• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت قائم رہی تو معیشت نہیں چلے گی‘خرم دستگیر

’موجودہ حکومت قائم رہی تو معیشت نہیں چلے گی‘


کراچی (ٹی وی رپورٹ)مسلم لیگ (ن) کے رہنماءخرم دستگیر نے کہاہے کہ موجودہ حکومت قائم رہی تو معیشت نہیں چلے گی جبکہ پیپلزپارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے ‘ہمارامطالبہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو جیو نیوزکے پروگرام ’’نیاپاکستان ‘‘میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

میزبان شہزاد اقبال نے کہا کہ معاشی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی استحکام ہوگا تاریخ نے ہمیں کئی دفعہ یہ سبق سکھایا لیکن ہم یہ سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، ملکی سیاست میں ایک بار پھر حکومت کو گھر بھیجنے کی باتیں کی جارہی ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی معیشت کی زبوحالی کو بنیاد بنایا جارہا ہے۔

بدقسمتی سے وقت سے پہلے حکومتیں گرنے کی وجہ سے حکومتوں کے منصوبے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے لیکن جن حکومتوں نے اپنے مدت پوری کی ہے انہوں نے کافی حد تک اپنی پالیسز اور منصوبوں کو مکمل کیا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ گورننس اور کارکردگی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو بھی حکومت ہو اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی آزادی ہو‘ مدت پوری ہوگی تب ہی حکومت اگلے الیکشن میں عوامی کٹہرے میں کھڑی ہوگی ‘اگر مدت سے پہلے حکومت ختم ہوگئی تو وہ حکومت عوام کے سامنے مظلوم بن جائے گی کہ انہیں اپنی پالیسز پر کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

ماضی بتاتا ہے کہ حکومتوں کو قبل از وقت گھر بھیجنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔1988 میں بے نظیر حکومت نے صنعتوں کی بحالی کے لئے پانچ سالہ منصوبہ بنایا لیکن سیاسی کمزوری کی وجہ سے ان کی توجہ اپنی حکومت کے استحکام پر مرکوز رہی وہ عوام کی فلاح پر خاص توجہ نہ دے سکیں،سیاسی حالات کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

بینظیر بھٹو کی حکومت سے پہلے 1988 میں ملک میں جی ڈی پی گروتھ سات اشاریہ چھ دو فیصد تھی اور معیشت کافی بہتر پرفارم کر رہی تھی اس کی بنیادی وجہ وہ ڈالرز تھے جو پاکستان کو افغانستان جنگ کی وجہ سے امریکہ سے مل رہے تھے مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے 1989 میں جی ڈی پی گروتھ چار اشاریہ نو فیصد رہ گئی اور 1990 میں مزید کم ہوگئی۔

اس کے بعد نوازشریف آئے وہ بھی کچھ کرنا چاہتے تھے‘ان کا پہلا دورِ حکومت بیس ماہ کا رہا‘مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی مگر پھر سیاسی محاذ آرائی اور قبل از وقت حکومت کی تبدیلی کے باعث ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق جی ڈی پی گروتھ 7.7 سے گر کر 1.7 پر آن گری۔ 

بینظیر کی طرح نوازشریف بھی مدت پوری نہ کرسکے جس کی وجہ سے ان کی پالیسز اور کام بھی تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔

تازہ ترین