کسی بھی اور پارٹی کے کارکن کو جیالا نہیں کہا جاتا، جیالے وہ لوگ ہیں جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے کے پیروکار ہیں۔ سیاستدان بہت ہوتے ہیں مگر لیڈر بہت کم۔ لیڈر بننے کے لئے پُرخار راستے کو چننا پڑتا ہے۔ مصیبتوں، صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اصولوں پر ڈٹ کے کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے لئےجان دینے کا جذبہ لے کر جینا پڑتا ہے۔
آخر پاکستان کے عوام آج تک ذولفقار علی بھٹو کو کیوں نہیں بھول سکے؟ اتنی دہائیاں گزر جانے کے باوجود کوئی لیڈر وہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکا جو ذوالفقارعلی بھٹو کو نصیب ہوئی ۔ جب بھٹو صاحب نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو کیسے کیسے لوگ ان کے ساتھ آگئے۔ ان میں بڑے بڑے جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ مفکر تھے، دانشور تھے، چھوٹے کسان اور غریب لوگ شامل تھے۔
لیکن کوئی بھی پارٹی اپنے ورکروں سے بنتی ہے اور جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ’’ایک بھٹو میں ہوں اور ایک بھٹو آپ ہیں‘‘تو لوگوں یہی محسوس کرنے لگے کہ ہم میں اور ہمارے لیڈر میں کوئی فرق نہیں۔ ان کے جلسوں میں یا میٹنگز میں شامل ہونے والے لوگ بتاتے ہیں کہ و رکرز کو پارٹی اور پارٹی پالیسی پر تنقید کرنے کی پوری آزادی تھی۔ بھٹو صاحب نے ورکرز کو زبان دی، اپنا حق لینے کا شعور دیا۔ انہوں نے سرعام کہاکہ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہے‘‘اور پھر جب غریب کے حق کا جھنڈا لے کر وہ عوام میں آئے توپاکستان پیپلز پارٹی مزدوروں کی، ہاریوں کی، کسانوں کی، ایک ریڑھی بان کی جماعت بن گئی۔ عوام کی طاقت نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ایک طاقتور ترین وزیر اعظم بنا دیا۔ انہوںنے ملک کو 1973ء کا پہلا دستور دیا اور ایک نئے بننے والے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی راہ ہموار کی۔
پیپلز پارٹی کا پہلا اعلان ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘کو لے کر اسلامی ممالک کے ساتھ دوستی اوربھائی چارے کی خاص بنیاد ڈالی۔ اور اس وقت جب بنگلہ دیش بن چکا تھا اور دنیا پاکستان کو کمزور سمجھ رہی تھی دنیائے اسلام کے سربراہوں کی کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد کروایا اور یہ وہ کانفرنس تھی جس میں سب سے زیادہ سربراہان مملکت نے شرکت کی۔ جب آج ہمارے لیڈر بیرون ملک جا کر انکساری اورعاجزی کے ساتھ ہاتھ باندھ کر مغربی رہنمائوںکو ملتے ہیں تو مجھےاقوام متحدہ میں کی گئی ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر اور ان کا واک آئوٹ یاد آجاتا ہے۔ یقیناً سیاست دان بننا آسان ہے لیڈر بننا نہیں۔ 15دسمبر 1977ءکا خطاب ملاحظہ کریں’’کیا آپ ہمیں بندوق سے خاموش کروانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ ہمیں بندوقوں سے چپ کروا سکیں گے؟ تو پھر ہم کیوں کہیں کہ ہم آپ کی ہر بات مانتے ہیں۔ آپ جو چاہے فیصلہ کریں لیکن آپ کافیصلہ ہم پر مسلط نہیں ہوسکتا۔‘‘
اور پھر آخر میں’’میں اس فیصلے کاحصہ نہیں بنوں گاہم لڑیں گے ہم واپس جائیں گے اور لڑیں گے۔ میرے ملک کے عوام ساتھ ہیں۔ پھر میں اپنا وقت یہاں سکیورٹی کونسل میں کیوں ضائع کروں۔ میں اس ہتھیار ڈالنے والے فیصلے کا حصہ نہیں بنوں گا۔ یہ سکیورٹی کونسل تمہاری ہے۔ یہ لو۔‘‘اور ایجنڈے کے کاغذ پھاڑ کے دنیا کے تمام بڑے بڑے لیڈرز کو حیران کرکے وہاں سے باہر نکل آئے۔ پھر جب ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ایک عالمی سازش کے تحت آمر وقت کے ہاتھوں پھانسی دی گئی تو ملک میں ایک کہرام مچ گیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا اور پھر ایک نعرے نے جنم لیا’’جب تک سورج چاند رہے گا.......بھٹو تیرا نام رہے گا۔‘‘
تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ بھٹو کا نام کیسے زندہ ہے؟ میں کہتی ہوں کہ کبھی گڑھی خدا بخش آ کر قطار میں لگی ہوئی قبروں کو دیکھو بھٹو سے لے کربی بی تک۔ زندہ وہی رہتے ہیں جن کو جان جانے کی پروا نہیں ہوتی۔ جو عوام کے دل پر راج کرتے ہیں۔ زندہ وہ رہتے ہیں جو ملک و قوم کے لئے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ بھٹو اس نظریے کا نام ہے۔ ایک جذبے کا نام ہے۔ ایک امید کا جو جیالے دلوں میں لئے، ہونٹوں پر لئے پھر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی تپسیا رائیگاں نہیں جائے گی۔ اس ملک کو ایک بھٹو کی ضرورت ہے جو کہ ہندو، مسلم، عیسائی، سب کا ہوگا۔ جو کہ عورت، اقلیت، غریب، کسان، مزدور، ان کے حق کی جنگ لڑے گا۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر۔اور تاریخ اسی کا نام بہادر لیڈروں میں لکھے گی۔