• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دِنوں پوری دنیا کرونا وائرس سے دہشت زدہ نظرآتی ہے۔ بیس ہزار سے زاید افراد اب تک اس سے متاثر ہوچکے ہیں،سواچارسو سے زاید افراد کی جانیں جاچکی ہیں اور یہ بائیس ممالک تک پہنچ چکاہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کا پھیلاو اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس خطرے کے باوجود تادمِ تحریر اسے عالمی سطح کی وبا قرار نہیں دیا گیا ہے۔تاہم عالمی سطح پر معاملات کو دیکھنے والے اس امکان کے لیے تیاری کر رہے ہیں کہ دنیا کے سامنے آنے والی عالمی سطح کی بڑی وبا کرونا وائرس ہوسکتا ہے۔

کیا یہ کوئی سازش ہے؟

ایسے حالات میں بعض حلقے اس وائرس کو حیاتیاتی جنگ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ وہ اس ضمن میں طرح طرح کے دلائل دیتے ہیں، عالم گیریت اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوجانے والے کاموں کی بابت بات کرتے ہیں، خرد حیاتیات (مائیکرو بیالوجی) کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہیں اور مختلف واقعات اور مثالوں کے تانے بانے جوڑ کر ’’سازشی نظریہ‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایسے میں جب سابق وفاقی وزیرِ داخلہ ،رحمن ملک یہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس انسانی تخلیق ہے اور اسے چین کو مفلوج کرنے کے لیے پھیلایا گیاہےتو بہت سے سنجیدہ مزاج افراد بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہ نما اور سابق وفاقی وزیر ِداخلہ سینیٹر عبدالرحمن ملک نے دوتین روز قبل کہاتھا کہ میرا اندازہ ہے کہ کرونا وائرس انسان کا تخلیق کردہ ہے اور اسے مختلف جگہوں پر داخل کیا گیا۔یہ وہاں بہت تیزی سے پھیلا اوراس نے پورے چین کو مفلوج کر دیا ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت چین کو کرونا وائرس کا آئیکون بنایا جارہا ہے تاکہ کوئی چینی باہر نظر آئے تو لوگ اس سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کریں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں ایک اور بڑا خطرناک وائرس دست یاب ہے جسے’’وار پوائزن‘‘کہتے ہیں۔ اسرائیل تقریباً دو کلو وار پوائزن پیدا کرتاہے یا یہ امریکا کے پاس ہے۔ 

اگر اسے کوئی شخص کیپسول کی صورت میں نگل لے تو اسے دل کا دورہ پڑجاتاہے اور اس کا بچنا محال ہوتا ہے۔دوسری صورت میں اگر اس کیپسول کو توڑ کر کسی کمرے میں ڈال دیا جائے تو اس میں جتنے لوگ سانس لیں گے وہ سب دل کا دورہ پڑنے سے مرجائیں گے اور یہی لگے گا کہ یہ دل کا دورہ پڑنے سے مرے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس وائرس کی شناخت اس وقت کی تھی جب شاہ نواز بھٹو کو قتل کیا گیا تھا۔انہیں وار پوائزن سے مارا گیا تھا۔ میرے سامنے فرانسیسی پولیس نے یہ بلی کو کھلایا تھا اور جس طرح بلی کی موت واقع ہوئی وہی صورت حال انتقال سے قبل شاہ نواز بھٹو کی تھی۔ 

رحمن ملک کا کہنا تھاکہ مجھے یہ نہیں پتا کہ یہ وائرس کس نے بنایا ہے، تاہم یہ اس پوزیشن میں ہے کہ اس میں دنیا کو جزوی طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ کرونا وائرس قدرتی طور پر چین میں پیدا ہوا تواب اسے بایولوجیکل وار فیئر بنادیا گیا ہے اور اسے اس شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میری پیش گوئی ہے کہ اس سے سب سے زیادہ نقصان چین،اس کے عوام، برآمدات،کاروبار اور معیشت کو پہنچے گا۔

رحمن ملک کا کہنا تھاکہ چین اور پاکستان کے ماہرین کو مل کر اس وائرس پر تحقیق کرنی چاہیے کہ یہ کہاں سے آیا، اس وقت یہ کہاں ، کہاں موجود ہے اور اس کا خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگر بایولوجیکل وارفیئر شروع ہو گئی تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ففتھ جنریشن سے نکل کر سکستھ جنریشن میں چلی جائے گی، یعنی اب بم استعمال نہیں ہوں گے بلکہ اپنی جیب یا بریف کیس میں 5 یا 7 سرنجیں لے جانی پڑیںگی۔ دنیا میں بایولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر اور پھر اس کی جدید صورت سامنے آگئی ہے۔ اسے روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں ہونی چاہییں ۔

حقائق جاننے کا سفر

بعض حلقے یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر چین ہی پے درپے ایسی وباوں کا نشانہ کیوں بن رہا ہے۔ پہلے برڈ فلو،پھر سوائن فلو،پھر سارس اور اب کرونا وائرس۔کیا چین مخالف طاقتیں کسی بھی طرح اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا چاہتی ہیں؟ ان حالات میں حقائق جاننے کے لیے ہم نے تاریخ کے اوراق پلٹے اور بعض سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی۔تاہم یہ تمام کوشش مذکورہ ’’سازشی نظریات‘‘ کی حقیقت جاننے کے لیے ہے اور قارئین تک حقائق پہنچانا ہمارا مقصود ہے۔ کسی نظریے یا حلقۂ فکر کی مخالفت یا موافقت اس کی بنیاد نہیں۔ ’’سازشی نظریات‘‘ کے مخالف بھی طرح طرح کے دلائل اور مثالیں دیتے ہیں۔ ان کی بھی بہت سی باتوں میں وزن ہے، لیکن ان دونوں حلقوں میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط، یہ فیصلہ کرنا ماہرین کا کام ہے ہمارا نہیں۔

اس وائرس کے بارے میں ایک ماہر طبیب کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ موقف پیش کیا کہ ہمیں بیماریوں کے بارے میں تحقیق کرنے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں سوائن فلو سے متاثرہ شخص کا کیس سامنے آیا تو اس بارے میں تحقیق کی گئی تھی، کیوں کہ یہ بیماری ان ملکوں میں پھیلتی ہے جہاں خنزیر کے فارم ہوتے ہیں، مثلاً برازیل، جنوبی امریکا، میکسیکو وغیرہ۔ دراصل تیس برس قبل امریکا میں ایک ادارے نے سوائن فلو کے وائرس، ایچ ون این ون، سے تحفظ کے لیے ایک ویکسین تیار کی تھی۔ 

یہ ویکسین جب انسانوں کو دی گئی اور اس سے اموات ہوئیں تو وہاں شور مچ گیا۔ اس بارے میں تحقیق کرنے کے بعد امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ ویکسین تیار کرنے والے ادارے کا تعلق ڈک چینی سے ہے، جو بش جونیئر کے دور میں امریکا کے نائب صدر بنے۔ ڈک چینی کے نائب صدر بننے کے بعد اسی ادارے نے مذکورہ ویکسین کو یہ کہہ کر پھر بازار میں پیش کیا کہ اب اسے بہتر بنا دیا گیا ہے۔ لیکن فن لینڈ کی چیف میڈیکل ڈائریکٹر نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ اس ویکسین میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور انہوں نے اس بارے میں فن لینڈ میں کی جانے والی تحقیق کی تفصیلات دنیا بھر میں عام کردیں۔ 

 اس کے بعد برطانیہ کے ڈاکٹرز نے بھی یہ ویکسین استعمال کرنے سے منع کردیا تھا۔ سوائن فلو سے متاثر ہونے والے پاکستانی وہ تھے جو بیرون ملک کا سفر کرکے آئے تھے اور بیرون ملک وہ کسی طرح اس بیماری کا شکار ہوگئے تھے۔ ڈک چینی کے اقتدار میں آنے کے بعد سوائن فلو کے کیسز دنیا بھر میں سامنے آئے تو حج اور عمرے کے لیے جانے والوں کو یہ ویکسین لگانے کی بات کی گئی تھی۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین بڑی تعداد میں فروخت کرنے کا معاملہ تھا اور اس طرح یہ ویکسین دنیا بھر میں بڑی تعداد میں فروخت ہوئی۔ 

بعض حلقے بہت سے دلائل کے ساتھ یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ سوڈان کی سیاسی تقسیم کیمیائی یا جراثیمی جنگ کے ذریعے ممکن بنائی گئی۔ وہاں دارفر سمیت کئی علاقوں میں کئی اقسام کی بیماریاں پھوٹ پڑی تھیں۔ اس طرح سوڈان کو کم زور کرکے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ سائنس کی ترقی کی وجہ سے کئی دہائیاں قبل حیاتیاتی اور کیمیائی جنگیں اور حملے ممکن ہوگئے تھے اور کئی مواقع پر مختلف ممالک میں حیاتیاتی اورکیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں سامنے آئیں، مگر اس طرح کے معاملات میں ٹھوس سائنسی ثبوت اور حتمی نتائج پیش نہیں کیے جاتے۔

دوسری جانب ایک بیکٹریالوجسٹ کا موقف تھا کہ مختلف بیماریاں فطری طریقوں سے وقت کے ساتھ آتی جاتی رہتی ہیں۔ آج بیماریاں اس لیے تیزی سے ایک سے دوسری جگہ پھیلنے لگی ہیں کہ ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یا دنیا بھر میں ملیریا کس نے پھیلایا تھا، جو آج بھی دنیا بھر میں بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات کا سبب بنا ہوا ہے؟ وہ بھی فطری طریقے سے پھیلا تھا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ مختلف بیماریاں پھیلانے والے جرثومے دوائوں کے خلاف زیادہ مزاحمت کرنے لگے ہیں، کیوںکہ وہ پہلے والی دوائوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ 

سازش کی بات کرنے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انفلوئنزا کا پہلا کیس 1917ء میں مشرقِ بعید میں سامنے آیا تھا اور اس کے بعد یہ بیماری دنیا بھر میں پھیلی۔ اس طرح ڈینگی بخار کا کراچی میں پہلا کیس 1994ء میں سامنے آیا تھا۔یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر میں پیتھوجنز (بیماریاں پھیلانے والے جرثوموں) پر بہت کام ہوچکا ہے اور مزید ہورہا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ان پر زیادہ تر تحقیق اور تجربات ترقی یافتہ مغربی ممالک ہی میں ہوئے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ساری تحقیق اور تجربات منفی مقاصد کے لیے کیے گئے تھے یا کیے جا رہے ہیں۔ 

یہ کام ہم بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے جس قدر سائنسی ترقی اور سرمائے کی ضرورت ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ماضی میں ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دانوں اور محققین نے انسانوں پر ادویات کے تجربات کیے، جن میں سے بعض بہت متنازع بنے۔ ایسے زیادہ تر تجربات جنگی قیدیوں پر کیے جاتے تھے۔ لیکن آج دنیا بھر میں طبی اخلاقیات کے سخت اصولوں کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔

سازش ممکن ہے؟

یہ جون2009کی بات ہے۔سوائن فلو کے جراثیم کا چھڑکائو کرنے والے امریکی طیارے کو چین نے مار گرایا تھا۔ایسے ہی مشکوک اڑان بھرتے امریکی آپریٹیڈ طیارے کو بھارت اور نائیجیریا کی فضائیہ نے جبراً اتار تو لیا تھا، لیکن اس طیارے کو مار گرانے کی ان میں جرأت نہیں تھی۔ چین کا کہنا تھا اور بھارتی خفیہ ماہرین کا شک تھاکہ امریکی آپریٹیڈ یوکرینین طیارےسے بایولوجیکل ایجنٹس کا چھڑکائو کیا جا رہا تھا۔زمبابوے کے طیارے ایم ڈی-11سے زہریلے وائرس کا چھڑکائو کرنے والے امریکی آپریٹیڈ طیارہ کو چین کے شنگھائی میں واقع پوڈانہ ایئر پورٹ پر مار گرایا گیا تھا۔ 

چین نے سرکاری طور پر بتایا تھا کہ وہ طیارہ سی آئی اے سے منسلک ایواینٹ ایوی ایشن کمپنی کا تھا۔ برطانوی فوج کے سابق افسر اینڈ ریو اس کمپنی کے مالک تھے اور طیارے کا رجسٹریشن انگلینڈ کا تھا۔ اس میں سی آئی اے کے تین ایجنٹ مارے گئے تھے اور چار زخمی ہوئے تھےجو امریکا،بیلجیم، انڈو نیشیا اور زمبابوے کے شہری تھے۔ علاج کے دوران انڈو نیشیائی شہری نے چین کی خفیہ پولس کے سامنے یہ قبول کیا تھا کہ وہ امریکی فوج کے انڈو نیشیامیں واقع اڈےپر نیو ل میڈیکل ریسرچ یونٹ نمبر 2میں کام کرتاہے۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ انڈو نیشیا کے اس امریکی فوجی اڈے کو و ہا ں سے ہٹانے کے بارے میں انڈنیشیا کے وزیر دفاع ز بونو سدرشنوں کئی مرتبہ مطالبہ کر چکے تھے۔

یاد رہے کہ انڈو نیشیا میں واقع امریکی فوج کا بایو ویپن بیس، راک فیلر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔ راک فیلر انسٹی ٹیوٹ وائرل بیماریوں پر ریسرچ اور تراکیب پر کام کرنے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس حادثے کے کچھ ہی دنوں بعد 26جون 2009کو اے این-124کو ممبئی میں فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑی تھی۔ بھارتی فضائیہ نے امریکی آپریٹیڈ طیارے کو ممبئی میں ا تر نے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسے ہی دوسرے طیارے کو نا ئیجیریاکی فضائیہ نے اترنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 

نائیجیریا کی فضائیہ نے تو اس طیارے کے پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیاتھا۔ لیکن بھارت یہ ہمت نہیں دکھا پایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی فضائیہ نے بھارتی اور نائیجیریا کی فضائیہ کو ا س بارے میں پہلے ہی خبر کر دی تھی اور یہ بتا دیا تھا کہ ا مر یکی طیاروں سے سوائن فلو(ایچ -1،این -1)کے جراثیم کا چھڑکائو کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں تقریباً45ہزار کلو گرام خطرناک کچرا بھی دھویں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بکھیرا جا رہا تھا۔

اس بارے میں امریکا کا کہنا تھاکہ آپریشن اینڈ یو رنگ فریڈم کے تحت امریکی طیارہ افغانستان جا رہا تھا ، لیکن امریکی فضائیہ کو یو کرین کے طیارے کی ضرورت کیوں پڑی تھی، اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ممبئی ایئر پورٹ پر طیارے کو 24گھنٹے تک روکے رکھا گیا، لیکن بھارتی حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی اور آخر کار طیارے کو جانے کی اجازت دے دی گئی تھی ۔

چوکس چین، مستعد قیادت اور ہم

چین کے لیے یہ وائرس صرف انسانی صحت کا معاملہ نہیں ،بلکہ یہ اس کی قومی سلامتی،اقتصادی ترقّی اور عالمی معاملات میں اس کی تیزی سے ابھرتی ہوئی شبیہ کے تحفظ اور استحکام کا بھی ہے۔وہ اس معاملے کوبہت سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ سنبھال رہے ہیں اوربہت گہرائی و گیرائی کے ساتھ اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔اس بحران میں اب تک چینیوںکا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ بتاتا ہے کہ اس قوم کی اتنی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے کی وجوہات کیا ہیں اور آگے بڑھنے کی لگن رکھنے والی قومیں مشکل حالات میں کس طرح رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کا علاج کرنے کے لیے صرف چند دنوں میں ایک اسپتال تعمیر کر لیا گیا۔پچیس ہزار مربع میٹرزپر پھیلے ہوئےشیشان اسپتال میں تین فروری سے باقاعدہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔یہ کرونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے بنائے جانے والے دواسپتالوں میں سے ایک ہے۔جس جگہ یہ اسپتال بنایا گیا ہے وہاں جنوری کی 24 تاریخ کو زمین ہم وار کر کے بنیادیں کھودنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔دوسرا اسپتال بھی تادمِ تحریر موصولہ اطلاعات کے مطابق تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔

اس کے علاوہ چینی قیادت ہر طرح کے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔وہ اسے کسی جنگی مہم کی طرح برت رہی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی حالات، سفارتی معا ملات اورتمام ضروری اشیا کی بلا رکاوٹ ترسیل پر نظر رکھنے،ملکی ساکھ اور معیشت کو مستحکم رکھنے،حریفوں کی ریشہ دوانیوں اور اس وائرس کی آڑ میںچین کے خلاف ہونے والےپرو پیگنڈ ے کا توڑ کرنے کے لیے چین کا ہر شعبہ دن رات چوکس رہتا ہے۔وہ چین کے خلاف مغرب کے ہرمعاندانہ عمل کا جواب بھی دے رہےاور دنیا کو بین السطور یہ بتابھی رہے ہیں کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر دم لیں گے۔

یہ ہوتا ہے ردعمل،جو پوری دنیا کو نظر بھی آئے۔اور ایک ہم ہیں کہ کسی سے تشخیصی کِٹ حاصل کرکے بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ اب ہمیں اس وائرس کی تشخیص کی صلاحیت حاصل ہوگئی ہے۔کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔

حیاتیاتی اور کیمیائی جنگ… تاریخ سے مثالیں

حیاتیاتی اور کیمیائی جنگ کی تاریخ کافی پرانی ہے، تاہم اب اس کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسی جنگ کا معلوم تاریخ میں پہلا ثبوت 1200-1500میں ملتا ہے جب طاعون کے مریضوں کو دشمن ملک میں بھیج دیا جاتا تھا اور دشمنوں کے کنوئوں میں زہر ملا دیا جاتا تھا۔ یونان کا مشہور شاعر، ہومر ٹروجن وار کے حوالے سے لکھی گئی اپنی مشہورزمانہ نظم میں کہتا ہے کہ تیر اور بھالے زہر میں بجھے ہوئے تھے۔ 

یونان کی پہلی مقدس جنگ اندازاً 590 عیسوی میں ہوئی تھی، جس میں محاصرے میں لیے گئے شہر Kirrha کو پانی فراہم کرنے والے نظام کو زہر سے آلودہ کردیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے Hellebore نالی زہریلا پودا استعمال کیا گیا تھا۔ اسی طرح رومیوں کے کمانڈر مینیس ایکولِس نے 130ء میں محاصرے میں لیے گئے شہروں کے کنوئوں کو زہر آلود کردیا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی میں بعض جنگوں میں تیروں پر سانپ کے زہر، انسانی خون اور جانوروں کا فضلہ لگا دیا جاتا تھا، تاکہ ان سے لگنے والے زخم عفونت زدہ (انفیکٹڈ) ہوجائیں۔ 

اس کے علاوہ کئی مواقع پر پودوں اور سانپوں کے زہر اور دیگر اقسام کے زہر بھی استعمال کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ 184ء میں زہریلے سانپوں اور بچھوئوں سے بھرے برتن دورانِ جنگ دشمنوں پر پھینکنے کے واقعات ملتے ہیں۔ وسطی زمانے میں کالے طاعون کے مریض حیاتیاتی حملوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ 1346 میں یوکرین میں کافا کے محاصرے کے دوران تاتاری حملہ آوروں نے طاعون کی وجہ سے ہلاک ہوجانے والے منگول فوجیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی تھی اور دفاع پر مامور افواج کو پسپا ہونا پڑا تھا۔

شمالی امریکا میں 1763ء میں ایک ملک کی جانب سے دوسرے ملک کو چیچک کے جراثیم سے آلودہ کمبل اور رومال بھیجنے کا واقعہ تاریخ میں موجود ہے۔ اس ضمن میں برطانوی کمانڈرز کے درمیان 29 جون تا 26 جولائی، ہونے والی خط و کتابت میں سے چار خطوط کا پتا چلتا ہے۔ آسٹریلیا کے حقیقی باشندے (ایب اوریجن) ہمیشہ سے یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ برطانویوں نے آسٹریلیا پر قبضے کے لیے جان بوجھ کر 1789ء میں خسرہ کا مرض پھیلایا تھا۔ 

امریکا کی خانہ جنگی کے دوران جنرل شرمن نے یہ شکایت کی تھی کہ کنفیڈریشن کے حامی فارم کے جانوروں کو ان تالابوں میں لے جاکر ہلاک کردیتے ہیں، جہاں سے وفاق کی حامی افواج کے سپاہی پانی پیتے ہیں، جس سے وہ پانی پینے کے قابل نہیں رہتا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یورپی مہم جوئوں نے جنوبی پیسیفک کے ایک جزیرے میں جان بوجھ کر خسرہ کی بیماری پھیلائی تھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جرمنی نے حیاتیاتی جنگ کے پروگرام کو کافی ترقی دی تھی۔ 

فن لینڈ میں جرمنوں نے 1916ء میں سوویت یونین کی افواج کے گھوڑوں میں اینتھریکس کے جراثیم داخل کیے تھے۔ یہ جرثومے بخارسٹ (بلغاریہ) بھی بھیجے گئے تھے۔ یہ بھی ملتا ہے کہ جرمن انٹیلی جینس آفیسر اور امریکا کے ایک شہری ڈاکٹر اینٹون کیزمیر ڈِگلر نے میری لینڈ کی ریاست میں واقع اپنی بہن کے مکان میں ایک خفیہ تجربہ گاہ بنائی تھی، جہاں مال مویشیوں میں عفونت منتقل کرنے کے لیے گلینڈرز تیار کیے جاتے تھے، جنہیں جرمن دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد بھی حیاتیاتی اور کیمیائی حملوں اور منصوبوں کے بہت سے سراغ ملتے ہیں اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا جارہا ہے۔ 

مستقبل کی جنگیں اور ہتھیار ہلاکت خیز نہیں ہوں گے

امریکا میں 1999ء میں ’’فیوچر وار: نان لیتھل ویپن ان ٹوئنٹی فرسٹ سینچری‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب شایع ہوئی تھی، اس کتاب کے مصنف امریکا کی فوج میں کرنل کی حیثیت سے خدمات انجام دے کر ریٹائر ہونے والے جان الیگزینڈر ہیں۔ اس کتاب میں بہ دیسی نظام (Exotic System) مثلاً برقی مقناطیسی ہتھیار، حیاتیاتی اور کیمیائی وارفیئر، طبیعی رکاوٹ پیدا کرنے ذرایع، مثلاً گڈگنز، صوتی ہتھیار، اطلاعاتی جنگوں کی ٹیکنالوجیز وغیرہ کے عنوان سے ابواب شامل ہیں۔ 

اس کتاب میں کیے گئے انکشافات کی صحت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1999ء میں مصنف نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کمپیوٹرز کے نظام کو ہیکرز کے حملوں سے بچانے والے سافٹ ویئرز کی سالانہ فروخت جو 1995 میں ایک اعشاریہ ایک ارب امریکی ڈالرز مالیت کے مساوی تھی، بڑھ کر 2000ء میں16ارب امریکی ڈالرز کے مساوی ہوجائے گی۔ مصنف نے خود اس کتاب میں اپنے آپ کو نفسیاتی آپریشنز کا ماہر (Psyops) قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ جسمانی جنگوں اور دماغ کو کنٹرول میں بھی ماہر ہے۔ مصنف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر اس نے Thana To Logy یعنی موت کی سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ خفیہ آپریشنز کرنے والے ایک ایسے فوجی گروہ کا فعال رکن تھا، جس کا کام غلط اطلاعات پھیلانا تھا اور اس نے ویت نام میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ لکھتا ہے کہ امریکا کے اعلیٰ دماغ، فوجی حکام، سی آئی اے کے کرتا دھرتا اور دیگر متعلقہ ادارے مستقبل کی جنگوں کی حکمت عملی ترتیب دینے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، جس میں تمام حیاتیاتی اور کیمیائی آپشنز پر بھی نظر رکھی جاتی ہے اور اس بارے میں منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔ تاہم اس موضوع پر یہ واحد کتاب نہیں ہے، بلکہ اس ضمن میں امریکا اور برطانیہ میں کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ 

مثلاً 1997ء میں ورچوئل گورنمنٹ کے عنوان سے ایلکس کانسٹینٹائن کی کتاب، ڈیوڈ مور ہائوس کی کتاب بہ عنوان فزک واریئر، جو 1996ء میں شایع ہوئی تھی۔ تاہم جان الیگزینڈر کی کتاب اس ضمن میں اس لیے اہم ہے کہ وہ ریٹائر ہونے سے قبل ایڈوانس ہیومن ٹیکنالوجی آفس اینڈ سیکیورٹی کمانڈ کا سربراہ رہ چکا ہے اور لاس ایلموس میں واقع نان لیتھل ویپنز لیب کا انتظام چلاتا رہا تھا۔

تازہ ترین