افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے، بین الاقوامی امور پر نگاہ رکھنے والے متعدد حقیقت پسند تجزیہ کاروں کے مطابق ،کسی ٹھوس ثبوت اور اطمینان بخش جواز کے بغیر فوج کشی اور اس کے جواب میں شروع ہونے والی ناقابل شکست مزاحمت نے پورے خطے کو پچھلے دو عشروں کے دوران مسلسل بدامنی کاشکار بنائے رکھا۔ تاہم بعد از خرابی بسیار چند ماہ پہلے موجودہ امریکی حکومت نے صورت حال کے فوجی کے بجائے سیاسی حل کا ہوشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنی افواج کی واپسی کے لیے افغان مزاحمت کو منظم کرنے والی تحریک طالبان کی قیادت کے ساتھ سنجیدہ اور بامقصد بات چیت کا راستہ اختیار کیا ۔اس کے نتیجے میں گزشتہ روز افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی اور قیام امن کے لیے طالبان قیادت اور امریکی حکومت کے درمیان معاہدے پر دستخطوں کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور طالبان ترجمان دونوں کی جانب سے متوقع طور پر انتیس فروری کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے ۔ فریقین کے مطابق معاہدے پر دستخط کی تقریب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہوگی۔اس مقصد کی خاطر سازگار ماحول تشکیل دینے کے لیے طالبان کی جانب سے رواں ہفتے کے دوران مسلح کارروائیوں میں شدت سے گریز پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ معاہدہ ہوگیا تو بارہ ہزار سے زائد امریکی افواج میں سے تقریباً نصف کی واپسی جلد عمل میں آجائے گی۔ دنیا کو جنگ و جدل اور خوں ریزی سے پاک دیکھنے کے آرزومند ہر شخص کے لیے بلاشبہ یہ ایک تاریخ ساز خوش خبری ہے بشرطے کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد مختلف افغان گروپوںکے درمیان باہمی خوں ریزی جاری رہنے کے خدشات کا مکمل سدباب بھی یقینی بنایا جائے جس کے تباہ کن مظاہر پچھلی صدی کے آخری عشروں میں سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد دنیا دیکھ چکی ہے۔ مائیک پومپیو نے یہ تو بتایا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت طالبان امریکہ معاہدہ طے پاجانے کے بعد شروع ہوگی لیکن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان امریکہ معاہدے کے حوالے سے فی الوقت یہ بات واضح نہیں کہ یہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے کوئی جامع معاہدہ ہوگا اور اس میں مستقبل کے نظام کے لیے افغان گروپوں کے درمیان بات چیت کو کامیاب بنانے کی تدابیر بھی شامل ہوں گی یا بنیادی طور پر اس کا مقصد صرف امریکی افواج کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانا ہوگا۔ افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کا یہ بیان بہرحال امید افزاء ہے کہ اگر طالبان کی جانب سے ایک ہفتے تک ’’ تشدد میں کمی‘‘ کی یقین دہانی پر عمل کیا گیا توافغان حکومت طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کردے گی۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی بھی چند روز پہلے طالبان امریکہ معاہدے کی کامیابی کی ضرورت کا اظہار کرچکے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس بار وہ تحفظات لاحق نہیں جن کا نہایت جارحانہ اظہار انہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں کیا تھا جب طالبان اور امریکہ معاہدے پر دستخط کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن پھر صدر ٹرمپ نے اچانک مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کردیا تھا۔پاکستانی دفتر خارجہ نے معاہدے پر دستخط کی تاریخ کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے بجاطور پر توقع ظاہر کی ہے کہ تمام متعلقہ فریق قیام امن کے اس موقع کا درست استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں پائیدار امن کی خاطر مستقل اور متفقہ سیاسی نظام کی صورت گری کا اہتمام کریں گے۔ اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر محال ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے یہ امریکہ کی ناگزیر ذمہ داری بھی ہے لہٰذا صدر ٹرمپ کو اپنے دورہ بھارت میں اس سمت میں مؤثر پیش رفت کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔