ـA Chronicle of Kashmirمیں یوں رقمطراز ہیں

The scars of Jammu & Kashmir insurgency have often been measured by body bags and coffins and by statistics and sorrows. What's together to understand and easier to forget is the impact of this continuous, unabated violence on the deepest recesses of mind.

بھارت نے ظلم و بربریت روایتی اور غیر روایتی تشدد کے ہتھکنڈوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اسرائیل سے حاصل کی گئی پیلٹ گنز اور دیگر مہلک ہتھکنڈوں اور ہتھیاروں کا زیادہ تر استعمال نوجوان نسل پر کیا جاتا ہے تاکہ اس نسل کو ذہنی اور جسمانی طور پر اپاہج کر کے اس کے دل و دماغ سے آزادی کی سوچ کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ بظاہر نظر نہ آنیوالے تشدد ، ٹارچر اور ذہنی خوف و کرب جو کہ ماہرین نفسیات رپورٹ کر رہے ہیں سے بھی وادی کے اندر رہنے والے ہر عمر کے افراد بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کررہا ہے۔

دو سال قبل برہان وانی شہید کی شہادت سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی ایک نئی لہر اٹھی تھی جس کو 05اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے آرٹیکل 370کے خاتمہ کے اقدام نے مزید تیز تر کردیا ہے ۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں ، جنت نظیروادیوں ، دریاؤں ، مرغزاروں ، شہروں قصبوں اور دیہاتوں سے "آزادی"کی آواز فضا میں بلند ہورہی ہے جس سے بھارتی ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت ہوچُکا ہے۔ بھارت نے اس وقت سیاسی وسماجی اجتماعات اور نماز جمعہ کی نماز سمیت دیگر تمام سرگرمیوں پرمکمل پابندی عائد کررکھی ہے۔ عملاً80لاکھ مسلم آبادی محصور کی جاچُکی ہے۔ 

اس وقت وادی میں مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل بلیک آؤٹ چل رہا ہے، انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہے۔اگست 2019ء سے اس وقت تک وادی کے لوگ مکمل کرفیو میں زندگی گزار رہے ہیں۔ غذائی قلت اور اشیائے خوردونوش کا قحط پڑ چُکا ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، ہسپتال اور دیگر علاج معالجہ کے سنٹرز ادویات کی عدم فراہمی اور ڈاکٹرز کی موجودگی نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً مفلوج ہوچُکے ہیں۔ کاروبار مکمل ختم ہوچُکے ہیں اور اب زبان ، کلچر ، ادب اور دیگر سوشل اقدار کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔

تمام تاریخی عمارتوں ، سڑکوں اور جگہوں کے نام بھی تبدیل کرکے تاریخ کو مسخ کرنے کا ایک تاریخی کھلواڑ کیا جارہا ہے۔بھارتی حکومت ہر وہ اقدام کررہی ہے جس سے کشمیر کے تشخص اور تاریخ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے۔10لاکھ بھارتی فوج کا تشدد ، گھروں سے نوجوانوں کو اٹھاکر غائب کردینا، گھر گھر تلاشی، نوجوان عورتوںاور بچیوںپر تشدد اور عصمت ریزی سمیت ، جموں اور وادی میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے ہرحربہ استعمال کررہا ہے۔ 

نوجوانوں کو اغواء کرنا اور شدید سردی کے موسم میں تشدد کرکے برف پر لیٹانے کی ویڈیوز انسانی حقوق کے اداروں کا منہ چڑھا رہی ہیں۔ جبر وطاقت کے سینکڑوں ہتھکنڈوں کے علاوہ اپنی منظور نظر سیاسی ، علاقائی و لسانی پارٹیوں کے ذریعہ سے تحریص و ترغیب، معاشی ترقی کے پیکجز اور وعدے بھی کئے جارہے ہیں مگر ہندوستان کا ہر ایک حربہ اس وقت ناکام ہورہا ہے۔

بھارت کے اند ر اس وقت شہریت کے قانون میں تبدیلی کے باعث دیگر درجن کے قریب ریاستوں میں مسلمان، سکھوں ، عیسائیوں ، بنگالیوں اور نچلی ذات کے ہندووں سمیت دیگر اقلیتی عوام بھرپور احتجاج کررہے ہیںاور شہروں کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے۔ان نہتے اور مظلوم شہریوں پر بھی مودی حکومت فوج کے ذریعہ سے تشدد کروا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء و طالبات پر تشدد کے مناظر پوری دُنیا دیکھ چُکی ہے۔بھارتی ریاست کے ان جبری ہتھکنڈوں کو بھی اقوام عالم کے سامنے ایکسپوز کرنے کی ضرورت ہے۔

05فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے حوالہ سے پاکستان آزادکشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم تاریک وطن اس دن کی اہمیت کے پیش نظر ، جلوس ، ریلیز ، واک ، سیمینار اور کانفرنسز وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں مختلف مقامات پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی اور شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے انسانی ہاتھوں کی زنجیریں اور تعلیمی اداروں میں دعائیہ پروگرامات کئے جاتے ہیں۔ 

حکومت پاکستان نے 1990ء میں پہلی بار قاضی حسین احمد (مرحوم) کی تحریک پر باضابطہ طور پر 05فروری کے دن کو یوم یکجہتی کشمیر کا دن منانے کا قومی سطح پر اعلان کیا تھا اور اس کے بعد سے آج تک یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ لیکن خصوصی پروگراموں اورخطابات کے ذریعہ سے مسئلہ کشمیر صرف ایک دن کے لئے ملکی و بین الاقوامی سطح پراجاگر کرنا اور یہ سمجھ لینا کہ اس مسئلہ کا حق ادا کردیا گیا ہر گز درست اور کافی نہیں ۔

تازہ ترین