• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا2020 ء بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا؟ عالمی سطح پر تبدیلیوں کی شروعات ہوچُکی؟کیا مشرقِ وسطیٰ، افغانستان، کشمیر، شمالی کوریا اور امریکا،چین ٹریڈ وار جیسے اہم تنازعات کے حل کی طرف بڑھیں گے؟ اِن سوالات کے جواب کے لیے دیکھنا ہوگا کہ عالمی قیادت اور طاقت وَر ممالک کی رائے عامّہ کیا سوچ رہی ہے۔ سال کے شروع میں امریکا نے دو بڑے اقدامات کیے۔ 

پہلا فلسطین کے مسئلے پر ٹرمپ منصوبہ اور دوسرا اہم قدم، ایران کی دوسری طاقت وَر ترین شخصیت، جنرل قاسم سلیمانی کی ڈرون حملے میں ہلاکت تھا۔ اِسی برس برطانیہ، یورپی یونین سے نکل گیا۔ گو کہ یہ تینوں اہم ایشوز ہیں، لیکن گزشتہ ایک ماہ سے جس معاملے نے سب سے زیادہ دنیا کی توجّہ حاصل کی، وہ چین میں پھیلنے والا، کورونا وائرس ہے۔ اس سے تادمِ تحریر 25سے زاید ممالک متاثر ہوچُکے ہیں، جب کہ چین میں پندرہ سو سے زاید اموات اور پچاس ہزار افراد کے متاثر ہونے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ اگر عالمی قیادت کی بات کی جائے، تو امریکا میں صدارتی انتخابات کے ابتدائی مراحل کا آغاز ہو چکا ۔ 

تاہم، امریکا، چین، روس، جاپان اور بھارت میں، جنہیں دنیا کے اقتصادی رہنما کی حیثیت حاصل ہے، لیڈرشپ کی تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اِسی طرح، مشرقِ وسطیٰ کی قیادت میں بھی کسی بڑی تبدیلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی جیسے بڑے ممالک میں بھی اس سال لیڈر شپ کا تسلسل برقرار رہے گا۔ جاپان، کوریا(جنوبی اور شمالی)، انڈونیشیا میں بھی صُورتِ حال جُوں کی تُوں رہے گی۔ ذرا دُور کینیڈا، برازیل، وینزویلا اور نیوزی لینڈ میں بھی کسی بڑی تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ اِس پس منظر میں یہ سوال اہم ہے کہ جب بڑے ممالک کی لیڈرشپ میں تبدیلی کا امکان نہیں، تو پھر دنیا میں کیا نیا ہوسکتا ہے؟

اگر دیکھا جائے تو بطورِ مجموعی2019 ء امن کا سال تھا۔ اُس میں اقتصادی ترقّی اور معاشی استحکام کی جدوجہد نمایاں رہی۔ البتہ بڑی طاقتوں میں مسابقت کی جنگ بھی جاری رہی۔ چین عالمی معاملات میں فعال کردار ادا کرنے کا اعلان کرچُکا، جب کہ روس کے صدر پیوٹن کی بھی سب سے بڑی خواہش اپنے مُلک کو پِھر سے عالمی طاقت بنانا ہے۔نیز، یورپ بھی اسی طرف بڑھ رہا ہے اور جاپان بھی موقعے کا منتظر ہی نہیں، بلکہ اس سمت میں کئی اقدامات اُٹھا چُکا ہے۔ امریکا اپنی اقتصادی، ٹیکنالوجی اور فوجی برتری قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ 

عالمی امور کے ماہرین کے لیے یہ ایک دل چسپ بات ہے کہ عالمی لیڈر شپ میں قوم پرستوں کی اکثریت کے باوجود باہمی تنائو، جنگ میں تبدیل نہیں ہوا۔ یہ لیڈرشپ گزشتہ کئی برسوں سے عالمی امور طے کر رہی ہے،اُن کے اختلافات بھی ڈھکے چُھپے نہیں، لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اُنہوں نے آپس میں ایک طرح کی انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرلی ہے اور کسی تنازعے کے سامنے آنے پر نپا تُلا بیانیہ اور ردّعمل اختیار کرتے ہیں۔ اگر کسی واقعے کی چیختی چنگھاڑتی شہہ سُرخیاں بنتی ہیں، تب بھی بہت جلد معاملات کنٹرول میں آجاتے ہیں۔ اسی لیے اکثر میڈیا اور سیاسی ماہرین کے تجزیے غلط ثابت ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ اب بھی عالمی معاملات کو روایتی انداز سے دیکھتے اور اپنا فیصلہ سُناتے ہیں۔ 

اِس ضمن میں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ، ایران کے جنرل سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت اور کورونا وائرس کے چین سے نکل کر دنیا میں پھیل جانے جیسے واقعات بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اگر اِس نوعیت کے واقعات پچاس سال پہلے ہوتے، تو دنیا شدید بحران کی لپیٹ میں آ چُکی ہوتی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ عالمی لیڈرشپ، قوم پرستانہ رُجحانات کے باوجود ایک عالمی ویژن رکھتی ہے، جس کا بنیادی نقطہ ہر حال میں عالمی ترقّی کو متاثر ہونے سے روکنا ہے۔تاہم، اس رویّے سے چھوٹے مُمالک میں مایوسی بھی جنم لیتی ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتیں اور اُن کی لیڈرشپ چھوٹے مُمالک کے تنازعات کے حل میں دِل چسپی نہیں رکھتی۔ 

اِسی وجہ سے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے کسی عملی حل کی طرف پیش قدمی سے قاصر ہیں۔ اِن عالمی طاقتوں کی کشمیر کے معاملے پر بے حِسی کا ذکر روز سُننے کو ملتا ہے۔ شام، افغانستان، لیبیا، یمن، شمالی کوریا کے مسئلے برسوں سے عالمی فورمز پر گھسیٹے جا رہے ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں ہلاکتیں ہو رہی ہیں، لیکن تنازعات حل نہیں ہو پارہے، تو اِس کی بنیادی وجہ عالمی لیڈرشپ کی عدم توجّہی ہے۔دراصل، ترقّی یافتہ ممالک اور اُبھرتی معیشتوں نے اپنے لیے اقتصادی ترقّی اور ٹیکنالوجی کے ملاپ سے وہ سہولتیں حاصل کرلی ہیں، جنھیں وہ کسی صُورت قربان کرنے کو تیار نہیں۔اس کے برعکس، چھوٹے اور پس ماندہ مُمالک اپنے عوام کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل مہیا کر رہے ہیں۔ 

لہٰذا، ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں، اِسی لیے وہ ہر وقت فوجی مہمّات اور جنگ کی دھمکیوں سے اپنا قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اسے غیرت اور حمیّت کا نام دیتے ہیں، حالاں کہ ہاتھوں میں کشکول تھامے دنیا کا چکر لگاتے پِھرتے ہیں اور اس میں کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ عالمی برادری کے درمیان یہی بنیادی فرق چھوٹے مُمالک کے تنازعات طے کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے اِن مُمالک کی قیادت کو بھی غور کرنا پڑے گا کہ کیسے بات چیت کے ذریعے تنازعات نمٹائے جا سکتے ہیں اور ساری توجّہ اپنے عوام کی خوش حالی ہی پر مرکوز رکھی جاسکتی ہے۔ یہ طریقہ جنوب مشرقی ایشیا میں جاپان سے چین تک دیکھا گیا اور اِس سے وہاں کے عوام تک ترقّی کے غیرمعمولی ثمرات پہنچے۔

یہاں یہ سوال بھی اُٹھایا جا سکتا ہے کہ آخر عالمی قیادت اتنی بے حس اور خود غرض کیوں ہے؟ اور وہ صرف اپنا ہی نفع نقصان کا کیوں سوچتی ہے؟اِس سوال کا جواب عالمی اقتصادی بحران ہے، جو 2007ء کے آخر میں شروع ہوا اور جس نے امریکا، یورپ، جاپان اور کسی حد تک چین جیسی بڑی معیشتیں ہلا کر رکھ دیں۔ سُپر پاور، امریکا میں صُورتِ حال یہ ہوگئی تھی کہ ہر ماہ لاکھوں افراد بے روزگار ہونے لگے تھے، اقتصادی ترقّی کا عمل منجمد ، مِڈل کلاس اور تن خواہ دار طبقے کے لیے بجٹ میں گزارہ مشکل ہوگیا تھا۔ امریکیوں نے اس طرح کے حالات دوسری جنگِ عظیم میں بھی نہیں دیکھے تھے،لہٰذا، عوام نے ردّعمل کے طور پر قوم پرست ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار میں لا کر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ کیوں کہ ٹرمپ کا نعرہ’’ امریکا فرسٹ‘‘ اور مُلک کی اقتصادی بحالی تھا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ ترقّی یافتہ دنیا جس تیزی سے عالمی اقتصادی بحران سے نکلی، تاریخ میں اِس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا ۔وگرنہ ماضی میں تو یہی دیکھا گیا کہ جو معاشی طور پر ڈوبا، غرق ہی ہوتا چلا گیا۔ اِس مرتبہ عالمی مالیاتی اداروں کی مضبوطی اور رہنماؤں کے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون نے بنیادی کردار ادا کیا۔ درحقیقت، اقتصادی بحالی مجموعی کوشش کی کام یابی تھی، جس نے لیڈرشپ اور متاثرہ ممالک کے عوام کو سبق دیا کہ نظریات کے اختلاف کے باوجود اقتصای تعاون جاری رہے، تو معیشت کو بدترین حالات میں بھی سنبھالا جاسکتا ہے۔ پھر بحرانی کیفیت اور جنگ سے پرہیز بھی ضروری ہے۔یہ پس منظر سامنے رکھا جائے، تو موجودہ عالمی قیادت کے رویّے اور اُس کی پالیسیز سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

2020 ء کا سب سے بڑا چیلنج چین کو’’ کورونا وائرس‘‘ کی شکل میں درپیش ہے۔ چین کے شہر، ووہان سے پھیلنے والا یہ وائرس جاپان، امریکا، برطانیہ اور افریقا تک جا پہنچا۔ لگ بھگ 25 مُمالک اس کی زد میں ہیں اور باقی دنیا بھی محفوظ نہیں۔ بیماری کی وجوہ اور علاج کی تفصیلات میں جائے بغیر دیکھا جائے، تو کورونا وائرس نے عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتّب کیے ہیں کہ چین کا عالمی معیشت میں بڑا حصّہ ہے۔ پچاس فی صد سے زاید تیار مال چین کی فیکٹریز سے تیار ہو کر باقی دنیا میں جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود، کورونا وائرس کسی بہت بڑی افراتفری کا سبب نہ بنا۔ اس کی ایک وجہ تو خود چین کی ترقّی اور عالمی معیارِ صحت ہے اور دوسری وجہ، عالمی ادارۂ صحت جیسے اداروں کی بروقت کارروائی ہے۔

مغربی ممالک میں اس وائرس کا بہت زیادہ شور سُنائی دیا، جس کا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور یورپ ماضی میں ایسے وائرسز سے بہت زیادہ نقصانات اُٹھا چُکے ہیں۔ تاہم، پس ماندہ مُمالک میں صحت کے حوالے سے زیادہ شعور ہے اور نہ ہی اِس طرح کے معاملات اُن کی اوّلین ترجیحات میں شامل، لہٰذا جب کورونا وائرس جیسے چیلنجز سامنے آتے ہیں، تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ ڈینگی ہرسال ہمارے لیے شدید پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ پولیو کسی حد تک ختم ہوا اور پھر واپس آگیا، لیکن ہمارے ہاں ان مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ہم عملی تیاریوں کی بجائے الزامات، سیاست اور توہمّات پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اسی لیے نقصان بھی زیادہ اُٹھاتے ہیں۔ 2020ء امریکا میں انتخابات کا سال ہے۔

صدر ٹرمپ حسبِ توقّع بڑی کام یابی سے مواخذے کو شکست دینے کے بعد اب پوری تن دہی سے دوسری ٹرم کے لیے جیت کی کوششوں میں مصروف ہوچُکے ہیں۔ اس کام یابی نے اُنہیں نہ صرف ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے لیے یقینی بنادیا، بلکہ ماہرین کے مطابق، اُن کی دوسری ٹرم کی صدارت بھی یقینی ہوگئی اور اب کوئی بڑا حادثہ ہی اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ حالیہ دنوں میں بھی عالمی معاملات میں زیادہ فعال کردار امریکا ہی کا رہا۔ 

ایران سے نیوکلیر ڈیل طے پانے سے بکھرنے تک امریکا ہی پیش پیش رہا۔ مشرقِ وسطیٰ میں شام، ایران، عراق، تُرکی، سعودی عرب سب ٹرمپ ہی کی پالیسیز کے گرد گھومتے رہے۔ شمالی کوریا کا معاملہ بھی ٹرمپ اور کم جونگ کے درمیان رہا۔ افغانستان کے معاملے سے بھی امریکا کا براہِ راست تعلق ہے۔مسئلہ کشمیر کو، جو عرصۂ دراز سے سَرد خانے میں پڑا تھا، مودی کی جلد بازی اور صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش نے ایک مرتبہ پھر نمایاں کردیا۔نیز، چین، امریکا ٹریڈ وار کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ بھی صدر ٹرمپ ہی کو جاتا ہے۔لگتا یہی ہے کہ امریکا میں انتخابات اور چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے یہ سال کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھے گا۔

بریگزٹ نے یورپ کو سال بھر کے لیے اپنے اندرونی معاملات میں مصروف کردیا ہے۔ برطانیہ میں بورس جانسن کی کام یابی نے دونوں، برطانیہ اور یورپ کو واضح سمت دی، تاہم،اُن کے اپنے چیلنجز ہیں۔ یورپ کے لیے بریگزٹ کے منفی اثرات روکنا اہم ہے، کیوں کہ وہاں اُبھرتی قوم پرست لیڈر شپ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ جس کا نتیجہ مزید مُمالک کی یورپی یونین سے علیٰحدگی کی صُورت میں نکل سکتا ہے۔جب کہ برطانیہ کا سب سے بڑا چیلنج نہ صرف معیشت کی ترقّی کو برقرار رکھنا ہے، بلکہ اُسے ایک عالمی طاقت میں بھی ڈھالنا ہے، کیوں کہ بریگزٹ کے حامیوں کا یہی دعویٰ تھا۔ 

گو کہ اس ضمن میں بورس جانسن اور صدر ٹرمپ کی دوستی بنیادی کردار کی حامل ہوسکتی ہے، لیکن اسے شاید یورپ میں زیادہ پسندیدگی سے نہ دیکھا جائے، کیوں کہ یہ یورپی یونین کی طاقت کو براہِ راست آزمائش میں ڈال سکتی ہے۔ اب یورپ، برطانیہ اور امریکا طاقت کا توازن کیسے قائم کرتے ہیں، یہ معاملہ ماہرین کی توجّہ کا مرکز رہے گا۔ جب امریکا، ایران کے ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہوا، تو یورپ نے، جس میں برطانیہ بھی شامل تھا، چین اور روس کے ساتھ مل کر معاہدہ برقرار رکھا، لیکن اب بریگزٹ کے بعد اس ایشو پر واضح تقسیم نظر آرہی ہے۔ بورس جانسن نئی ڈیل کی بات کر رہے ہیں، جب کہ جرمنی اور فرانس نے بھی ایران کی یورینیم افزودگی بڑھانے پر شکایت کا میکنزم فعال کردیا ہے۔ ہمارے خطّے میں چین اور بھارت بڑے مُلک ہیں۔ ان کی آبادی تقریبًا266 کروڑ ہے، جو دنیا کی ایک تہائی آبادی کے قریب ہے۔

اِن دونوں ممالک کے سرحدی تنازعات ہیں اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر اختلافات بھی، لیکن اس کے باوجود صدر شی جن پنگ اور وزیرِ اعظم، نریندر مودی میں اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ وہ ایک ارب ڈالرز سے زاید کی تجارتی پارٹنر شپ کے علاوہ، شنگھائی فورم اور برکس بینک میں بھی ایک ساتھ ہیں۔ اُدھر بھارت، امریکا کے اُس منصوبے کا بھی حصّہ ہے، جو جاپان کی مدد سے چین کی فوجی طاقت میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتا ہے۔ تاہم، ان سب ممالک کے اقتصادی مفادات اُنہیں کسی بحرانی کیفیت کی طرف جانے سے روکیں گے،اسی لیے ان کے درمیان تصادم ممکن نہیں۔ ہمارے جیسے مُلکوں کو اِس عالمی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیز کی سمت درست کرلینی چاہیے۔ 

عالمی طاقتیں واضح پیغام دے رہی ہیں کہ اُن کی ترجیح معیشت ہی ہوگی اور وہ 2020 ء میں کسی سیاسی یا جنگی تنازعے پر بہت کم توجّہ دے سکیں گی۔اِس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہمیں بھی اپنی تمام تر توجّہ اپنی معیشت ہی پر مرکوز رکھنی ہوگی۔بیرونی اور خارجہ معاملات میں زیادہ فعال رہنا سود مند نہیں ہوگا ۔ایک لحاظ سے یہ اچھا بھی ہے، کیوں کہ اِس سال اپنے سیاسی معاملات اور معاشی سمت درست کرنے کے بعد ہم اِس قابل ہوسکتے ہیں کہ بہتر طور پر اپنے معاملات دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ہم جس بدترین معاشی آزمائش سے گزر رہے ہیں، اس میں عوام کے لیے کسی خارجی محاذ میں دِل چسپی لینا ویسے بھی ممکن نہیں۔

تازہ ترین