• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کا انخلا اور ڈِیل آف دی سینچری
برسلز میں واقع یورپی یونین کے ہیڈکوارٹرز سے برطانوی پرچم ہٹایا جا رہا ہے

31جنوری کی رات کا وہ لمحہ کئی یادیں تازہ کر گیا کہ جب لندن میں یورپی یونین کے جھنڈے اور یورپی یونین کے مرکز، برسلز سے برطانوی پھریرا اُتار ا گیا۔ تب دونوں مقامات کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ لندن میں چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے، جب کہ برسلز میں اُداسی چھائی ہوئی تھی۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے نتیجے میں 47سالہ رفاقت انجام کو پہنچی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انخلا کے بعد برطانیہ، یورپ میں تنہا رہ جائے گا یا پھر ایک مرتبہ پھر سر بلند ہو گا۔ نیز، کیا بریگزٹ یورپی یونین کے بکھرنے کی ابتدا ہے۔ 

دوسری جانب مسئلہ فلسطین کو ایک مرتبہ پھر مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ریاستی حل کے تحت فلسطینی ریاست کے لیے نیا منصوبہ پیش کیا، جسے امریکا نے ’’ڈِیل آف دی سینچری‘‘ قرار دیا، جب کہ فلسطینی صدر، محمود عبّاس نے اسے فوراً مسترد کر دیا۔ دریں اثنا، عرب ریاستوں نے بھی اس پلان کو رد کر دیا اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ فی الحال اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ اسی عرصے میں ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور اب وہ نہ صرف نہایت اطمینان سے اپنی صدارتی مدّت پوری کریں گے، بلکہ سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی بھرپور حصّہ لیں گے۔

لندن میں جب یورپی یونین کا جھنڈا اُتارا جا رہا تھا، تو بِلاشُبہ بہت سی آنکھوں کے سامنے وہ واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے ہوں گے کہ جو اس علیحدگی کا باعث بنے۔2016ء میں اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون نے اس عزم و یقین کے ساتھ بریگزٹ ریفرنڈم کروایا تھا کہ وہ برطانیہ اور یورپی یونین کو جوڑے رکھنے میں کام یاب ہوں گے۔ کیمرون سال بَھر پہلے ہی خاصی اکثریت سے دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوئے تھے، لیکن ریفرنڈم کے نتائج نے اُن کے اعتماد، جوش اور یقین کو مایوسی میں بدل دیا۔ 

ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے اُن کی ہر دلیل اور التجا مسترد کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں فیصلہ دیا۔ ریفرنڈم کے بعد اگلے تین برسوں تک برطانیہ سیاسی بُحران اور برطانوی عوام بے یقینی کا شکار رہے اور یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے مذاق بن کر رہ گئے۔ تاہم، گزشتہ برس 12دسمبر کو برطانوی عوام نے کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما، بورس جانسن کو بھاری اکثریت سے وزیرِ اعظم منتخب کر کے اُنہیں بریگزٹ کو انجام تک پہنچانے کا حق دے دیا۔

برطانیہ کا انخلا اور ڈِیل آف دی سینچری
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانوی شہری جشن منارہے ہیں

بورس جانسن نے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے بِلا تاخیر پارلیمنٹ سے یورپی یونین سے علیحدگی کے بِلز منظور کروائے اور اپنے دعوے کے عین مطابق 31جنوری کو برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کر لیا۔ گرچہ تین برس تک برقرار رہنے والی بے یقینی کو بعض ماہرین وقت کا زیاں کہتے ہیں، لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ برطانیہ کے عوامی نمایندوں، سرکاری حُکّام اور ماہرین کو بریگزٹ کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کا موقع مل گیا، پھر عوام کو بھی اس فیصلے کے اثرات پر غور و فکر کے لیے خاصی مُہلت ملی اور وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ یاد رہے کہ دُور رس اثرات کے حامل قومی فیصلے اسی قسم کے بحث مباحثے کا تقاضا کرتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی حسّاس کیوں نہ ہوں۔ 

دوسری جانب یورپی یونین کے رُکن ممالک کو بھی اس صدمے کو برداشت کرنے اور اپنی نئی حکمتِ عملی تشکیل دینے کا موقع مل گیا۔ گرچہ گزشتہ تین برس کے دوران فریقین کے مابین کافی تلخی رہی، لیکن اس عرصے نے انہیں علیحدگی کے نقصانات سے نبرد آزما ہونے کی طاقت فراہم کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ 31جنوری کو کہیں ماتم کا سماں نظر نہیں آیا، بلکہ برطانیہ اور یورپی یونین کے لیڈرز بریگزٹ کے مثبت پہلوئوں پر بات کرتے رہے۔

برطانیہ کا انخلا اور ڈِیل آف دی سینچری
ڈونلڈ ٹرمپ، نیتن یاہو سے اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے

یاد رہے کہ ماضی میں برطانیہ نے اپنی عظمت کا سفر تنہا ہی طے کیا تھا۔ اُس نے ایک چھوٹے سے گُم نام جزیرے سے نکل کر دُنیا پر حُکم رانی کی۔ دونوں عالمی جنگوں کے دوران اس نے اہم ترین کردار ادا کیا اور طاقت کا مرکز رہا۔ برطانیہ نے یورپ کو بلندی پر پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور عروج کے زمانے میں یورپ کی کوئی طاقت اس کے ہم سَر نہ تھی۔ تاہم، اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یورپی ممالک اور برطانیہ نے ایک ساتھ ہی عروج حاصل کیا اور ایک ہی طرح کے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے دُنیا پر برتری حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے۔

ان کی تہذیبوں کا منبع یونان، روم اور بازنطینی سلطنت ہیں، تو ان میں انقلابِ فرنس، صنعتی انقلاب اور جمہوری ارتقا کے اثرات بھی یک ساں ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان خوش کُن یادوں ہی نے برطانوی عوام کو اپنی عظمتِ رفتہ کے حصول کی جانب مائل کیا، جب کہ بظاہر برطانیہ کی علیحدگی کا سبب وہ یورپی تارکینِ وطن ہیں، جو فلاحی ریاست سے فواید تو اُٹھاتے رہے، لیکن انہوں نے مقامی باشندوں کی طرح ٹیکسز میں اپنا حصّہ نہیں ڈالا۔گرچہ اس وقت برطانیہ کا دیرینہ اتحادی، امریکا اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برطانیہ، امریکا کی اعانت سے ایک بار پھر یورپ پر فضیلت حاصل کرلے گا۔ 

واضح رہے کہ یورپی یونین میں جرمنی کا مرکزی کردار برطانیہ کے لیے خوش گوار تجربہ نہ تھا۔ لندن میں اکثر اس قسم کی باتیں سُننے کو ملتی تھیں کہ برسلز پر بون کا قبضہ ہے اور وہ اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلّط کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شُبہ نہیں کہ مِرکل کی چانسلر شپ کے دَور میں جرمنی نے معاشی ترقّی کے نئے ریکارڈز قائم کیے۔ یہ اقتصادی میدان میں یورپ کا رہنما بنا اوردُنیا کی پانچویں بڑی معاشی قوّت کے طور پر سامنے آیا۔ تب یہ تاثر بھی عام ہوا کہ شاید جرمنی اور فرانس مل کر یورپ میں طاقت کا مرکز بنیں گے اور برطانیہ کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئیں گے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ برطانیہ اپنی تمام انفرادیت کے باوجود یورپ ہی کا حصّہ ہے۔ 

برطانیہ کا انخلا اور ڈِیل آف دی سینچری
فلسطینی صدر، محمود عبّاس قاہرہ میں منعقدہ عرب لیگ کے اجلاس میں شریک ہیں 

گرچہ برطانیہ، یورپی یونین سے الگ ہو چُکا ہے، لیکن جغرافیائی و تاریخی طور پر دونوں ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ ہیں۔ ماضی میں یورپ نے مل کر بیرونی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور پہلی اور دوسری عالمی جنگ نے دونوں کے سیاسی و معاشی مفادات میں ہم آہنگی پیدا کر دی۔ اب چاہے سنگل مارکیٹ ہو یا ڈبل ، دونوں کو ایک دوسرے کے معاشی مفادات کی نگہبانی کرنا پڑے گی اور یہ مفادات ہی اُنہیں ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب رکھیں گے۔ آج برطانیہ ایک مرتبہ پھر تنہا ترقّی و خوش حالی کے سفر پر گام زن ہے اور اب اس کی کام یابی کا دارومدار اُن عوام پر ہے، جنہوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیاتھا۔

مسئلہ فلسطین ایک عرصے سے سرد خانے کی نذر تھا۔ تاہم، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نئے فلسطین پلان کے ذریعے ایک مرتبہ پھر دُنیا کو یہ احساس دلا دیا کہ یہ ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ تاہم، فلسطین کے صدر، محمود عباس، فلسطینی رہنمائوں اور عوام نے اس منصوبے کو یک سَر مسترد کر دیا۔ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ فلسطین پلان کے دو بنیادی نکات ہیں۔ اوّل، یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور دوم، مغربی کنارے پرقائم اسرائیلی بستیوں کی باقاعدہ منظوری۔ ہر چند کہ فلسطینی قیادت ماضی میں ان دونوں نکات کو مسترد کرتی رہی ہے، لیکن تب ساتھ ہی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بات چیت بھی جاری تھی۔ 

گزشتہ برس ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا، تو بیش تر ممالک نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ مخالفت کرنے والوں میں اسرائیل کی بنیاد رکھنے والے یورپی ممالک بھی شامل تھے، جس پر امریکا نے خاصی ناراضی کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ یروشلم اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں مذاہب کے پیرو کاروں ہی کے لیے اہمیت کا حامل شہر ہے اور اسی باعث اسے بین الاقوامی حیثیت دینے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ نیز، یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ گزشتہ 1.5ہزار برس کے دوران بیش تر عرصہ یروشلم اسلامی دُنیا کا حصّہ رہا اور مسلمان اسے بیت المقدس کہتے ہیں۔

دسمبر 1919ء میں برطانوی جرنیل، ایلن بی نے خلافتِ عثمانیہ کی افواج کو شکست دے کر اسے اپنی عمل داری کا حصّہ بنایا۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر 1967ء تک بیت المقدس اقوامِ متّحدہ کے مینڈیٹ کے تحت دو حصّوں میں منقسم رہا۔ اس کا ایک حصّہ اسرائیل کے پاس تھا اور دوسرا اُردن کے۔ 1967ء کی عرب، اسرائیل جنگ میں عرب افواج کی شکست کے نتیجے میں پورا یروشلم اسرائیل کے قبضے میں آ گیا اور تب سے مسئلہ فلسطین کا شمار دُنیا کے اہم ترین تنازعات میں ہونے لگا۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے پہلے بھی کئی منصوبے پیش کیے جاتے رہے ہیں اور ان کوششوں میں کیمپ ڈیوڈ مذاکرات و معاہدہ، فلسطینی ریاست کا قیام اور اسرائیل و فلسطینی قیادت کے درمیان مذاکرات کے متعدد ادوار شامل ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے بعد نہ صرف مصر نے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا، بلکہ فلسطین نے بھی اسے تسلیم کرتے ہوئے اس سے باضابطہ مذاکرات کیے۔ 

تاہم، گزشتہ کم و بیش ایک عشرے سے زاید عرصے کے دوران خطّے میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں نے، جن میں عرب اسپرنگ، شام کی خانہ جنگی، یمن کا تنازع اور لیبیا کا بُحران وغیرہ شامل ہیں، مسئلہ فلسطین کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کی دو با اثر طاقتوں، ایران اور سعودی عرب کے مابین خطّے میں برتری کی جنگ نے اس نصب العین کو خاصا نقصان پہنچایا اور اس دوران مسئلہ فلسطین نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا تجویز کردہ منصوبہ معروف دو ریاستی حل پر مبنی ہے۔ 

یعنی غزہ کے علاقے کو توسیع دے کر فلسطین میں شامل کر دیا جائے اور موجودہ فلسطین ہی کو ایک ریاست تسلیم کر لیا جائے۔ اس کے نتیجے میں یروشلم یا بیت المقدس فلسطین کا حصّہ نہیں رہے گا اور یہودی بستیاں، جو عربوں کو بے دخل کر کے بنائی گئی ہیں، مستقل حیثیت اختیار کر لیں گی۔ گو کہ منصوبے کی رُو سے یہ تمام معاملات اسرائیل اور فلسطین کی قیادت بات چیت کے ذریعے طے کرے گی، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ پلان کے ابتدائی حصّے میں اسرئیل کا تو ہر مطالبہ تسلم کر لیا گیا، جب کہ فلسطینی عوام کی اُمنگوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔

گرچہ ٹرمپ کے مذکورہ پلان کو ’’ڈِیل آف دی سنچری‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن یہ ڈِیل کم اور پہلے سے طے شدہ منصوبہ زیادہ محسوس ہوتا ہے اور اسی وجہ سے فلسطین کی جانب سے اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس منصوبے پر فلسطین کی ناراضی کا یہ عالم ہے کہ اس نے امریکا اور اسرائیل سے تعلقات تک منقطع کرنے کا اعلان کر دیا۔ 

نیز، بیش تر عرب ممالک نے اس پلان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جب کہ ایران اور تُرکی نے اس پر شدید تنقید کی۔ یعنی مجموعی طور پر یہ منصوبہ عالمِ اسلام کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ گو کہ ٹرمپ کے فلسطین پلان نے ایک مرتبہ پھر مسئلہ فلسطین کو مرکزِ نگاہ بنا دیا ہے، لیکن اس میں فلسطینی انتہائی گھاٹے میں ہیں اور اب فلسطینی قیادت کے سامنے دو ہی راستے باقی بچے ہیں، وہ دوبارہ مزاحمت کا راستہ اختیار کرے یا پھر کم زور حیثیت میں مذاکرات کی میز پر آ جائے۔ ایران، عرب تنازعے نے عربوں اور ایران دونوں ہی کو اس قدر کم زور کر دیا ہے کہ وہ اس وقت بالکل بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ 

پھر تیل کی کم قیمتوں نے بھی ان کا زور توڑ دیا ہے۔ ٹرمپ کے پلان پر ایران اور تُرکی نے جوشیلے بیانات تو دیے ہیں، لیکن یہ دونوں ممالک اپنے اندرونی و بیرونی محاذوں پر اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ شاید ہی کوئی عملی قدم اُٹھا سکیں، ماسوائے اس کے کہ فلسطینیوں کی مزاحمت کی حمایت کریں۔ فلسطینی ریاست اپنی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک خود کو مستحکم نہیں کر سکی اور اس کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، الفتح اور حماس میں مستقل کشمکش جاری رہتی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کو نہ صرف امریکا اور یورپ کی پُشت پناہی حاصل ہے، بلکہ وہ رُوس اور چین کا بھی اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔

یہ رُوس اور چین دونوں کو ہتھیاروں سمیت دوسری جنگی ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاید ہی کبھی ماسکو یا بیجنگ نے عملاً اسرائیل کی مخالفت کی ہو۔ رُوسی افواج شام میں گزشتہ تین برس سے موجود ہیں اور شامی مسلمانوں پر کُھلے عام بم باری کررہی ہیں، لیکن اسرائیل جب چاہتا ہے شام میں موجود ایرانی تنصیبات کو تباہ کر دیتا ہے اور رُوس محض یہ بیان دینے پر اکتفا کرتا ہے کہ حملے میں رُوسی تنصیبات تباہ نہیں ہوئیں اور نہ ہی کوئی رُوسی اہل کار ہلاک ہوا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین پلان پیش کرنے کے بعد امریکا میں آیندہ صدارتی انتخابات کا مرحلہ شروع ہو چُکا ہے اور اپنے خلاف مواخذے کی تحریک بُری طرح ناکام ہونے کے بعد امریکی صدر انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اب وہ اپنی انتخابی مُہم میں بار بار یہ دعویٰ کریں گے کہ انہوں نے اپنی پہلی مدّت کے دوران دُنیا کے اہم ترین تنازعات کا پُر امن حل پیش کیا۔ 

مثال کے طور پر امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، شمالی کوریا کو اپنے جوہری عزائم سے روکنے کے لیے وہ دو بار کِم جونگ اُن سے ملاقات کر چُکے ہیں، شام سے امریکی فوج کی واپسی ہوئی اور ایران سے مذاکرات اور مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی۔ ٹرمپ کے ان دعوئوں کے نتیجہ خیز ہونے سے قطع نظر، آیندہ صدارتی انتخابات میں امریکی ووٹرز کا ردِ عمل دیکھنا ہو گا۔

تازہ ترین