• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نئی دہلی سے کراچی: چینی سفیر کا مشن پاکستانیوں کی خدمت

نئی دہلی سے کراچی: چینی سفیر کا مشن پاکستانیوں کی خدمت


’جب بھی پاکستان اور بھارت کا ذکر آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام میں کھانے، ثقافت، کھیل سمیت کئی چیزیں مشترک ہیں، اور میری یہ خواہش ہے کہ دونوں اقوام اپنے ماضی کو بھول جائیں اور پڑوسیوں کی طرح پُرامن انداز میں رہیں‘۔

یہ الفاظ تھے کراچی میں چین کے نئے قونصل جنرل لی بیجیان کے جنہوں نے اس سے قبل 5 سال بطور چینی ڈپٹی چیف آف مشن نئی دہلی میں گزارے۔

لی بیجیان ایک تجربہ کار چینی سفارتکار ہیں جن کا جنوبی ایشیا میں سفارتکاری کا وسیع تجربہ ہے، وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی آنے سے قبل بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان میں چینی سفارتی مشن کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

خوش مزاج طبعیت کے مالک لی بیجیان نے دی نیوز سے خصوصی گفتگو کی اور اس دوران پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)، پاکستان اور بھارت کے تعلقات، کورونا وائرس، ووہان میں پھنسے پاکستانیوں اور چینی سفارتخانے کی پاکستان میں خدمات پر بات چیت کی۔


’ہمارا مقصد پاکستانیوں کی خدمت‘


کراچی میں اپنی تعیناتی سے متعلق چینی سفارتکار کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں اپنے پیشہ ورانہ امور انجام دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں اپنی خدمات پیش کرنے کا خواب دیکھا تھا جو آج پورا ہوگیا۔

اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لی بیجیان کا کہنا تھا کہ بچپن ہی سے ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ پاکستان ہمارا بھائی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتہ تاریخ اور وقت کی کسوٹی پر پورا اترا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے سفارتی کیریئر کے دوران مجھے پاک چین دوستی سے متعلق یہ جملہ ’پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے‘ ہر رو سے سمجھ آگیا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا مقصد ہے کہ میں اپنے پاکستان بھائی اور بہنوں کی خدمت کروں۔

کراچی میں اپنی تعیناتی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’مجھے اس وقت بے حد خوشی ہوئی جب نئی دہلی میں مجھے یہ خبر ملی کہ میرا اگلا اسائنمنٹ پاکستان میں کام کرنا ہوگا، تاہم کراچی میں بطور قونصل جنرل تقرری کے بعد اب میرا یہ خواب پورا ہوگیا‘۔

چینی سفارتکار نے کہا کہ اب جب میں یہاں موجود ہوں تو میں ان دونوں قوموں کے درمیان مزید قربت پیدا کرنے اور دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہر وہ کام کروں گا جو میں کرسکتا ہوں۔


’جو ہوگیا سو ہوگیا‘


لی بیجیان پاکستانی کھانوں کے بے حد شوقین ہیں اور اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں آنے سے قبل مجھے اور میری اہلیہ کو یہ جاننے کا تجسس تھا کہ کراچی کیسا ہوگا اور وہاں زندگی کیسی ہوگی؟‘

چینی سفارتکار کا پاکستانیوں اور بھارتیوں کو مشورہ


چونکہ چینی سفیر بھارت میں بھی کام کر چکے ہیں، تاہم اسی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے پاکستانی کھانوں سے بہت پیار ہے، یہ بہت ہی دلچسپ ہے کہ نئی دہلی کے ریسٹورانٹس میں بھی روٹی، جلیبی، سموسہ اور یہاں تک کہ چکن تندوری بھی ملتی تھی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے چینی سفارتکار کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان اور بھارت میں کافی چیزیں مشترک دیکھی ہیں، وہاں کے کھانوں، ثقافت اور یہاں تک کہ زبان بھی ایک جیسی ہے۔

اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب آپ بھارت کے مغربی علاقوں کا دورہ کریں گے تو آپ کو ہندی اور اردو میں یکسانیت ملے گی۔

چینی سفیر نے اپنی بات چیت میں دونوں ممالک کی ثقافت میں ملتے ایک اور پہلو پر بات کی اور وہ تھا عوام میں کرکٹ کا جنون۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نئی دہلی میں اپنے وقت کے دوران بہت محظوظ ہوا، 5 سال کا عرصہ کافی لمبا تھا لیکن اس دوران میں نے وہاں کے مقامی لوگوں سے زیادہ گھلنے ملنے کی کوشش کی۔

اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کشدیدہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے لی بیجیان کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دو قوموں کے درمیان کتنے اختلافات ہیں، لیکن بطور ہمسائے آپ کو پرامن انداز میں رہنا ہے۔ جیسا وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے دوستوں کا تو انتخاب کر سکتے ہیں لیکن اپنے لیے ہمسائے کا انتخاب کبھی نہیں کرسکتے، کیونکہ ہمسائے ہمیشہ کے لیے آپ کے ہمسائے ہی رہیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کچھ مسائل تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں اور انہیں راتوں رات پہلے جیسی حالت میں نہیں لایا جاسکتا، لیکن ہمیں باہمی طور پر قابل قبول مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔

لی بیجیان کا کہنا تھا کہ ہمیں مسائل کو حل کرنے کے لیے نئے خیالات لے کر آنا ہے۔ جو ہوگیا سو ہوگیا، امن اور استحکام سب سے اہم ہیں اور اسی وجہ سے میں پاکستان اور بھارت میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ مل کر مسائل کا حل نکالیں اور آگے بڑھیں اور یہی میری خواہش ہے۔


’چین کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے پُر عزم‘


کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی خوف کے باوجود بیجنگ کا عزم ہے کہ وہ اس وائرس کے خلاف جنگ جیت جائے گا جو چین میں ہی 800 سے زائد اموات کی وجہ بن چکا ہے۔

خیال رہے کہ نزلہ اور زکام جیسا یہ وائرس سب سے پہلے چینی شہر ووہان میں سامنے آیا جس کی وجہ سے صرف چین میں ہی 37 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ چینی صوبہ ہوبے مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے۔

لی بیجیان کہتے ہیں کہ اس مہلک وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے چینی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے تھے وہ کامیاب ہوگئے ہیں، چینی صدر شی جن پنگ اور پریمیئر لی کیانگ بذات خود اس پوری مہم کی نگرانی کر رہے ہیں جو کورونا کے خلاف ہماری سنجیدگی اورعزم و ہمت کی مثال ہے۔

انہوں نے متاثرہ علاقوں میں ادویات اور دیگر آلات کے پہنچنے کی تاخیر کا اعتراف کیا اور اس کی وضاحت دی کہ چین میں اسپرنگ فیسٹیول کی وجہ سے مناسب وقت پر ماسک اور دستانوں کی پروڈکشن شروع نہیں ہوسکی تھی۔

لی بیجیان نے کہا کہ ووہان کو کورنتائن میں رکھنا اور وہاں کے باسیوں کی دیگر شہروں میں آزادانہ نقل و حمل پر پابندی کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔

اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے چینی سفارتکار نے کہا کہ ایسا کرنے سے ہم نے اس وائرس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلنے سے روکا ہے اور یہ اقدام بہت موثر رہا ہے۔ اس کے علاوہ شنگھائی اور بیجنگ میں اٹھائے گئے اقدامات کے بھی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کچھ سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم کو یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ اس وائرس کو ختم کرنے سے متعلق دوا تیار کریں تاہم اس میں کچھ پیش رفت سامنے آئی ہے۔

قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انہیں کچھ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کچھ قدیم چینی ادویات کورونا کے خلاف کام کرنے میں بہت فائدہ مند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پورے چین میں لوگ مضبوط اقدامات کے ساتھ اس وائرس کو کنٹرول اور اس کے خلاف لڑنے کے لیے پرعزم ہیں اور مجھے یقین ہے کہ بالآخر ہم یہ جنگ جیت جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کو بچانے کے لیے ووہان کے لوگوں نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔


’پاکستانی ووہان سے نہ نکالے جائیں‘


ووہان میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے اور چینی حکومت کی جانب سے اس شہر کو بند کیے جانے کے بعد وہاں موجود پاکستان طلبہ کے اہل خانہ پریشانی کا شکار ہوگئے تھے جبکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے پیاروں کو اس موت کے وادی سے نکال کر واپس پاکستان لایا جائے۔

ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز جاری کیں جن میں انہوں نے اسلام آباد میں موجود حکام سے مطالبہ کیا کہ جیسا کے دیگر ممالک اپنے شہریوں کو ووہان سے نکال رہے ہیں ویسے ہی انہیں بھی اس شہر سے نکالا جائے۔

تاہم پاکستانی حکومت اس مطالبے کے خلاف گئی اور پاکستانیوں طلبہ کو وہاں سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔

حکومت پاکستان کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے لی بیجیان کہتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے موجود آلات کو مد نظر رکھتے ہوئے طلبہ کو چین سے نہ نکالنے کا فیصلہ بالکل درست ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر پاکستان طلبہ کو ووہان میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں مشکلات پیش آئیں جس کی وجہ ان کا گھبراہٹ کا شکار ہوجانا قابل فہم ہے۔

لی بیجیان کا کہنا تھا کہ جب ہمیں یہ معلومات حاصل ہوئیں تو متعلقہ حکام کو ہدایت کی گئیں کہ پاکستان طلبہ سے متعلق معاملات کو دیکھیں اور انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کریں جبکہ ان تک حلال کھانے پہنچانے کو بھی یقینی بنائیں اور اس بات کو بھی یقین بنایا جائے کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر محفوظ رہیں۔

لی کا یہ بھی کہنا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے پاکستانیوں کی خصوصی دیکھ بھال کی جارہی ہے جبکہ کچھ پاکستانی وہاں چینی مریضوں کی دیکھ بھال اور ان کی معاونت بھی کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستانیوں کو بہتر سے بہترین سہولیات اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ چین میں ان کے قیام کو محفوظ اور پر سکون ہونے کو یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے پاکستان کی جانب سے چینی باشندوں کی مدد کرنے کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔


’سی پیک قرضوں کا جال نہیں‘


مغربی ممالک کی جانب سے الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کالونی بنانے اور قرضوں کو جال بُننے کا ایک آلہ ہے تاہم چینی سفارتکار نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔

لی بیجیان کا کہنا تھا کہ میں یہاں یہ بات ضرور کہوں گا کہ سی پیک نے بڑی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں اور اس کی وجہ سے پاکستان کو ثمرات ملنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتکاری، ذراعت اور غربت کے خاتمے پر توجہ دی جائے گی۔

چینی سفاتکار کہتے ہیں کہ صنعتکاری کی وجہ سے نوجوان آبادی کو ملامتوں کے مواقع ملیں گے۔

اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ سی پیک کے لیے لیا گیا قرضہ پاکستان کے کل قرضے کا صرف 6 فیصد ہے جبکہ پاکستان نے 94 فیصد قرضہ مغربی اداروں سے لیا ہے۔

سی پیک کی وجہ سے کالونی بنانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے چینی سفارتکار کا کہنا تھا کہ یہ الزامات بھی بے بنیاد ہیں کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیگر ممالک کی کولونیل ازم کا کیا مطلب ہوتا ہے۔

انہوں نے ڈیجیٹل ذراعت کے فروغ کے لیے نئی ٹیکنالوجی متعارف کرنے کے لیے بیجنگ کی مدد کی پیشکش کی، جو پاکستان میں ذرعی پیداوار میں اضافے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں ٹڈی دل کے حملوں کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے لی بیجیان نے کہا کہ چین کے پاس ان کیڑوں سے فصلوں کو بچانے کا ایک وسیع تجربہ ہے جبکہ وہ اس میں بھی مدد کرنے کی پیشکش کر چکا ہے۔


’چین کی ڈیجیٹل سفارتکاری‘


جب ان سے سوال کیا گیا کہ ٹوئٹر کس حد تک میزبان ممالک پر چینی نظریے کو پہنچانے کے لیے اثر انداز ہوسکتا ہے تو لی بیجیان نے جواب دیا کہ ’موجودہ دور میں سوشل میڈیا بات چیت کا ایک اہم ذریعہ اور جدید دور میں زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔

لی بیجیان کو یقین ہے کہ سوشل میڈیا کو دوسروں کے خلاف تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے یہ دوسروں کو سمجھنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پلیٹ فارم ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے نظریات کو شیئر کرنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی وجہ سے میرے ٹوئٹر پر 2 اکاؤنٹس ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین