• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعظم عمران خان نے غربت کے خاتمے پر بھرپور توجہ مرکوز کرلی

ملکی سیاست میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کی ناراضگی سے جنم لینے والی تبدیلی کی افواہیں اور قیاس آرائیاں اب ٹھنڈی پڑچکی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ اتحادی جماعتوں کی ناراضگی اور گلے شکوے بدستور موجود ہیں۔ ان سے رابطے بھی کئے جا رہے ہیں لیکن اپوزیشن اتحاد ٹوٹ گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے مایوس ہو گئے ہیں اور اب یہ جماعتیں ان کے اتحاد کا حصہ نہیں رہیں ۔ 

وہ یہ کہتے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے قوم کو منجھدار میں چھوڑ دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو بھی کہتے رہیں بہرحال یہ ممکن نہیں ہے کہ ان سے بڑی سیاسی جماعتیں ان کی ڈکٹیشن یا ان کی خواہش کی تکمیل کیلئے آنکھیں بند کرکے چلیں۔ ہر جماعت اپنی سیاسی حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر چلنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اتحاد مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنے کارڈ کھیل رہی ہیں۔ 

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد ہی عملی طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے راستے مولانا فضل الرحمن سے جدا ہو گئے تھے۔ اب مولانا فضل الرحمن نے رسمی اعلان بھی کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اپنے مسائل ہیں ۔ اس کے قائد نواز شریف بیمار ہیں۔ مریم نواز ان کے پاس جانا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے علاوہ دوسرے درجے کی قیادت کو نیب کے کیسز کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی کیسز کا سامنا ہے۔ دونوں جماعتوں کو بہر حال ووٹ دینے کے ثمرات کا انتظار ہے۔ اپوزیشن کی تقسیم سے پی ٹی آئی کی حکومت کو ظاہر ہے کی سیاسی فائدہ ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وزیراعظم عمران خان کی اصل اپوزیشن مہنگائی ہے۔

قومی اسمبلی میں بھی مہنگائی کے ایشو پر بحث ہوئی ہے۔ خود عمران خان کو اس کا ادراک ہے کہ لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم معاشی ٹیم کے کہنے پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معیشت مستحکم ہو گئی ہے اور 2020ریلیف کا سال ہے۔ عملی صورتحال یہ ہے کہ جنوری 2020 میں مہنگائی کی شرح 14.6فی صد رہی جو جنوری 2010کے بعد گیارہ سال کی بلند ترین شرح مہنگائی ہے۔ 

حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن جنوری 2020 میں برآمدات کی شرح 3.17فی صد کم ہوئی۔ دسمبر 2019میں بھی برآمدات کی شرح چار فی صد کم رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کے ساتھ آزدانہ تجارت کے معاہدہ دوم کا یکم جنوری سے اطلاق ہو چکا ہے۔ دسمبر میں 45نئے ٹریڈ افسران بھی بیرون ملک سفارتخانوں میں تعینات کئے گئے ان کی کارکردگی کو بھی جانچا جائے۔ 

وزیراعظم عمران خان اگرچہ خود مہنگائی کو کم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور وہ غریبوں کی تقدیر بلدنا چاہتے ہیں لیکن ان کی معاشی ٹیم بدقسمتی سے وہ کارکردگی نہیں دکھا سکی جس کے نتیجے میں مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا۔ مہنگائی کے اسباب کو جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرروت نہیں ہے۔ مہنگائی کی چار بڑی وجوہات ہیں۔ موجودہ حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں تین روپے 85پیسے فی یونٹ اضافہ کیا۔ گیس کی قیمت میں 334فیصد تک اضافہ کیا جا چکا ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ چوتھا نکتہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ 

ڈالر کی شرح تبادلہ 155روپے ہے۔ ان چاروں اقدامات کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب آیا ہے اور ظاہر ہے کہ وزیر اعظم ان حکومتی اقدمات سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔ معاشی ٹیم کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ لارج اسکیل مینوفیچرنگ شعبہ کی گروتھ منفی 6فیصد ہے۔ ایف بی آر نے بجٹ میں ریونیو کی وصولی کا ہدف 5550ارب روپے مقرر کیا تھا۔ آئی ایم سے مذاکرات میں اسے کم کرکے 5238ارب روپے کر دیا گیا لیکن نظر ثانی شدہ ہدف کو بھی حاصل نہیں کیا جاسکا اور ساتھ میں ریونیو کا شارٹ فال 218ارب روپے ہے۔ 

ملک میں بزنس اور صنعتی سرگرمیوں کے جمود کی بڑی وجہ اسٹیٹ بنک کا شرح سود ہے جو 13.25فیصد ہے۔ اس شرح سود پر قرضہ لے کر بزنس یا کارخانہ چلانا ناممکن ہے۔ حکومت نے درآمدات کو کم کرکے تجارتی خسارہ توکم کرلیا ہے لیکن ایف بی آر کو درآمد کم کرنے سے 280ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ درآمدات کو روکنے کی وجہ سے سمگلنگ بھی بڑھ گئی ہے۔ افغانستان سے سمگلنگ کو روکنا بہر حال حکومتی اداروں کی ہی ذمہ داری ہے۔

نج کاری کے دعوے بھی صرف دعوے رہے اور ڈیڑھ سال میں حکومت ایک سر کاری ادارہ بھی فروخت نہیں کر سکی۔ پاکستان اسٹیل ملز ، پاکستان پوسٹ، پی آئی اے، ریلوے، ڈسکوز اور یوٹلیٹی سٹورز کار پوریشن سمیت کئی ادارے سفید ہاتھی ہیں جن کی وجہ سے کئی سو ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ جب تک نقصان میں جانے والے اداروں سے نجات حاصل نہیں کی جائے گی تو بجٹ خسارہ کم نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان یہ جان لیں کہ اگر مہنگائی کے جن کو قابو میں نہ کیا گیا تو اپوزیشن کو حکومت سے نجات کیلئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

مسلم لیگ ن اور پیلپز پارٹی کو بھی یہی توقع ہے کہ موجودہ حکومت مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ دے گی۔ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن ان دنوں اسلام آباد میں ہے اور ان کا دبائو ہے کہ ریونیو کا شارٹ فال دور کرنے کیلئے مزید ٹیکس لگائے جائیں۔ ٹیکس مینجمنٹ اور ٹیکس اصلاحات کے نام پر منی بجٹ آنے والا ہے۔ نئے ٹیکس لگائے گئے تو مہنگائی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائے گی۔ وزیر اعظم نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے قدامات کی ہدایت کی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کے پیکج کو رمضان کے آخر تک جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے وزات خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو اضافی وسائل دیے جائیں ۔ راشن کارڈ سکیم کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ 

وزیر اعظم یوتھ لون پروگرام کے تحت پانچ لاکھ نوجوانوں کو نئے ریٹیل سٹورز کھولنے کیلئے قرضے دیے جائیں گے۔ لنگر خانوں اور پناگاہوں کے پروگرام کی بجائے غربت کے خاتمے اور متوسط طبقہ پر توجہ دی جائے ۔ سرکاری ملازمین اور نجی اداروں کے ملازمین کی زندگی مہنگائی سے اجیرن ہو گئی ہے۔ مہنگائی کا لاوہ پک کر اگر سڑکوں پر آگیا تو عوامی غیض وغضب کا یہ سیلاب سب کچھ بہاکر لے جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان معاشی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ اپوزیشن سے ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنائیں۔ 

جس طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری کی گئی ہے اسی طرح اپوزیشن سے مل کر میثاق معیشت پر دستخط کریں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ بنیادی قومی ایشوز پر قومی اتفاق رائے پیدا ہو لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر اعظم عمران خان کا بے لچک رویہ ہے۔ وزیر اعظم کا مزاج ایسا ہے کہ وہ اختلاف رائے کی بجائے نفرت کی حد تک چلے جاتے ہیں ۔ پانچ فروری کو مظفر آباد میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی سےخطاب میں بھی یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر بھی انہوں نے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا حالانکہ یہ اس تنقید کیلئے مناسب موقع تھا اور نہ موزوں فورم۔

تازہ ترین
تازہ ترین