• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماشاء اللہ ہم سب اس پاک سرزمین کے باسی ہیں جہاں ہر وقت فضل و کرم کی بارش برستی ہے اور مدھر ہواؤں میں خیالی فصلیں لہلہاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارا پورا معاشرہ تبلیغ اور تلقین کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ شاید ہی دنیا میں ہمارے علاوہ کوئی اور قوم ہو جہاں ہر فرد حکم اذاں کی اس قدر پاسداری کرے کہ لوگوں کی اصلاح اس کا منتہائے مقصود ٹھہر جائے، جہاں ہر فرد اس قدر نیک اور صالح ہو کہ ہر وقت امرباالمعروف اور نہی عن المنکر کی تفسیر بنا نظر آئے۔ بھلا تبلیغ کے کلچر کے حامل اس طرح کے معاشرے میں برائیوں اور منفی کارروائیوں کا کیا کام؟ نیکی کی تبلیغی اور تشہیری مہم کو موبائل پیغامات کے سستے پیکجز نے مزید پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ پیکجز متعارف کرانے والی کمپنیاں بھی یقینا اپنی آخرت کو سنوارنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اسی لئے انہوں نے بہت کم قیمت میں بھاری پیکجز متعارف کروا کے لوگوں کو مصروف کر رکھا ہے۔ مفت میسجز کی یہ نعمت بھی پاک سرزمین کے باسیوں کو خصوصی طور پر مہیا کی گئی ہے اور شاید یہاں کے لوگوں کو ان کے مسائل اور ان کے وسائل سے دور رکھنے کے لئے اس طرح کے اہتمام اور اقدامات کی ضرورت بھی تھی جو انہوں نے نیک نیتی سے پوری کر دی۔ بہرحال صبح بیدار ہوتے ہی سب سے پہلے ہم سب کو اپنے موبائل کی اسکرین پر احادیث، نصیحتوں، اقوال زریں اور تبلیغی احکامات سے مزین ڈھیروں پیغامات موصول ہوتے ہیں، ان کمپنیوں کے ہی مرہون منت ہیں جب کہ ان کے بھیجنے والوں کا مطمح نظر نیکی کے پرچار کے ساتھ ساتھ اپنی بخشش کا سامان بھی ہوتا ہے۔ اس لئے ہماری منت سماجت اور ناراضی انہیں ان کے نیک مقصد سے باز نہیں رکھ سکتی بلکہ بعض اوقات شکوہ کرنے پر چھوٹے موٹے فتوے بھی موصول ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے اپنی ایک دوست سے کہا ”ہر صبح تقریباً چار بجے تمہارے پیغامات موصول ہوتے ہیں، اتنی صبح اٹھ کر کیا کرتی ہو؟“ اس نے جواب دیا ”کرتی ورتی کچھ نہیں“۔ میں نے پھر حیرانی سے پوچھا تو پھر بیدار ہونے کی وجہ؟ اس نے معصومیت سے جواب دیا تمہیں شاید علم نہیں کہ لوگوں تک اچھی بات پہنچانا بہت بڑی نیکی ہے اور میں نے اس نیک مقصد کے لئے الارم لگایا ہوتا ہے، اس لئے علی الصبح اٹھ کر سارے گروپ کو ایک نصیحتی میسج بھیج کر دوبارہ سو جاتی ہوں۔ میں نے ازراہ تفنن کہا اتنی مصیبت مول لینے کا کیا فائدہ؟ دوسرے لفظوں میں، میں کہنا تو یہ چاہتی تھی کہ لوگوں کی نیند اور مزاج خراب کرنے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ وہ بولی یار کوئی پتہ نہیں کون سی نیکی کام آ جائے؟ میں نے پھر پوچھا اس تمام کارروائی میں نیکی والا عمل کون سا ہے؟ غصے سے بولی، غور کرو اگر ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک دو نے بھی میرے بھیجے ہوئے پیغام پر عمل کر لیا تو اپنی تو عاقبت سنور گئی نا۔ غور کیا جائے تو یہ رویہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ہمارے پورے سماج کا طرز عمل اور وتیرہ بن چکا ہے۔ ہم اچھے عمل کے بجائے اچھی تلقین کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی اصلاح سے زیادہ لوگوں کی اصلاح عزیز ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے سوا ہر فرد کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ خود کو عقلِ کل اور دوسروں کو ناقص العقل سمجھنا ہماری فطرت بن چکا ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اپنے گریبان میں نہ جھانکنے اور صرف دوسروں کو قابل اصلاح سمجھنے کا رویہ رفتہ رفتہ افراد سے اداروں تک سرایت کر گیا ہے۔ آج کوئی بھی ادارہ اپنی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے احتساب کے لئے تیار ہے نہ ہی وہ اس حوالے سے کوئی بات کرنا اور سننا پسند کرتا ہے مگر اسے دوسرے اداروں میں سو سو کیڑے ضرور دکھائی دے جاتے ہیں اور ان کی بہتر کارکردگی بھی بدتر نظر آتی ہے۔ سیاست دانوں کو یہ شکوہ ہے کہ سیکورٹی ادارے پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتے اور یہ کہ وہ سیاست میں مداخلت کر کے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کے مرتکب ہوتے ہیں جب کہ ان کے اپنے اداروں میں اصلاح کی بے شمار گنجائش موجود ہے اور وہاں ہونے والی بے ضابطگیاں سنگین نوعیت کی ہیں۔ اسی طرح کسی جرنیل سے بات کریں تو وہ پاکستان کی ہر طرح کی معاشی، معاشرتی و سماجی بدحالی اور سفارتی و سرحدی دہشت گردی کی ناکامی کی ذمہ داری سیاست دانوں پر عائد کرتے ہوئے جمہوریت اور جمہوری نظام کو لعن طعن کرتا نظر آئے گا۔ یہی حال بیوروکریسی، عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا بھی ہے۔ ان سب اداروں کو اپنے علاوہ سب میں نقص نظر آتا ہے اور یہ سب اپنی اصلاح کے بجائے دوسروں کی اصلاح کے نظریئے پر قائم ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں اصلاحِ عام کا سلسلہ یکسر ایک نکتے پر مرکوز ہو کر رہ گیا ہے، کیوں کہ ہم نے حکم اذاں کو عمل سے مبرا کر دیا ہے حالانکہ اس کا مقصد خود عمل کر کے دکھانے سے ہے۔ ظاہر اور باطن، داخلیت اور خارجیت کے اس تضاد نے صرف انسانی وجود کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو تقسیم کی سولی پر لٹکا رکھا ہے۔ دل کی خواہش، ذہن کی تاویل زبان سے ادا ہونے والے لفظ اور عمل میں ہم آہنگی کا فقدان ایک منافقانہ نقاب کا روپ دھار چکا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ دوسروں کو راہِ راست کی تبلیغ کر کے ایمان کی اشرفیوں سے اعمال کی تجوریاں بھرنے والے بادامی باغ جیسے واقعات میں دو افراد کی لڑائی کو مذہب کا رنگ دے کر معصوم شہریوں کے جذبات کو جنون کی آگ میں جلا کر انسانیت کو خاکستر کرنے کی کاوشیں کرتے ہیں۔ اندھے عقیدوں کے پرستار مزدوروں کے ووٹ خریدنے کے لئے بے معنی پروپیگنڈے کے پرچم پر مٹی کا تیل پھینک کر کمزور خود کو توانا کر لیتے ہیں اور رب کو اللہ کہنے والے رب کے نام پر رب کی مخلوق کے گھر ملیامیٹ کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف مظلوموں کی ظاہری ہمدردی کا دم بھرنے والے گاڈ کے پرستار لاہور کے میٹرو اسٹیشن کو جلا کر اپنی ذاتی انا اور غم و غصے کی تشہیر کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ یہ اسٹیشن ان کا اپنا تھا، ان کے لئے ہی بنایا گیا تھا۔ خدا کرے کسی روز ہم اپنی اصلاح اور احتساب کے رستے پر چل پڑیں۔ اپنی خامیوں کی تصحیح کریں اور دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے ان کی غلطیوں کی اس طرح نشاندہی کریں کہ انہیں ناگوار بھی نہ گزرے اور ان کے طرز عمل میں مثبت تبدیلی بھی آ جائے۔ تلقین اور تبلیغ کے اس کلچر کو اب تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے کیوں کہ اذان دینے کا مطلب اصلاحِ دیگراں نہیں بلکہ پہلے خود عمل کے کٹہرے سے گزرنے کا اعلان ہے۔ چلیں اپنی اصلاح کے سفر پر چلتے ہیں۔
تازہ ترین